ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ

چین نے شروع سے تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کے ساتھ تعاون کیا اور کئی مشترکہ منصوبے شروع کیے ۔


Mahnaz Rehman November 08, 2014

بیجنگ (چین) میں آٹھ سالہ قیام کے دوران بہت سے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، مگر 17 ستمبر 1987 کا دن مجھے ہمیشہ یاد رہے گا، کیونکہ اس دن میری ملاقات پاکستان کے نامور فرزند اور بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام سے ہوئی ۔ وہ بیجنگ میں تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کی دوسری جنرل کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے ۔ کانفرنس کا آغاز 14 ستمبر 1987 کو ہوا تھا ۔ چینی وزیراعظم چاؤزے یانگ نے اس کانفرنس کا افتتاح کیا تھا اور دنیا بھر سے ممتاز سائنسدان اس کانفرنس میں شرکت کرنے آئے تھے۔ تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کا قیام 1983 میں عمل میں آیا، اور اس کی پہلی کانفرنس 1985 میںاٹلی میں پیریز ڈی کیولر، جنرل سیکریٹری اقوام متحدہ کی صدارت میں ہوئی تھی ۔ چین نے شروع سے تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کے ساتھ تعاون کیا اور کئی مشترکہ منصوبے شروع کیے ۔

17 ستمبر کو ڈاکٹر عبدالسلام نے اس کانفرنس کے شرکا کے لیے ایک دعوت کا اہتمام کیا، جس میں انھوں نے پاکستانی کمیونٹی کو بھی مدعو کیا تھا۔ اسی دعوت میں مجھے اس مشہور عالم ہستی سے گفتگو کا موقع ملا۔ اس روز ڈاکٹر صاحب نے سیاہی مائل سرمئی رنگ کا دھاری دار سوٹ پہن رکھا تھا۔ خشخشی داڑھی اور نظر کا موٹا چشمہ لگائے، وہ ایک سیدھے سادے، منکسرالمزاج شخص دکھائی دیتے تھے لیکن ان کی آنکھوں کی غیر معمولی چمک ظاہر کرتی تھی کہ میرا مخاطب کوئی عام انسان نہیں تھا۔

ڈاکٹر عبدالسلام سے میرا پہلا سوال تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک اپنے محدود وسائل کے ساتھ سائنسی ترقی کیسے کرسکتے ہیں؟ڈاکٹر عبدالسلام کا کہنا تھاکہ جنوب اور شمال میں معیار زندگی کے بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا فرق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شمال میں جنوب کے مقابلے میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر قومی آمدنی کا زیادہ حصہ خرچ کیا جاتا ہے، اب تک تیسری دنیا کے پانچ یا زیادہ سے زیادہ آٹھ ممالک ایسے ہیں جو سائنس کو اہمیت دیتے ہیں اور جہاں سائنسدانوں کی تعداد خاطر خواہ ہے۔ ان ممالک میں لاطینی امریکا میں ارجنٹائن، برازیل اور میکسیکو، ایشیا میں چین اور ہندوستان اور جنوبی کوریا اور افریقہ میں مصر اور نائیجیریا شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا کہنا تھا کہ سائنسی ترقی کے چار مراحل ہیں، سب سے پہلے ہمیں ہر سطح پر اور خصوصاً اعلیٰ سطح پر انجینئروں اور ٹیکنالوجسٹس بنانے کے لیے اور سائنسی تربیت کے لیے سائنسی خواندگی اور سائنسی تربیت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سائنس کے اچھے ٹیچرز درکار ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو اپنی سائنسی برادری سے اور متعلقہ صنعتوں سے مشورہ طلب کرنا چاہیے کہ ملک کو کس قسم کی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے اور جو قابل حصول ہے، اس کا جواب دینے کے لیے سائنسدانوں کا اپنے ملک کے مسائل سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ تیسرے مرحلے میں ترقی پذیر ممالک سے کچھ کو ایسے بنیادی سائنسدانوں کی ضرورت ہے جو اپنے ایپلائڈ رفقا کے تحقیقی کاموں میں مدد دے سکیں۔ ہر معاشرے کے لیے اس کے (1) زرعی مسائل، (2) مقامی کیڑے اور بیماریاں (3) مقامی دھاتیں اور معدنیات سے متعلق مسائل مقامی طور پر ہی حل کیے جانے چاہئیں۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا کہنا تھا کہ جہاں تک سائنس کے بارے میں حکومت کے فرائض کا تعلق ہے تو ان کی خواہش ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے صدور کو امریکا کے صدر کی تقلید کرتے ہوئے ریاضی کو خاطر خواہ اہمیت دینی چاہیے کیونکہ سائنس، کامرس اور آرٹس میں ترقی کی کلید ریاضی کا شعور ہے۔

میرا اگلا سوال تھا: ڈاکٹر عبدالسلام آپ پاکستان کے پہلے شخص ہیں جسے نوبل انعام ملا، اتنا بڑا اعزاز حاصل کرنے کے بعد اب مستقبل کے بارے میں آپ کے کیا خواب اور منصوبے ہیں؟

یہ سوال کر کے مجھے یوں لگا جیسے میں نے نادانستگی میں ڈاکٹر عبدالسلام کے دل میں چھپے ہوئے زخموں کو کھرچ ڈالا ہو۔ انھوں نے بہت دکھ بھرے لہجے میں کہا: مستقبل کے متعلق عرض یہ ہے کہ آج جو میں ملک سے باہر بیٹھا ہوں تو باہر بیٹھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ ٹیگور کو نوبل پرائز ملا تھا تو اپنے دیس میں اس نے شانتی نکیتن بنایا تھا، جہاں وہ اپنی قوم کے بچوں کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتا تھا لیکن میرے لیے پاکستان میں کوئی شانتی نکیتن نہیں ہے ۔تو کیا آپ پاکستان آنا چاہتے ہیں؟ میں نے پوچھا۔''کیسی باتیں کرتی ہیں آپ'' ( ڈاکٹر عبدالسلام تڑپ اٹھے)۔ یہ آپ لوگوں پر ہے ۔ آپ ایسے حالات پیدا کریںکہ میں پاکستان آکر کام کرسکوں ۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا یہ دکھ ہمیشہ میرے دل میں چھپا رہا اور جب سے ملالہ کو نوبل امن انعام ملا ہے مجھے ان کا متذکرہ بالا جملہ بار بار یاد آتا ہے، ہم نے پاکستان میں وہ حالات تو کیا پیدا کرنے تھے کہ ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگ یہاں آکر کام کرسکتے، ہم نے تو تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند بچی پر گولیاں برسانے والے سنپولوں کو دودھ پلایا اور اپنی بچی کے خلاف سازشی نظریات تخلیق کیے ۔ وہ دو لوگ جنھوں نے نوبل انعام حاصل کرکے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا، ہم نے اسی ملک کے دروازے ان پر بند کردیے۔

آخر ڈاکٹر عبدالسلام اور ملالہ کا قصور کیا تھا؟ کیا علم حاصل کرنا اور تحقیق کرنا جرم ہے؟ کیا صنف، فرقہ اور مذہب کی بنیاد پر اپنے شہریوں میں تفریق کرنا جائز ہے ۔ ملالہ نے گیارہ سال کی عمر سے سوات میں بچیوں کی تعلیم کے حق کے لیے آواز بلند کرنا شروع کی تھی۔ 9 اکتوبر 2012 کو طالبان نے اس پر گولیاں برسا کر اس کی آواز خاموش کرنے کی کوشش کی تھی۔ آج 2014 میں نوبل انعام حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہے۔ انتہاپسند حلقے چاہے کتنی ہی سازشی تھیوریز گھڑ لیں، پاکستان کے عوام کی اکثریت ملالہ کے ساتھ ہے۔ جب 2013 میں اسے پہلی بار نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا تو پاکستانی عوام نے اس پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور اب جب وہ یہ انعام حاصل کرچکی ہے تو ہم اسے پاکستان کے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ قبل ازاں وہ ستارہ شجاعت سمیت دو قومی ایوارڈز بھی حاصل کرچکی ہے ۔

ملالہ یہ ایوارڈ جیتنے والی دنیا کی سب سے کم عمر شخص ہے۔ اسے اور ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی کو یہ ایوارڈ مشترکہ طور پر ملا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی سرحدوں پر پائے جانے والی کشیدگی کے پیش نظر امن پسندوں کے لیے یہ ایوارڈ ایک علامتی اہمیت بھی اختیار کرگیا ہے کیونکہ یہ ہندوستان اور پاکستان کو مشترکہ طور پر ملا ہے۔ یہ ایک ہندو مرد اور مسلمان لڑکی کو مشترکہ طور پر ملا ہے، دونوں اپنے اپنے ملک میں علم کی روشنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ ملالہ نے اتنی کم عمری میں یہ اعزاز حاصل کرکے تاریخ رقم کی ہے لیکن عسکریت اور مذہبی انتہاپسند حلقے اسے کفار کا ایجنٹ قرار دینے پر تلے رہتے ہیں۔

ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد ملالہ اور اس کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخارالدین کو فون کرکے پاکستانی قوم کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایوارڈ صرف ملالہ کو نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کو ملا ہے۔ اس قوم کو جو ایک منصفانہ، جدید، تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس موقع پر ہم ڈاکٹر عبدالسلام کو فراموش نہیں کرسکتے۔ 21 نومبر کو ان کی برسی ہوگی۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں۔ پاکستان میں ایک بین الاقوامی تحقیقی مرکز کا قیام ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا جو پورا نہ ہوسکا۔ ہر وہ شخص جو پاکستان سے محبت کرتا ہے اسے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیم اور سائنسی ترقی کے بغیر پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔