تیل کی جنگ کون جیتے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
امریکا اگر منصوبے کے تحت روس اور ایران کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہے ہیں، تواس کا خمیازہ پوری دنیا بھگتےگی
اکتوبر 2014 کے وسط میں ایشیئن آئل مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں، جب گذشتہ دو سال کی کم ترین سطح پر پہنچیں اورعالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان جاری رہا تو دنیا بھر میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ امریکا کا یہ کھیل کیا روس اور ایران کے خلاف کارگر ثابت ہوگا؟
یہ قیاس آرائیاں تب سامنے آئیں، جب کاروباری سرگرمیوں کے دوران نیو یارک میں ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کے نومبر کے لیے اہم ترین سودے 65 سینٹ کی کمی کے ساتھ 85.09 ڈالر فی بیرل اور برنٹ نارتھ سی کروڈ کے نومبر کے لیے ڈیلوری کے سودے 74 سینٹ کی کمی کے ساتھ 88.15 ڈالر فی بیرل میں طے پائے۔ اُس وقت اکتوبر میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت گذشتہ ستائیس ماہ کی کم ترین سطح پر تھی ۔ ان حالات میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ خام تیل کی وافر سپلائی اور امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے قیمتوں میںکمی دیکھی جارہی ہے، جو عالمی منڈی میں چار سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکیں تھیں۔
خام تیل کی طلب میں کمی اور وافر ترسیل کی وجہ سے قیمتوں میں کمی کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی جانب سے خام تیل کی عالمی طلب میں کٹوتی کے اعلان کے بعد قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی تھی۔ اس صورت حال پر عالمی ماہرین اورذرائع ابلاغ نے جو کچھ کہا، اس نے امریکا بہادر کی ایک نئی چال کا جہاںبھانڈا پھوڑ دیا اور آنے والے دنوں میں نئی عالمی صورت حال کے خدوخال بھی واضح کر دیے۔
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار تھامس ایل فرائڈ مین کے مطابق '' امریکااور سعودی عرب، اگر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یا حادثاتی طور پر روس اور ایران کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہے ہیں، تو اس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔ تیل کا کار و بار ایک تجارت ہے، جو اب جنگ میں بدل رہی ہے۔ دنیا کے تیل پیدا کرنے والے ملکوں لیبیا، عراق، نائجیریا اور شام میں بدامنی کے باوجود تیل کی قیمتیں اتنی کم ہو چکی ہیں کہ اتنا گراؤ گذشتہ کئی برسوں میں دیکھنے میں نہیں ایا حال آں کہ ''آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز'' نے خام تیل کی پیداوار میں کمی نہ لانے کا فیصلہ کیا تھا اورکویت کے وزیر پیٹرولیم علی العمیر نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ خام تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں موسم سرما کے دوران مستحکم ہو جائیں گی'' مگر دوسرے تجزیہ کار تیل کی قیمتوں میں اس قابل قدر کمی کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔
ان میں امریکا کی تیل کی پیداوار میں اضافہ، یورپ اور چین کی معیشتوں میں سست روی اور تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی پیداوار میں استحکام بتایا جاتاہے مگر فرائڈ مین تیل کی قیمتوں میں کمی کے اسباب کے بجائے اس کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں '' روس اور ایران میں بجٹ کا خسارہ ، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس سے فائدہ کس کو ہو گا؟ امریکا چاہتا ہے کہ روس پر یوکرائن کے حوالے سے لگائی اقتصادی پابندیوں کا زیادہ سے زیادہ اثر ہو مگر وہ دوسری طرف شام میں ایران کے خلاف غائبانہ جنگ بھی لڑ رہا ہے''۔
تھامس فرائڈ مین کا خیال یہ ہے کہ نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ جب ایران کی معاشی بہتری کی وجہ سے مذاکرات میں ایرانی حکام کی پوزیش بہتر ہوئی اور ایرانی مذاکرات کاروں کو یقین ہو گیا کہ مذاکرات کی ناکامی اور مزید اقتصادی پابندیوں کے باوجود وہ مقررہ اہداف حاصل کرلیں گے، تو اُس وقت مشکلات کو بڑھایا جا رہا ہے اور یہ واقعی بڑھ چکی ہیں''۔
دنیا میں اس وقت فرائڈ کی نئی سرد جنگ کا نظریہ ہی گردش نہیں کر رہا مبصرین کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی امریکا میں تیل کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے بھی ہوئی ہے اور یہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں سعودی عرب کی حیثیت کے لیے ایک خطرہ بھی ہے اور اس سارے پس منظر میں روس اور ایران خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے ۔
دوسری جانب روس کے ذرائع ابلاغ نے بھی اس کھیل کو بھانپ لیا ہے۔ ایک روسی اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ روس کی معیشت کا توانائی کے ذرائع، تیل اور گیس پر اس حد تک انحصار ہے کہ اسے ایک نشے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اس معاملے میں تیل کی قمیتوں میں کمی، روس کو تکلیف دینے کے مترادف ہے اور ایسا ہی ہے جیسے ایک عادی نشے باز کا نشے کا مواد روک لیا جائے۔ ایسا واضح طور پر عالمی سیاست میں مخصوص مقاصد کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ روس کی معیشت کو کم زور کر کے عالمی میدان میں اس کے اثر و رسوخ کم کیا جا سکے۔
لاس اینجلس ٹائمز کے پال ریچر نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس امر سے روس اور ایران تیل کی قیمیتوں کے اثرات کو محسوس کریں گے تاہم وہ اتنی دور کی کوڑی نہیں لاتے کہ اسے کوئی خفیہ جنگ قرار دیں۔ ریچر کا کہنا ہے کہ معاشی دباؤ میں ولادی میر پوٹن یوکرائن پر اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لیے امریکا کے ساتھ اپنا جارحانہ طرز عمل نہیں بدلیں گے لیکن معاشی دباؤ سے ولادی میر پوٹن کے روس کی اشرافیہ اور بزنس کلاس سے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ اُن کی سیاسی حمایت کے دو اہم ستون ہیں۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے، تیل کی قیمت سو ڈالر فی بیرل سے کم ہونے سے اس کو اتنا بڑا خسارہ ہو گا کہ جوہری پروگرام پر مغربی طاقتوں سے مذاکرات میں اس کی پوزیش اب کم زور پڑ جائے گی۔
بھارت کے تجزیہ کار عقیل حداد لکھتے ہیں کہ سعودی عرب نے عالمی سیاسی بحرانوں میں تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھا ہوا ہے۔ امریکا کی تیل کی پیداور میں ستر فی صد اضافے کے بعد صورت حال مختلف ہو چکی ہے۔ سعودی عرب توازن برقرار رکھنے کے لیے شیل تیل پیدا کرنے والوں کے مقابلے میں اپنی کم پیدواری قیمت کا فائد اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ سعودی عرب غالباً تیل کی قیمتوں کو 75 اور 80 ڈالر فی بیرل کی سطح تک گرنے دے گا (آخری اطلاعات کے مطابق قیمتیں اس سطح تک گرنے ہی والی ہیں) اور قیمتوں کو اس سطح پر کچھ عرصے تک برقرار بھی ر کھے گا تاکہ امریکا میں تیل پیدا کرنے والوں کے لیے اس دھندے میں رہنا مشکل ہو جائے۔
اس عمل سے وہ اپنے تیل کی قیمت کا تعین کرنے کی قوت بحال کرنا چاہتا ہے۔ اب بات جو صاف نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اتنی کمی سے عالمی اسٹیج پر فتح اور شکست بڑی واضح متصورہو گی مگر جو بات واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے اگر کوئی ہے، تو وہ کون ہے؟ یہ انسانی نفسیات ہے کہ جن چیزوں میں نقصان اور فائدہ اس قدر زیادہ ہو، ان کے پیچھے سازش ہمیشہ ڈھونڈی جاتی ہے۔
عالمی سطح پر تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے رجحان کا عمل سال 2012 سے دیکھا جا رہا ہے لیکن اب یہ بحث عالمی ایشو بن چکی ہے۔ جولائی 2014 میں خام تیل کی عالمی سطح کی قیمت میں 4.21 ڈالر فی بیرل کمی ہوئی، تو بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے اُس ہفتے سونے پر توجہ بڑھا دی تھی لیکن اس کے باوجود تیل کی منڈی میں مسلسل تنزلی رہی مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تیل کی قیمتوں میں کمی عالمی سطح پر سود مند ہو گی؟ کیوں کہ تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کرنے کے فیصلے کے بعد ایشیائی منڈیوں میں خام تیل کی فی بیرل قیمت مزید کم ہوکر91 ڈالر 39 سینٹ ہو گئی ہے۔ گذشتہ ساڑھے چارسال میں یہ تیل کی سب سے کم فی بیرل قیمت ہے۔
جب الجزائیر میں منعقدہ اجلاس میں اوپیک نے اپنی یومیہ پیداوارمیں دو، دو ملین بیرل کی کمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس حوالے سے رولف وینکل کا لکھا تبصرہ یوں تھا ''عجیب بات ہے کہ اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ بھی قیمتوں میں اضافے کا سبب نہ بن سکا اور قیمتیں مزید گرگئیں۔ یہ خبر موٹر گاڑیوں کے مالکوں، فضائی کمپنیوں، سردیوں میں تیل سے ہیٹرچلانے والوں اور صنعتی اداروں سب کے لیے اچھی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی پوری عالمی معیشت کے لیے ایک اچھی خبر ہے، تویہ غلط نہ ہوگا۔
ماہرین کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست تعلق تیل کی طلب سے ہے اور ساتھ ہی اس کا تعلق عالمی مالیاتی بحران سے بھی بنتا ہے۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمت جہاں معاشی استحکام کا باعث بنتی ہے، وہیں یہ مالی بحران کی شدت کم کرنے میں مدد بھی دے گی۔ آج کل دنیا بھرمیں لوگ اقتصادی بحران کی وجہ سے اخراجات میں کمی کررہے ہیں تو ایسے میں تیل کی قیمتوں میں کمی امید کی ایک کرن ہی ہے۔ ساتھ ہی یہ گرتی ہوئی قیمتیں افراط زر کو کم کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں اور یہ ہی کم تر قیمتیں، مرکزی بینکوں کے لیے کرنسی کی قدر و قیمت کو کم رکھنے کا ہدف ترک کیے بغیر سود کی شرح کو کم کرتے ہوئے مالی بحران کا مقابلہ کرنے کو بھی ممکن بناتی ہیں۔ اس حوالے سے بھی تیل کی قیمتوں میں کمی ایک اچھی خبر ہے'' مگر پاکستان میں اب بھی خیر سے دنیا سے کٹ کر معاملات چلائے جارہے ہیں۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں جب تیل کی قیمت 115 ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح سے 80 ڈالر فی بیرل پر آئی تو ساری دنیا کی حکومتوں نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ ملک کے غریب اور مڈل کلاس طبقوں تک ٹرانسفر کیا لیکن پاکستان کے وسائل پر قابض مافیاز نے وہ30 فی صد تیل، جو پاکستان میں پیدا ہوتا ہے، اُس پر بھی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کو لاگو نہ ہونے دیا۔ دوسری بات اس سے بھی زیادہ سنگین یہ ہوئی کہ اسٹیٹ بینک کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے پہلے ہفتے میں حکومت نے ساڑھے ستانوے ارب سے زیادہ کا قرض اسٹیٹ بینک سے لیا۔ یہ قرض بادشاہ، شہزادوں اور ان کے درباریوں کے اخراجات پورا کرنے پر خرچ کیا گیا۔
اکتوبر کے شروع میں ہونے والی قیاس آرائیوں کے بعد اب یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ تیل کی قمیت ایک مرتبہ پھر 147 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائے گی۔ ان سب حقائق کو دیکھا جائے تو اوپیک کا یہ کہنا کہ تیل کی قیمت 70 سے 80 ڈالر کے درمیان ہونی چاہیے، غلط نہیں۔ اس سے یہ ہو گا کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک اور صارفین ۔۔۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی۔ تقریباً ایک برس قبل ان ہی دنوں میں تیل کی قیمت نے100 ڈالرفی بیرل کی ریکارڈ سطح کوچُھولیا تھا۔ کارپوریٹ میڈیا میں اب نئے قیاس کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ گیا وقت، جلد ہی لوٹ آنے والا ہے۔
جب کہ دوسری جانب محتاط مبصرین یہ کہ رہے ہیں کہ تیل کی قیمت میں کمی کے صرف فوائد ہی نہیں، نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ اوپیک نے ایسا یوں ہی نہیں کہا کہ فی بیرل تیل کی قیمت 70 سے 80 امریکی ڈالر کے درمیان ہونی چاہیے۔ موجودہ صورت حال میں تقریباً فی بیرل 40 ڈالر قیمت تیل کی منڈی کو اس مجوزہ ہدف سے کافی دور رکھے ہوئے ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو زبردست نقصان کا سامنا ہے، جس سے ان کی ترقی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ترقی میں پیش رفت نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تیل کی قیمتیں ایک بار پھر آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔ اُن کا موقف یہ بھی ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تیل کے تقریباً چھے فی صد کنوئیں تیل ختم ہوجانے کی بنا پر بند کیے جا رہے ہیں۔
نئے کنوؤں کی تلاش اورایسے ہی دیگر منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کی رقوم درکار ہوتی ہیں۔ تیل کمپنیوں کو خسارے کی وجہ سے آج کل اس شعبے میں سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے کیوںکہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی ان ترقیاتی کاموں کے لیے کافی نہیں ۔ سستے تیل کو میٹھے زہرسے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں اس شعبے میں ہونے والی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کم ہوچکی ہے اور قابل تجدید توانائی کے حوالے سے اصلاحاتی پروگرام بھی متاثرہو رہے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ معاشی صورت حال کے ایک مرتبہ پھر مستحکم ہوتے ہی تیل کی مانگ میں اضافہ ہو گا اور صورت حال یک سربدل جائے گی۔
یہ قیاس آرائیاں تب سامنے آئیں، جب کاروباری سرگرمیوں کے دوران نیو یارک میں ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کے نومبر کے لیے اہم ترین سودے 65 سینٹ کی کمی کے ساتھ 85.09 ڈالر فی بیرل اور برنٹ نارتھ سی کروڈ کے نومبر کے لیے ڈیلوری کے سودے 74 سینٹ کی کمی کے ساتھ 88.15 ڈالر فی بیرل میں طے پائے۔ اُس وقت اکتوبر میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت گذشتہ ستائیس ماہ کی کم ترین سطح پر تھی ۔ ان حالات میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ خام تیل کی وافر سپلائی اور امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے قیمتوں میںکمی دیکھی جارہی ہے، جو عالمی منڈی میں چار سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکیں تھیں۔
خام تیل کی طلب میں کمی اور وافر ترسیل کی وجہ سے قیمتوں میں کمی کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی جانب سے خام تیل کی عالمی طلب میں کٹوتی کے اعلان کے بعد قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی تھی۔ اس صورت حال پر عالمی ماہرین اورذرائع ابلاغ نے جو کچھ کہا، اس نے امریکا بہادر کی ایک نئی چال کا جہاںبھانڈا پھوڑ دیا اور آنے والے دنوں میں نئی عالمی صورت حال کے خدوخال بھی واضح کر دیے۔
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار تھامس ایل فرائڈ مین کے مطابق '' امریکااور سعودی عرب، اگر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یا حادثاتی طور پر روس اور ایران کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا رہے ہیں، تو اس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔ تیل کا کار و بار ایک تجارت ہے، جو اب جنگ میں بدل رہی ہے۔ دنیا کے تیل پیدا کرنے والے ملکوں لیبیا، عراق، نائجیریا اور شام میں بدامنی کے باوجود تیل کی قیمتیں اتنی کم ہو چکی ہیں کہ اتنا گراؤ گذشتہ کئی برسوں میں دیکھنے میں نہیں ایا حال آں کہ ''آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز'' نے خام تیل کی پیداوار میں کمی نہ لانے کا فیصلہ کیا تھا اورکویت کے وزیر پیٹرولیم علی العمیر نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ خام تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں موسم سرما کے دوران مستحکم ہو جائیں گی'' مگر دوسرے تجزیہ کار تیل کی قیمتوں میں اس قابل قدر کمی کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔
ان میں امریکا کی تیل کی پیداوار میں اضافہ، یورپ اور چین کی معیشتوں میں سست روی اور تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی پیداوار میں استحکام بتایا جاتاہے مگر فرائڈ مین تیل کی قیمتوں میں کمی کے اسباب کے بجائے اس کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں '' روس اور ایران میں بجٹ کا خسارہ ، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس سے فائدہ کس کو ہو گا؟ امریکا چاہتا ہے کہ روس پر یوکرائن کے حوالے سے لگائی اقتصادی پابندیوں کا زیادہ سے زیادہ اثر ہو مگر وہ دوسری طرف شام میں ایران کے خلاف غائبانہ جنگ بھی لڑ رہا ہے''۔
تھامس فرائڈ مین کا خیال یہ ہے کہ نئی سرد جنگ شروع ہو چکی ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ جب ایران کی معاشی بہتری کی وجہ سے مذاکرات میں ایرانی حکام کی پوزیش بہتر ہوئی اور ایرانی مذاکرات کاروں کو یقین ہو گیا کہ مذاکرات کی ناکامی اور مزید اقتصادی پابندیوں کے باوجود وہ مقررہ اہداف حاصل کرلیں گے، تو اُس وقت مشکلات کو بڑھایا جا رہا ہے اور یہ واقعی بڑھ چکی ہیں''۔
دنیا میں اس وقت فرائڈ کی نئی سرد جنگ کا نظریہ ہی گردش نہیں کر رہا مبصرین کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی امریکا میں تیل کی پیداوار میں اضافے کی وجہ سے بھی ہوئی ہے اور یہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں سعودی عرب کی حیثیت کے لیے ایک خطرہ بھی ہے اور اس سارے پس منظر میں روس اور ایران خاموش تماشائی نہیں بنے رہیں گے ۔
دوسری جانب روس کے ذرائع ابلاغ نے بھی اس کھیل کو بھانپ لیا ہے۔ ایک روسی اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ روس کی معیشت کا توانائی کے ذرائع، تیل اور گیس پر اس حد تک انحصار ہے کہ اسے ایک نشے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اس معاملے میں تیل کی قمیتوں میں کمی، روس کو تکلیف دینے کے مترادف ہے اور ایسا ہی ہے جیسے ایک عادی نشے باز کا نشے کا مواد روک لیا جائے۔ ایسا واضح طور پر عالمی سیاست میں مخصوص مقاصد کے تحت کیا جا رہا ہے تاکہ روس کی معیشت کو کم زور کر کے عالمی میدان میں اس کے اثر و رسوخ کم کیا جا سکے۔
لاس اینجلس ٹائمز کے پال ریچر نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس امر سے روس اور ایران تیل کی قیمیتوں کے اثرات کو محسوس کریں گے تاہم وہ اتنی دور کی کوڑی نہیں لاتے کہ اسے کوئی خفیہ جنگ قرار دیں۔ ریچر کا کہنا ہے کہ معاشی دباؤ میں ولادی میر پوٹن یوکرائن پر اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کے لیے امریکا کے ساتھ اپنا جارحانہ طرز عمل نہیں بدلیں گے لیکن معاشی دباؤ سے ولادی میر پوٹن کے روس کی اشرافیہ اور بزنس کلاس سے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ اُن کی سیاسی حمایت کے دو اہم ستون ہیں۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے، تیل کی قیمت سو ڈالر فی بیرل سے کم ہونے سے اس کو اتنا بڑا خسارہ ہو گا کہ جوہری پروگرام پر مغربی طاقتوں سے مذاکرات میں اس کی پوزیش اب کم زور پڑ جائے گی۔
بھارت کے تجزیہ کار عقیل حداد لکھتے ہیں کہ سعودی عرب نے عالمی سیاسی بحرانوں میں تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھا ہوا ہے۔ امریکا کی تیل کی پیداور میں ستر فی صد اضافے کے بعد صورت حال مختلف ہو چکی ہے۔ سعودی عرب توازن برقرار رکھنے کے لیے شیل تیل پیدا کرنے والوں کے مقابلے میں اپنی کم پیدواری قیمت کا فائد اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ سعودی عرب غالباً تیل کی قیمتوں کو 75 اور 80 ڈالر فی بیرل کی سطح تک گرنے دے گا (آخری اطلاعات کے مطابق قیمتیں اس سطح تک گرنے ہی والی ہیں) اور قیمتوں کو اس سطح پر کچھ عرصے تک برقرار بھی ر کھے گا تاکہ امریکا میں تیل پیدا کرنے والوں کے لیے اس دھندے میں رہنا مشکل ہو جائے۔
اس عمل سے وہ اپنے تیل کی قیمت کا تعین کرنے کی قوت بحال کرنا چاہتا ہے۔ اب بات جو صاف نظر آرہی ہے وہ یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اتنی کمی سے عالمی اسٹیج پر فتح اور شکست بڑی واضح متصورہو گی مگر جو بات واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے اگر کوئی ہے، تو وہ کون ہے؟ یہ انسانی نفسیات ہے کہ جن چیزوں میں نقصان اور فائدہ اس قدر زیادہ ہو، ان کے پیچھے سازش ہمیشہ ڈھونڈی جاتی ہے۔
عالمی سطح پر تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے رجحان کا عمل سال 2012 سے دیکھا جا رہا ہے لیکن اب یہ بحث عالمی ایشو بن چکی ہے۔ جولائی 2014 میں خام تیل کی عالمی سطح کی قیمت میں 4.21 ڈالر فی بیرل کمی ہوئی، تو بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے اُس ہفتے سونے پر توجہ بڑھا دی تھی لیکن اس کے باوجود تیل کی منڈی میں مسلسل تنزلی رہی مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تیل کی قیمتوں میں کمی عالمی سطح پر سود مند ہو گی؟ کیوں کہ تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کرنے کے فیصلے کے بعد ایشیائی منڈیوں میں خام تیل کی فی بیرل قیمت مزید کم ہوکر91 ڈالر 39 سینٹ ہو گئی ہے۔ گذشتہ ساڑھے چارسال میں یہ تیل کی سب سے کم فی بیرل قیمت ہے۔
جب الجزائیر میں منعقدہ اجلاس میں اوپیک نے اپنی یومیہ پیداوارمیں دو، دو ملین بیرل کی کمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس حوالے سے رولف وینکل کا لکھا تبصرہ یوں تھا ''عجیب بات ہے کہ اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ بھی قیمتوں میں اضافے کا سبب نہ بن سکا اور قیمتیں مزید گرگئیں۔ یہ خبر موٹر گاڑیوں کے مالکوں، فضائی کمپنیوں، سردیوں میں تیل سے ہیٹرچلانے والوں اور صنعتی اداروں سب کے لیے اچھی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی پوری عالمی معیشت کے لیے ایک اچھی خبر ہے، تویہ غلط نہ ہوگا۔
ماہرین کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست تعلق تیل کی طلب سے ہے اور ساتھ ہی اس کا تعلق عالمی مالیاتی بحران سے بھی بنتا ہے۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمت جہاں معاشی استحکام کا باعث بنتی ہے، وہیں یہ مالی بحران کی شدت کم کرنے میں مدد بھی دے گی۔ آج کل دنیا بھرمیں لوگ اقتصادی بحران کی وجہ سے اخراجات میں کمی کررہے ہیں تو ایسے میں تیل کی قیمتوں میں کمی امید کی ایک کرن ہی ہے۔ ساتھ ہی یہ گرتی ہوئی قیمتیں افراط زر کو کم کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں اور یہ ہی کم تر قیمتیں، مرکزی بینکوں کے لیے کرنسی کی قدر و قیمت کو کم رکھنے کا ہدف ترک کیے بغیر سود کی شرح کو کم کرتے ہوئے مالی بحران کا مقابلہ کرنے کو بھی ممکن بناتی ہیں۔ اس حوالے سے بھی تیل کی قیمتوں میں کمی ایک اچھی خبر ہے'' مگر پاکستان میں اب بھی خیر سے دنیا سے کٹ کر معاملات چلائے جارہے ہیں۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں جب تیل کی قیمت 115 ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح سے 80 ڈالر فی بیرل پر آئی تو ساری دنیا کی حکومتوں نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ ملک کے غریب اور مڈل کلاس طبقوں تک ٹرانسفر کیا لیکن پاکستان کے وسائل پر قابض مافیاز نے وہ30 فی صد تیل، جو پاکستان میں پیدا ہوتا ہے، اُس پر بھی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کو لاگو نہ ہونے دیا۔ دوسری بات اس سے بھی زیادہ سنگین یہ ہوئی کہ اسٹیٹ بینک کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے پہلے ہفتے میں حکومت نے ساڑھے ستانوے ارب سے زیادہ کا قرض اسٹیٹ بینک سے لیا۔ یہ قرض بادشاہ، شہزادوں اور ان کے درباریوں کے اخراجات پورا کرنے پر خرچ کیا گیا۔
اکتوبر کے شروع میں ہونے والی قیاس آرائیوں کے بعد اب یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ تیل کی قمیت ایک مرتبہ پھر 147 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائے گی۔ ان سب حقائق کو دیکھا جائے تو اوپیک کا یہ کہنا کہ تیل کی قیمت 70 سے 80 ڈالر کے درمیان ہونی چاہیے، غلط نہیں۔ اس سے یہ ہو گا کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک اور صارفین ۔۔۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی۔ تقریباً ایک برس قبل ان ہی دنوں میں تیل کی قیمت نے100 ڈالرفی بیرل کی ریکارڈ سطح کوچُھولیا تھا۔ کارپوریٹ میڈیا میں اب نئے قیاس کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ گیا وقت، جلد ہی لوٹ آنے والا ہے۔
جب کہ دوسری جانب محتاط مبصرین یہ کہ رہے ہیں کہ تیل کی قیمت میں کمی کے صرف فوائد ہی نہیں، نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ اوپیک نے ایسا یوں ہی نہیں کہا کہ فی بیرل تیل کی قیمت 70 سے 80 امریکی ڈالر کے درمیان ہونی چاہیے۔ موجودہ صورت حال میں تقریباً فی بیرل 40 ڈالر قیمت تیل کی منڈی کو اس مجوزہ ہدف سے کافی دور رکھے ہوئے ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو زبردست نقصان کا سامنا ہے، جس سے ان کی ترقی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ترقی میں پیش رفت نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تیل کی قیمتیں ایک بار پھر آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔ اُن کا موقف یہ بھی ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تیل کے تقریباً چھے فی صد کنوئیں تیل ختم ہوجانے کی بنا پر بند کیے جا رہے ہیں۔
نئے کنوؤں کی تلاش اورایسے ہی دیگر منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کی رقوم درکار ہوتی ہیں۔ تیل کمپنیوں کو خسارے کی وجہ سے آج کل اس شعبے میں سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے کیوںکہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی ان ترقیاتی کاموں کے لیے کافی نہیں ۔ سستے تیل کو میٹھے زہرسے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں اس شعبے میں ہونے والی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کم ہوچکی ہے اور قابل تجدید توانائی کے حوالے سے اصلاحاتی پروگرام بھی متاثرہو رہے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ معاشی صورت حال کے ایک مرتبہ پھر مستحکم ہوتے ہی تیل کی مانگ میں اضافہ ہو گا اور صورت حال یک سربدل جائے گی۔