کھیل کود کرکٹ عالمی میلہ وقت کم مقابلہ سخت

یسےاورطاقت کی بدولت کرکٹ کےمعاملات پرتو قابض ہواجاسکتا ہےمگر کھیل کے میدان میں بادشاہت کے لیے اچھا کھیلنے کی ضرورت ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ کون سازشیں کررہا ہے پاکستان کے پاس تیاریوں کے لیے 98 دن موجود ہیں اور یقینی طور پر یہ کم دن نہیں ہیں۔ بس ٹیم کا انتخاب کیجیے اور 1992 کی یاد تازہ کرکے مشکلات اور تکالیف میں گھری قوم کو خوش خبری دی جائے۔ فوٹو: فائل

کیا پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ 2015جیت جائے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو اِس ملک میں رہنے والے ہر شہری کے دل میں روزانہ انگڑائی لیتا ہے اور پھر مایوس ہوکر واپس اپنے مقام پر روانہ ہوجاتا ہے۔

اگر میں آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ سیریز کا نتیجہ دیکھوں تو دل کہتا نہیں کبھی نہیں لیکن جب میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کا نتیجہ دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ آخر وہ دنیا کی کونسی ٹیم ہے جو پاکستان کو عالمی کپ کی فتح سے دور رکھ سکتی ہے۔ اِس میں یقینی طور پر قصور میرا یا آپکا نہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کب کیا کرجائے ۔۔۔۔ جیتنے کو تو عالمی چیمپئن سے بھی باآسانی جیت جاتی ہے اور ہارنے کو تو زمبابوے جیسے ٹیم سے بھی ہار جاتی ہے۔ یعنی پل میں تولا پل میں ماشہ۔

ورلڈ کپ 2015چودہ فروری سے شروع ہورہا ہے یعنی اب 100 سے بھی کم دن رہ گئے ہیں جس کی میزبانی مشترکہ طور پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کررہے ہیں۔ 14فروری سے 29مارچ تک جاری رہنے والے میگا ایونٹ میں 49میچز کھیلے جائیں گے، جس میں سے26میچز آسٹریلیا میں ہونگے جبکہ 23میچز کی میزبانی نیوزی لینڈ کرے گا۔


بگ تھری ممالک نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ورلڈکپ سے قبل عالمی میلے کی تیاری کے لیے منصوبہ بندی کر لی ہے، بھارتی کرکٹ ٹیم ورلڈکپ سے قبل آسٹریلیا کے خلاف 4 ٹیسٹ پر مشتمل ٹیسٹ سیریز اور آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ ایک ٹرائنگولر سیریز کھیلے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹیسٹ میچز اور ٹرئنگولر سیریز سے بگ تھری ممالک کو ورلڈ کپ سے قبل تیاری کرنے کا بھرپور موقع مل جائے گا اور جن گراؤنڈز میں ورلڈ کپ کے میچز ہورہے ہیں انہیں سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔بگ تھری ممالک تین مہینے قبل ہی ورلڈ کپ کے میزبان ملک سیریز کے نام پر ورلڈ کپ کی تیاری کرنا شروع کر دیں گے جبکہ یہ سہولت بقیہ ماندہ ٹیموں کو میسر نہیں آئے گی جس کی وجہ وہ سیاست ہے جس نے کھیل کے میدان کو بھی اب نہیں چھوڑا۔

اِس بات سے قطعی انکار نہیں کہ کھیل کے معاملات میں سیاست نے اپنے لیے جگہ بنا لی ہے اور سمجھنے والے سمجھ رہے ہیں کہ بس اب اِس طرح اُن کے کھیل کے میدان میں بھی اُن کی بادشاہت قائم ہوجائے گی اور یہاں بھی اُن کو فی الوقت کوئی شکست نہیں سے سکتا مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ پیسے اور طاقت کی بدولت کرکٹ کے معاملات پر تو قابض ہوا جاسکتا ہے مگر کھیل کے میدان میں تو بادشاہت اُسی کی ہوگی جو میدان میں اچھا کھیل پیش کریگا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے کہ بگ تھری نے ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان کو سعید اجمل پر پابندی اور محمد عامر کو کھیلنے کی اجازت نہ دینے کی شکل میں بہت سے نقصانات پہنچائے ہیں مگر ہمیں اپنی کوتائی بھی مان لینی چاہیے۔ اگر ہماری ٹیم میں میاں آفریدی کپتانی کے لیے اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہیں تو اِس میں بھارت، آسٹریلیا یا انگلینڈ کا قصور نہیں بلکہ یہ ہماری اپنی سیاست ہے۔

اِس لیے پاکستان کے پاس بھی اب 98 دن موجود ہیں اور یقینی طور پر یہ کم دن نہیں ہیں۔ یہ شکر ہے کہ بورڈ بھی اور خود آفریدی بھی مصباح کو کپتان ماننے پر راضی ہوگئے ہیں اِس لیے اِس بات کا قوی امکان ہے کہ ٹیم میں گروہ بندی کی گنجائش نہیں ہے لہذا ٹیم انتظامیہ اور کھلاڑیوں کو بس اب یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ عالمی میلے کے لیے کس ٹیم کا انتخاب کیا جائے اور جب انتخاب ہوجائے تو پھر یہ سوچنے کے بجائے کہ بگ تھری کیا کیا سازشیں کررہا ہے، یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کھیل کے میدان میں اپنی کارکردگی کو کس طرح بہتر بنایا جائے اور 1992 کی یاد تازہ کرکے مشکلات اور تکالیف میں گھری قوم کو خوش خبری دی جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story