ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
وقت کی گردش اور اس کے ساتھ بہتے ہوئے انسانوں کی زندگیاں کیسے ایک ہی سکّے کے دو رخ بن جاتی ہیں۔
LONDON:
اقبال کی جوانوں سے محبت اور ان سے وابستہ کی جانے والی توقعات کی کہانی طویل بھی ہے اور دلچسپ بھی اور اس کا تعلق صرف ان کے مستقبل سے ہی نہیں بلکہ ماضی اور حال سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر یہ تین شعر دیکھے جا سکتے ہیں جن میں بالترتیب جوانان اسلام کے ماضی، حال (اقبال کے عہد کا زمانۂ حال) اور مستقبل کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
(1) کشادِ درِ دل سمجھتے تھے اس کو
ہلاکت نہ تھی موت ان کی نظر میں
(2) وہ تو آبا تھے تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
(3) اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زماں و مکاں اور بھی ہیں
میری ذاتی رائے میں اس تجزیے سمیت کلام اقبال کے تقریباً تمام بنیادی موضوعات اور تصورات کا تعلق ان کے قیام یورپ کے تین برسوں (1905-1908) سے ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہونے والی علمی نشاۃِ ثانیہ، سائنسی ترقی، صنعتی انقلاب، نوآبادیاتی نظام، سرمایہ داری نظام کے مقابلے اور ردعمل میں پیدا ہونے والے معاشی اور مالیاتی نظریات اور پہلی جنگ عظیم ایک ہی سلسلے کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے چلے جا رہے تھے۔
نئے نئے علوم تشکیل پا رہے تھے اور اقوام عالم ایک ایسے انقلاب کے دہانے پر کھڑی تھیں جہاں بہت کچھ بدلنے جا رہا تھا ایک طرف گراں خواب چینی سنبھل رہے تھے تو دوسری طرف کارل مارکس ایک ایسی انوکھی کتاب سے دنیا بھر کے اہل فکر و نظر کو متاثر کر رہا تھا جسے یورپ نے جدید دور کی بائبل قرار دیا تو اقبال نے اس کے مصنف کو ''نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب'' کا رتبہ دیا اس ضمن میں ایک اور بات بھی خصوصی توجہ کی مستحق ہے اور یہ کہ اقبال نے بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے کے ساتھ ساتھ فلسفہ عجم پر اسلامی تصوف کے اثرات کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کا تھیسس بھی مکمل کر لیا جس کے لیے انھیں جرمنی میں قیام کا موقع بھی ملا جو اس وقت کے اعتبار سے برطانوی سامراج کے بالمقابل ایک چیلنج کی حیثیت سے ابھر رہا تھا۔
بغور دیکھا جائے تو یہی وہ زمانہ ہے جس نے اقبال کی سوچ کے راستوں کو متعین کیا اور انھوں نے مسلمانوں کی نوجوان نسل کو بالخصوص اپنا موضوع سخن ٹھہرایا۔ ترکی کی Young Turk Party اور مصطفے کمال پاشا کی نوجوان قیادت نے ان کے اس رویے کو مزید تقویب دی اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری میں ''جوانوں کو پیروں کا استاد کر'' کی گونج دمِ آخر تک ان کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔
ترکی کے انقلاب اور ترکوں کی نوجوان نسل کی حریت پسندی نے اقبال کے دل و دماغ کو جوش، مسرت، امید اور خوابوں سے بھر دیا اور وہ بے اختیار ہو کر کہہ اٹھے۔
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا، کیا سے کیا ہو جائے گی
ان کے اس ذہنی رویے کی دو نمائندہ مثالیں ان کی نظموں ''زمانہ'' اور خطاب بہ جوانان اسلام'' میں اپنی تمام تر جامعیت کے ساتھ سامنے آئی ہیں کہ ان نظموں میں نہ صرف ماضی حال اور مستقبل کو ''ایک زمانے کی رو'' کے تناظر میں دیکھا گیا ہے بلکہ ان کے علیحدہ علیحدہ روپ بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ وقت کی گردش اور اس کے ساتھ بہتے ہوئے انسانوں کی زندگیاں کیسے ایک ہی سکّے کے دو رخ بن جاتی ہیں۔ اس کے لیے نظم ''زمانہ'' کے یہ چند اشعارخاص طور پر قابل توجہ ہیں۔
جو تھا، نہیں ہے، جو ہے، نہ ہو گا، یہی ہے ایک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوارث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نہ تھا اگر تو شریک محفل، قصور تیرا ہے یا کہ میرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ
ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب، کسی کا مرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہ
وقت کی تغیر پذیری کے اصول و قوانین اور اس کے کسی سے رو رعایت نہ کرنے کے غیر مشروط رویے کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اقبال کے ذہن کے کسی گوشے میں امت مسلمہ کی اجتماعی بے حسی اور عمومی حالت خواب Dormancy کے طویل دورانیے کا احساس بھی مسلسل جاگتا رہتا ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں کبھی خدشے خواہشوں پر حاوی آ جاتے ہیں اور کبھی خواہش آبِ روانِ کبیر کے کنارے آنے والے زمانوں کے ایسے خواب نما محل تعمیر کر لیتی ہیں کہ جن کی بلندی ہمالیہ کو چھوتی اور دلکشی جنت کے مناظر کو شرماتی دکھائی دیتی ہے۔ سو ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ
لیکن مجھے اس دیس میں پیدا کیا تو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند
یا پھر سمندری سفر کے دوران سسلی کے جزیرے کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنی عظمت رفتہ کو اس طرح سے یاد کرتے ہیں کہ
درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی تو منزل تھا میں اس کارواں کی گرد ہوں
میں تیرا تحفہ سوئے ہندوستان لے جاؤں گا
خود یہاں روتا ہوں اوروں کو وہاں رلواؤں گا
یا مزاحیہ کلام میں شامل یہ دردناک شعر کہ
مثال کشتیٔ بے حس مطیع فرماں ہیں
کہو تو بستۂ ساحل رہیں۔ کہو تو نہیں!
لیکن دوسری طرف اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ نئے زمانے میں نئی نسلوں کو اشیاء اور تصورات کے ایسے رشتے اور رستوں کی نشاندہی بھی کرتے نظر آتے ہیں جس سے ان کے پرانے معانی یکسر بدل جاتے ہیں۔
اے اہل نظر، ذوق نظر، خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!
اقبال کا کمال یہ ہے کہ وہ امید کے دوراہے پر بہت دیر رکنے کے باوجود کبھی مایوس اور بے سمت نہیں ہوئے۔ ان کے فلسفۂ خودی کی مخاطب یوں تو پوری امت بلکہ عالم انسانیت ہے لیکن ان کے مخاطب صحیح یہاں بھی نوجوان نسل کے افراد ہی ہیں ان کا یہ پیغام سو برس پہلے بھی واضح اور بصیرت افروز تھا اور آج بھی اس کا ایک ایک پہلو دامن دل کو کھینچتا دکھائی دیتا ہے۔ سو آخر میں ان کی مشہور زمانہ نظم ''ساقی نامہ'' کے یہ چند اشعار ان کی روح کو سلام عقیدت کے ساتھ۔
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے! تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے! راز درون حیات
خودی کیا ہے!بیداریٔ حیات
اندھیرے اجالے میں ہے تاب ناک
من و تو میں پیدا، من و تو سے پاک
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
ازل سے یہ ہے کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے
اقبال کی جوانوں سے محبت اور ان سے وابستہ کی جانے والی توقعات کی کہانی طویل بھی ہے اور دلچسپ بھی اور اس کا تعلق صرف ان کے مستقبل سے ہی نہیں بلکہ ماضی اور حال سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر یہ تین شعر دیکھے جا سکتے ہیں جن میں بالترتیب جوانان اسلام کے ماضی، حال (اقبال کے عہد کا زمانۂ حال) اور مستقبل کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
(1) کشادِ درِ دل سمجھتے تھے اس کو
ہلاکت نہ تھی موت ان کی نظر میں
(2) وہ تو آبا تھے تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
(3) اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زماں و مکاں اور بھی ہیں
میری ذاتی رائے میں اس تجزیے سمیت کلام اقبال کے تقریباً تمام بنیادی موضوعات اور تصورات کا تعلق ان کے قیام یورپ کے تین برسوں (1905-1908) سے ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہونے والی علمی نشاۃِ ثانیہ، سائنسی ترقی، صنعتی انقلاب، نوآبادیاتی نظام، سرمایہ داری نظام کے مقابلے اور ردعمل میں پیدا ہونے والے معاشی اور مالیاتی نظریات اور پہلی جنگ عظیم ایک ہی سلسلے کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے چلے جا رہے تھے۔
نئے نئے علوم تشکیل پا رہے تھے اور اقوام عالم ایک ایسے انقلاب کے دہانے پر کھڑی تھیں جہاں بہت کچھ بدلنے جا رہا تھا ایک طرف گراں خواب چینی سنبھل رہے تھے تو دوسری طرف کارل مارکس ایک ایسی انوکھی کتاب سے دنیا بھر کے اہل فکر و نظر کو متاثر کر رہا تھا جسے یورپ نے جدید دور کی بائبل قرار دیا تو اقبال نے اس کے مصنف کو ''نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب'' کا رتبہ دیا اس ضمن میں ایک اور بات بھی خصوصی توجہ کی مستحق ہے اور یہ کہ اقبال نے بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے کے ساتھ ساتھ فلسفہ عجم پر اسلامی تصوف کے اثرات کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کا تھیسس بھی مکمل کر لیا جس کے لیے انھیں جرمنی میں قیام کا موقع بھی ملا جو اس وقت کے اعتبار سے برطانوی سامراج کے بالمقابل ایک چیلنج کی حیثیت سے ابھر رہا تھا۔
بغور دیکھا جائے تو یہی وہ زمانہ ہے جس نے اقبال کی سوچ کے راستوں کو متعین کیا اور انھوں نے مسلمانوں کی نوجوان نسل کو بالخصوص اپنا موضوع سخن ٹھہرایا۔ ترکی کی Young Turk Party اور مصطفے کمال پاشا کی نوجوان قیادت نے ان کے اس رویے کو مزید تقویب دی اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری میں ''جوانوں کو پیروں کا استاد کر'' کی گونج دمِ آخر تک ان کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔
ترکی کے انقلاب اور ترکوں کی نوجوان نسل کی حریت پسندی نے اقبال کے دل و دماغ کو جوش، مسرت، امید اور خوابوں سے بھر دیا اور وہ بے اختیار ہو کر کہہ اٹھے۔
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا، کیا سے کیا ہو جائے گی
ان کے اس ذہنی رویے کی دو نمائندہ مثالیں ان کی نظموں ''زمانہ'' اور خطاب بہ جوانان اسلام'' میں اپنی تمام تر جامعیت کے ساتھ سامنے آئی ہیں کہ ان نظموں میں نہ صرف ماضی حال اور مستقبل کو ''ایک زمانے کی رو'' کے تناظر میں دیکھا گیا ہے بلکہ ان کے علیحدہ علیحدہ روپ بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ وقت کی گردش اور اس کے ساتھ بہتے ہوئے انسانوں کی زندگیاں کیسے ایک ہی سکّے کے دو رخ بن جاتی ہیں۔ اس کے لیے نظم ''زمانہ'' کے یہ چند اشعارخاص طور پر قابل توجہ ہیں۔
جو تھا، نہیں ہے، جو ہے، نہ ہو گا، یہی ہے ایک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوارث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نہ تھا اگر تو شریک محفل، قصور تیرا ہے یا کہ میرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ
ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب، کسی کا مرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہ
وقت کی تغیر پذیری کے اصول و قوانین اور اس کے کسی سے رو رعایت نہ کرنے کے غیر مشروط رویے کی وضاحت کے ساتھ ساتھ اقبال کے ذہن کے کسی گوشے میں امت مسلمہ کی اجتماعی بے حسی اور عمومی حالت خواب Dormancy کے طویل دورانیے کا احساس بھی مسلسل جاگتا رہتا ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں کبھی خدشے خواہشوں پر حاوی آ جاتے ہیں اور کبھی خواہش آبِ روانِ کبیر کے کنارے آنے والے زمانوں کے ایسے خواب نما محل تعمیر کر لیتی ہیں کہ جن کی بلندی ہمالیہ کو چھوتی اور دلکشی جنت کے مناظر کو شرماتی دکھائی دیتی ہے۔ سو ایک طرف وہ یہ کہتے ہیں کہ
لیکن مجھے اس دیس میں پیدا کیا تو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند
یا پھر سمندری سفر کے دوران سسلی کے جزیرے کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنی عظمت رفتہ کو اس طرح سے یاد کرتے ہیں کہ
درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی تو منزل تھا میں اس کارواں کی گرد ہوں
میں تیرا تحفہ سوئے ہندوستان لے جاؤں گا
خود یہاں روتا ہوں اوروں کو وہاں رلواؤں گا
یا مزاحیہ کلام میں شامل یہ دردناک شعر کہ
مثال کشتیٔ بے حس مطیع فرماں ہیں
کہو تو بستۂ ساحل رہیں۔ کہو تو نہیں!
لیکن دوسری طرف اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ نئے زمانے میں نئی نسلوں کو اشیاء اور تصورات کے ایسے رشتے اور رستوں کی نشاندہی بھی کرتے نظر آتے ہیں جس سے ان کے پرانے معانی یکسر بدل جاتے ہیں۔
اے اہل نظر، ذوق نظر، خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!
اقبال کا کمال یہ ہے کہ وہ امید کے دوراہے پر بہت دیر رکنے کے باوجود کبھی مایوس اور بے سمت نہیں ہوئے۔ ان کے فلسفۂ خودی کی مخاطب یوں تو پوری امت بلکہ عالم انسانیت ہے لیکن ان کے مخاطب صحیح یہاں بھی نوجوان نسل کے افراد ہی ہیں ان کا یہ پیغام سو برس پہلے بھی واضح اور بصیرت افروز تھا اور آج بھی اس کا ایک ایک پہلو دامن دل کو کھینچتا دکھائی دیتا ہے۔ سو آخر میں ان کی مشہور زمانہ نظم ''ساقی نامہ'' کے یہ چند اشعار ان کی روح کو سلام عقیدت کے ساتھ۔
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے! تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے! راز درون حیات
خودی کیا ہے!بیداریٔ حیات
اندھیرے اجالے میں ہے تاب ناک
من و تو میں پیدا، من و تو سے پاک
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
ازل سے یہ ہے کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے