دہشت گردی کا عفریت
دہشت گردی کے اس عفریت نے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
پچھلے دنوں لاہور میں واہگہ بارڈر کے قریب ہونے والے خودکش دھماکے میں کئی قیمتی جانوں کے ضیاع اور ان گنت زخمیوں نے پورے ملک کی فضا کو سوگ میں بدل دیا۔ ہر طرف مایوسی کے چہرے نظر آنے لگے۔ دہشت گردی کے اس عفریت نے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، کئی ہزار قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو جس قدر نقصان پہنچا ہے وہ ناقابل بیان ہے اور اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ سفارتی تنہائی، ملک میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلے اور غیر ملکی ٹیموں کے دورے منسوخ ہونے سے لے کر (جس میں کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی منسوخ ہونا بھی شامل ہے) ذہنی اذیت اور سرمایہ کاری کا انخلا وغیرہ سب شامل ہیں عام عوام سے لے کر سیکیورٹی اہلکار، آفیسرز، مذہبی رہنما، اقلیتیں، عبادت گاہیں، حکومتی اور سیاسی شخصیات سب ہی اس دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
واہگہ حملہ وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے فوجی آپریشن کا ردعمل بتایا جارہا ہے جس کے بارے میں سیکیورٹی خدشات بہت پہلے سے ظاہر کیے جارہے تھے۔ اس حملے کے بعد ایک دفعہ پھر پورے ملک میں خوف اور سراسیمگی کا عالم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سب سے بڑا شکار ہونے کے باوجود یہ بات بھی ایک المیہ ہے کہ اب بھی ہمارے ملک پر دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی کا الزام لگایا جاتا ہے، اگر پچھلے 10سے 12 سال میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جائے تو کئی ہوشربا انکشافات سامنے آتے ہیں۔
اگر مالی نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے تو اس کی لاگت 102.51ارب ڈالرز یعنی 8264.4ارب روپے ہے، اس میں پچھلے دو سال میں ہونے والے 24.86 ارب ڈالرز کا نقصان بھی شامل ہے، نقصانات کی یہ لاگت (جو وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کی مدد سے تیار کی گئی ہے) بتاتی ہے کہ 2010-11 میں 13.19 ارب ڈالرز 2011-12 میں 11.98 ارب ڈالرز، 2012-13 میں 9.97 ارب ڈالرز، 2013 میں 701.26 ملین روپے 2008-09 میں 720.60 ارب ڈالرز جب کہ 2001 سے 2008 تک 27.36 ارب ڈالرز رہے ہیں۔
صرف 2011 سے 2013 تک کے عرصے میں پاکستانی برآمدات کو 2,290.13 ملین ڈالرز نقصان ہوا جب کہ ٹیکس وصولی تقریباً 6,479.94 ارب ڈالرز سے کم رہی۔ پیداوار میں 769.79 ملین ڈالرز کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے معیشت کو 204.78 ملین ڈالرز کا نقصان جب کہ دہشت گردی کا شکار لوگوں کی بحالی پر 59.21 ملین ڈالرز خرچ ہوئے۔ انفرااسٹرکچر کی مد میں صرف پچھلے تین سال میں 2,470 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا۔
افغانستان میں امریکی فوجوں کی آمد پر ہزاروں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا جب کہ ملک اس سے پہلے ہی لاکھوں افغانی باشندوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھا۔ ملک میں جاری گو مگو کی کیفیت کی وجہ سے برآمدات کے آرڈرز منسوخ ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی اور سڑکیں اور پل تباہ ہونے کی وجہ سے مواصلات کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ خصوصاً خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں ہر سرکاری اسکول اور درس گاہیں بھی اس دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔
اگر اموات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں سویلین اور سیکیورٹی اہلکار اس عفریت کی وجہ سے اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2003 میں کل 189 اموات ہوئیں (جن میں 140 شہری، 29 سیکیورٹی اہلکار اور 25 دہشت گرد تھے) 2004 میں 863 اموات (جن میں 435 شہری، 184 سیکیورٹی اہلکار اور 244 دہشت گرد) 2005 میں کل 648 اموات (جن میں 430 عام شہری، 81 سیکیورٹی اہلکار اور 137 دہشت گرد) 2006 میں کل 1471 اموات (جن میں 608 عام شہری، 325 سیکیورٹی اہلکار، 538 دہشت گرد) 2007 میں 3598 اموات (جن میں 1522 شہری، 597 سیکیورٹی اہلکار اور 1479 دہشت گرد) 2008ء میں 6715 اموات (جن میں 2155 عام شہری، 654 سیکیورٹی اہلکار اور 3906 دہشت گرد شامل)
2009ء میں 11704 اموات (جن میں 2324 شہری، 991 سیکیورٹی اہلکار اور 8389 دہشت گرد شامل) 2010ء میں 7435 اموات (جن میں 1796 عام شہری، 469 سیکیورٹی اہلکار اور 5160 دہشت گرد شامل) 2011ء میں 6303 اموات (جن میں 2738 عام شہری،765 سیکیورٹی اہلکار اور 2800 دہشت گرد شامل)، 2012ء میں 6211 اموات (جن میں 3007عام شہری، 732 سیکیورٹی اہلکار اور 2472 دہشت گرد شامل) 2013 میں 5379 اموات (جن میں 3001 عام شہری، 676 سیکیورٹی اہلکار اور 1702دہشت گرد شامل) اور 2014 میں اکتوبر کے مہینے تک 4034 اموات
(جن میں 1369 شہری، 440 سیکیورٹی اہلکار اور 2225 دہشت گرد شامل) ہوئیں۔ اس طرح کل اموات کی تعداد 54550 بنتی ہے جس میں 19525 عام شہری، 5938 سیکیورٹی اہلکار اور 29087 دہشت گرد شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں 2009 میں 11704 ریکارڈ کی گئی۔ جب کہ سب سے کم 189 ہلاکتیں2013 میں درج کی گئیں۔ سب سے زیادہ فاٹا کا علاقہ متاثر ہوا جہاں پر 18445 اموات ہوئیں۔ اس کے بعد خیبر پختونخوا جہاں 12955 اموات جب کہ سب سے کم پنجاب جہاں پر 1651اموات دہشت گردی کے اس عفریت کی وجہ سے ہوئی۔
ان تمام ہوشربا انکشافات کی موجودگی میں یہ بات بالکل عیاں ہے کہ وطن عزیز کو اس وقت سب سے زیادہ دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے۔ جس نے ملک کو ہر طرح سے اپنے چنگل میں جکڑ لیا ہے، اگرچہ ہماری بہادر افواج اس محاذ پر دلیروں اور بہادروں کی طرح لڑرہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس وقت قومی یکجہتی، ملی اتحاد اور یگانگت وقت کی اشد ضرورت ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ سمندری طوفان ''نیلوفر'' بغیر کوئی تباہی مچائے گزر گیا ۔
کیوں کہ سچ میں مزید قدرتی آفات جھیلنے کی ہمت نہیں ہے اس وقت قوم ایک کڑے امتحان سے گزر رہی ہے، سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ہو یا دہشت گردی سے نمٹنے کی صلاحیت ہو ہر محاذ پر پوری قوم کو ایک جان ہونا پڑے گا اور اس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے متحدہ اور مربوط پیغام دینا ہوگا کیوں کہ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں ہمارا مستقبل ہے اور خوشحالی ہے، کیوں کہ موج ہے دریا میں اس کے پار تو کچھ بھی نہیں، کاش ہمارے سیاست دان اس نازک موڑ پر اتحاد کا مظاہرہ کریں اور بیرونی اور اندرونی دشمنوں کو انتشار کا مزید موقع نہ دیں ۔
جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، کئی ہزار قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو جس قدر نقصان پہنچا ہے وہ ناقابل بیان ہے اور اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ سفارتی تنہائی، ملک میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلے اور غیر ملکی ٹیموں کے دورے منسوخ ہونے سے لے کر (جس میں کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی منسوخ ہونا بھی شامل ہے) ذہنی اذیت اور سرمایہ کاری کا انخلا وغیرہ سب شامل ہیں عام عوام سے لے کر سیکیورٹی اہلکار، آفیسرز، مذہبی رہنما، اقلیتیں، عبادت گاہیں، حکومتی اور سیاسی شخصیات سب ہی اس دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
واہگہ حملہ وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے فوجی آپریشن کا ردعمل بتایا جارہا ہے جس کے بارے میں سیکیورٹی خدشات بہت پہلے سے ظاہر کیے جارہے تھے۔ اس حملے کے بعد ایک دفعہ پھر پورے ملک میں خوف اور سراسیمگی کا عالم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سب سے بڑا شکار ہونے کے باوجود یہ بات بھی ایک المیہ ہے کہ اب بھی ہمارے ملک پر دہشت گردی کی مبینہ سرپرستی کا الزام لگایا جاتا ہے، اگر پچھلے 10سے 12 سال میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جائے تو کئی ہوشربا انکشافات سامنے آتے ہیں۔
اگر مالی نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے تو اس کی لاگت 102.51ارب ڈالرز یعنی 8264.4ارب روپے ہے، اس میں پچھلے دو سال میں ہونے والے 24.86 ارب ڈالرز کا نقصان بھی شامل ہے، نقصانات کی یہ لاگت (جو وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کی مدد سے تیار کی گئی ہے) بتاتی ہے کہ 2010-11 میں 13.19 ارب ڈالرز 2011-12 میں 11.98 ارب ڈالرز، 2012-13 میں 9.97 ارب ڈالرز، 2013 میں 701.26 ملین روپے 2008-09 میں 720.60 ارب ڈالرز جب کہ 2001 سے 2008 تک 27.36 ارب ڈالرز رہے ہیں۔
صرف 2011 سے 2013 تک کے عرصے میں پاکستانی برآمدات کو 2,290.13 ملین ڈالرز نقصان ہوا جب کہ ٹیکس وصولی تقریباً 6,479.94 ارب ڈالرز سے کم رہی۔ پیداوار میں 769.79 ملین ڈالرز کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے معیشت کو 204.78 ملین ڈالرز کا نقصان جب کہ دہشت گردی کا شکار لوگوں کی بحالی پر 59.21 ملین ڈالرز خرچ ہوئے۔ انفرااسٹرکچر کی مد میں صرف پچھلے تین سال میں 2,470 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا۔
افغانستان میں امریکی فوجوں کی آمد پر ہزاروں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا جب کہ ملک اس سے پہلے ہی لاکھوں افغانی باشندوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھا۔ ملک میں جاری گو مگو کی کیفیت کی وجہ سے برآمدات کے آرڈرز منسوخ ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی اور سڑکیں اور پل تباہ ہونے کی وجہ سے مواصلات کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ خصوصاً خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں ہر سرکاری اسکول اور درس گاہیں بھی اس دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔
اگر اموات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں سویلین اور سیکیورٹی اہلکار اس عفریت کی وجہ سے اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2003 میں کل 189 اموات ہوئیں (جن میں 140 شہری، 29 سیکیورٹی اہلکار اور 25 دہشت گرد تھے) 2004 میں 863 اموات (جن میں 435 شہری، 184 سیکیورٹی اہلکار اور 244 دہشت گرد) 2005 میں کل 648 اموات (جن میں 430 عام شہری، 81 سیکیورٹی اہلکار اور 137 دہشت گرد) 2006 میں کل 1471 اموات (جن میں 608 عام شہری، 325 سیکیورٹی اہلکار، 538 دہشت گرد) 2007 میں 3598 اموات (جن میں 1522 شہری، 597 سیکیورٹی اہلکار اور 1479 دہشت گرد) 2008ء میں 6715 اموات (جن میں 2155 عام شہری، 654 سیکیورٹی اہلکار اور 3906 دہشت گرد شامل)
2009ء میں 11704 اموات (جن میں 2324 شہری، 991 سیکیورٹی اہلکار اور 8389 دہشت گرد شامل) 2010ء میں 7435 اموات (جن میں 1796 عام شہری، 469 سیکیورٹی اہلکار اور 5160 دہشت گرد شامل) 2011ء میں 6303 اموات (جن میں 2738 عام شہری،765 سیکیورٹی اہلکار اور 2800 دہشت گرد شامل)، 2012ء میں 6211 اموات (جن میں 3007عام شہری، 732 سیکیورٹی اہلکار اور 2472 دہشت گرد شامل) 2013 میں 5379 اموات (جن میں 3001 عام شہری، 676 سیکیورٹی اہلکار اور 1702دہشت گرد شامل) اور 2014 میں اکتوبر کے مہینے تک 4034 اموات
(جن میں 1369 شہری، 440 سیکیورٹی اہلکار اور 2225 دہشت گرد شامل) ہوئیں۔ اس طرح کل اموات کی تعداد 54550 بنتی ہے جس میں 19525 عام شہری، 5938 سیکیورٹی اہلکار اور 29087 دہشت گرد شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں 2009 میں 11704 ریکارڈ کی گئی۔ جب کہ سب سے کم 189 ہلاکتیں2013 میں درج کی گئیں۔ سب سے زیادہ فاٹا کا علاقہ متاثر ہوا جہاں پر 18445 اموات ہوئیں۔ اس کے بعد خیبر پختونخوا جہاں 12955 اموات جب کہ سب سے کم پنجاب جہاں پر 1651اموات دہشت گردی کے اس عفریت کی وجہ سے ہوئی۔
ان تمام ہوشربا انکشافات کی موجودگی میں یہ بات بالکل عیاں ہے کہ وطن عزیز کو اس وقت سب سے زیادہ دہشت گردی کے خطرے کا سامنا ہے۔ جس نے ملک کو ہر طرح سے اپنے چنگل میں جکڑ لیا ہے، اگرچہ ہماری بہادر افواج اس محاذ پر دلیروں اور بہادروں کی طرح لڑرہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس وقت قومی یکجہتی، ملی اتحاد اور یگانگت وقت کی اشد ضرورت ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ سمندری طوفان ''نیلوفر'' بغیر کوئی تباہی مچائے گزر گیا ۔
کیوں کہ سچ میں مزید قدرتی آفات جھیلنے کی ہمت نہیں ہے اس وقت قوم ایک کڑے امتحان سے گزر رہی ہے، سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ہو یا دہشت گردی سے نمٹنے کی صلاحیت ہو ہر محاذ پر پوری قوم کو ایک جان ہونا پڑے گا اور اس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے متحدہ اور مربوط پیغام دینا ہوگا کیوں کہ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں ہمارا مستقبل ہے اور خوشحالی ہے، کیوں کہ موج ہے دریا میں اس کے پار تو کچھ بھی نہیں، کاش ہمارے سیاست دان اس نازک موڑ پر اتحاد کا مظاہرہ کریں اور بیرونی اور اندرونی دشمنوں کو انتشار کا مزید موقع نہ دیں ۔