دور جدید کے ہیگل پروفیسر نوم چومسکی
امریکی سامراج اب تک دنیا کے نوے ملکوں میں بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر مداخلت کرچکا ہے۔
KARACHI:
امریکا کے تقریباً سارے دانشور پروفیسر نوم چومسکی کے اقوال کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن انھیں ٹی وی اسکرین پر نہیں بلایا جاتا۔شاید وہ جانا بھی نہیں چاہتے ۔ وہ امریکی سامراج کے ناپسندیدہ ترین شخص ہیں ۔ اس لیے بھی کہ 'جنگ ویتنام' کے موقع پر نیویارک کی جنگ مخالف ریلی میں شریک ہوئے ۔
انھوں نے اب تک 100 سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ ویسے تو وہ لسانیات کے پروفیسر ہیں اور دنیا کے لسانیات کے اول درجے کے استاد اور فلسفی ہیں ۔ تاہم وہ سماج کے آزاد اور بے ریاستی معاشرے کے حامی ہیں، یعنی انارکسٹ۔ پروفیسر نوم چومسکی اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ 'امریکی سامراج اب تک دنیا کے نوے ملکوں میں بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر مداخلت کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔
جب نجکاری کا سلسلہ عالمی سامراج نے آئی ایم ایف اور ڈبلیو بی کے احکامات کے ذریعے امریکا نے عمل درآمد کروانا شروع کیا تو ایک امریکی صحافی نے پروفیسر صاحب سے سوال کیا کہ نجکاری کیوں کی جارہی ہے۔ نوم چومسکی مختصر اور انکساری سے ہی اکثر جواب دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 'عوام کی دولت مزید دولت مندوں کو منتقل کرکے انھیں ارب پتی سے کھرب پتی بنایا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں اربوں پیداواری کارکنان بھوک، بے روزگاری، فاقہ کشی اور خودکشی کے شکار ہوں گے'۔
ویتنام میں امریکی سامراج کو تب شکست سے دوچار ہونا پڑا جب واشنگٹن اور نیویارک کی سڑکوں پہ لاکھوں جنگ مخالف کارکنوں کا سیلاب امڈ آیا۔ نوم چومسکی ان ہر جلوس، جلسے اور ریلیوں میں شریک ہوتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انسان لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا تو وہ جنگلوں، پہاڑوں، دریائی اور سمندری ساحلوں پر رہنے کے دوران آواز کی زبان (voice language) استعمال کرتا تھا۔ جب ہم خوش ہوتے ہیں تو قہقہہ لگا کر ہنستے ہیں۔ یہ آواز بعض لوگوں کی تو کئی فرلانگ تک سے سنی جاسکتی ہے۔
غصہ، اظہار یکجہتی، ناراضگی، دکھ اور خوشی کی آواز کون نہیں نکالتا ہے۔ اس کے بعد اشاروں کی زبان (signal language) کا دور آیا، اور انسان اشاروں سے ایک دوسرے کی باتیں سمجھ لیتا تھا۔ آج بھی ہم پانی پینے کے لیے چلو پھیلاتے ہیں، بلانے کے لیے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہیں، بھگانے کے لیے بھی ہاتھ کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال قوت گویائی سے محروم بچوں کے اسکول چلے جائیں، پھر آپ کو کسی سے سمجھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے بعد تصاویر کی زبان یعنی(pictographical language) کا رواج ہوا۔ آثار قدیمہ کی کھدائی سے بہت سی پتھر کی چھڑیاں، مہریں اور مورتیاں ملی ہیں، اس کے علاوہ پہاڑوں پر تصاویر کی زبانوں کے دنیا بھر میں بہت سارے نمونے مل چکے ہیں۔
آگے چل کر ان تصاویر کو حروف تہجی کی شکل دی گئی، مثال کے طور پر گائے کے سینگ کو الٹ دیں توA بن جائے گا، دونوں آنکھوں کو سیدھائی میں لائیں تو B بن جائے گا، ہونٹ کو پلٹ دیں تو C بن جاتا ہے اور چہرے کے بیچ ایک لکیر ڈال دیں تو D بن جاتا ہے۔ آثار قدیمہ سے دریافت ہونے والی پتھر کی چھڑیوں پر مختلف تصاویر بنی ہوئی ہیں، جن پر ہرن، مچھلی، پرندہ، سانپ اور چمگادڑ کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ ان ابتدائی حروف تہجی کو یونان میں جیسا کہ الفا، بیٹا، گاما، ڈیلٹا کی شکل میں لکھا جانے لگا جو اب بھی یونان کے حروف تہجی ہیں۔ بعد ازاں یورپ کے اور دنیا کے بڑے حصوں میں ABCD کردیا گیا۔ سائنس میں بیشتر حروف تہجی یونانی زبان سے لیے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر پائی، فائی، تھیٹا، کاس وغیرہ وغیرہ۔ یہ حروف تہجی اب خطوں میں بٹ چکے ہیں۔ جرمنی سے بنگلہ دیش تک سب ہی اپنے حروف تہجی کا تلفظ تقریباً ایک ہی جیسے انداز میں ادا کرتے ہیں۔ یوں دیکھیں تو یورپ میں KLMN، عربی، فارسی اور اردو میںک ل م ن، ہندی میں کا، لا، ما، نا اور بنگلہ، آسامی، اڑیہ اور تریپوری میں کو لو مو نو۔ ابتدا میں عربی، فارسی، اردو اور ترکی میں ا ب ج د لکھا جاتا تھا، جسے ہم ابجد، ہوز، حطی، کلمن کا رٹا لگاتے تھے، بعد ازاں ایک جیسے حروف کو قریب لانے اور بچوں کو سمجھنے میں آسانی کے لیے ا ب پ ت ٹ ث کردیا گیا۔
ان زبانوں کے اثرات یورپ سے ایشیا تک پائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر سنسکرت میں گھوڑے (یہ لفظ دراوڑن کا ہے جو اب بھی جنوبی بھارت میں اور پورے برصغیر میں بولا جاتا ہے) کو ہرش کہتے ہیں، انگریزی میں ہارس، فارسی اور پشتو میں اسپ اور ہسپ کہتے ہیں۔ اسی طرح سنسکرت میں ماتا، ماں کو کہتے ہیں، انگریزی میں مدر، فارسی میں مدر، پشتو میں مور، سندھی میں ماؤ اور بنگلہ، ہندی اور گجراتی میں ماں کہتے ہیں۔ سنسکرت میں بیٹے کو پتر کہتے ہیں جب کہ ہندی، پنجابی سندھی، گجراتی، بنگلہ اور انڈونیشین میں بھی پتر ہی کہتے ہیں۔
اب دیکھیے ان زبانوں میں کتنی مماثلت ہے، ہاں کچھ علاقوں خاص کر جنوبی بھارت، سری لنکا، تھائی لینڈ، ملائیشیا میں ملایائی اور کمبوڈیا میں دراوڑن حروف تہجی استعمال ہوتے ہیں، جب کہ اس وقت دنیا کی بہت بڑی آبادی چین میں 130 کروڑ، جاپان میں 13 کروڑ اور دونوں کوریاؤں میں 7 کروڑ افراد تصاویر کی زبانوں سے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ چینی زبان میں اس وقت حروف تہجی (تصاویر کے حروف) ڈھائی ہزار جب کہ جاپانی زبان میں دو ہزار ہیں۔ ان کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ چین میں 200 سے زیادہ قومیتیں ہیں، ان کے تصویری حروف تہجی کے ایک ہی لفظ کو کسی قومیت کے لوگ مرغی، کسی اور قومیت کے لوگ ککڑ، کسی اور قومیت کے لوگ مرگی اور پھر کسی اور قومیت کے لوگ ہین پڑھیں گے۔ چینی اپنی زبان اور قوم کو 'مینڈیرین' کہتے ہیں ۔
چومسکی کہتے ہیں کہ 'گزشتہ 100 سال قبل دنیا میں 8000 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی تھیں، جو اب تقریباً 6000 پہ آگئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زبانیں ایک دوسرے میںضم ہوتی جارہی ہیں۔ ہمارے برصغیر میں صدیوں قبل پالی، پراکرت، بھاشا وغیرہ معدوم ہوچکی ہیں اور اب حال ہی میں 'گوا' کی 'کوکنی' زبان معدوم ہوچکی ہے، وہاں اب سب لوگ انگریزی بولتے ہیں۔ ملائیشیا میں پہلے ملایائی، تامل اور چینی زبان بولی جاتی تھیں، اب ان کے ساتھ ساتھ تقریباً سبھی لوگ انگریزی بولتے ہیں۔ افریقی اور کیریبین ممالک کی مقامی زبانیں تقریباً معدوم ہوتی جارہی ہیں، وہاں انگریزی اور فرنچ بولی جاتی ہیں۔
چومسکی کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں 7 زبانیں ایسی ہیں جن میں دیگر زبانیں مدغم ہوتی جارہی ہیں، وہ ہیں انگریزی، اسپینش، روسی، سوہالی، مینڈیرین، انڈونیشین اور ہندی۔ واضح رہے کہ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق اب ہندی اور اردو الگ الگ زبان کے طور پر سمجھنے کے بجائے ایک ہی زبان ہے۔
ماہر سماجیات، نفسیات، لسانیات اور فلسفی باکو نن، کروپوتکن، کارل مارکس، اینگلز، ایماگولڈمان، جارج آر ویل اور نوم چومسکی سمیت سب اس بات پر متفق ہیں کہ آگے چل کر دنیا کی سرحدیں ختم ہوجائیں گی، ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان بسے گا۔ تہذیب، ثقافت اور زبان بھی ایک ہوجائے گی۔ جب طبقات ختم ہوجائیں گے پھر امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم ہوگا تو ساری دنیا کے لوگ باآسانی ایک دوسرے سے ملنے لگیں گے۔ سارے وسائل سارے لوگوں کے ہوں گے۔ مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ سارے لوگ دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔