مادر علمی کو بچائیے
گزشتہ 2 سال سے اسکول کے اخراجات SMC کمیٹی اور اسکول کے ٹیچرز باہمی تعاون سے رضاکارانہ طور پر کر رہے ہیں۔
عالمی بینک کے تعاون سے جاری سندھ ایجوکیشن ریفارم پروگرام کے تحت اسکولوں کی تفصیلات جمع کرنے کا کام مکمل کرلیا گیا ہے، ایس ایم سی فنڈ کے اجرا کی پہلی قسط جاری کی جاچکی ہے جس کے ذریعے 600 اسکولوں کو فنڈ جاری کیے گئے ہیں، یہ بات کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کی صدارت میں اجلاس میں بتائی گئی، اجلاس میں سندھ ایجوکیشن ریفارم پروگرام کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور پروگرام کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کے لیے ضروری فیصلے کیے گئے۔
واضح رہے کہ اسکول مینجمنٹ کمیٹی (ایس ایم سی) فنڈ کے اجرا سے اسکولوں کی حالت بہتر بنانے، اساتذہ، طلبہ اور عملہ کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ان سطور کے ذریعے چند گزارشات کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی صاحب کی خدمت میں پیش ہیں، اس امید کے ساتھ کہ وہ اس تحریر کو درخواست جان کر شکایت کا ازالہ کریں گے۔ گورنمنٹ اردو بوائز بلوچ پرائمری اسکول (یونین کونسل 10، محراب خان عیسیٰ خان روڈ لیاری میں واقع ہے) اس اسکول کا میں ایس ایم سی کا چیئرمین کی حیثیت سے رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ یہ اسکول ایک عرصہ تک بند رہا تھا ۔
جس وجہ سے علاقے میں پرائمری تعلیم کا فروغ رک چکا تھا، جس کے نتیجے میں اسی اسکول کے باؤنڈری میں واقع بلوچ بوائے سیکنڈری اسکول بھی بے معنی ہوکر رہ گیا تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر علاقے کی انجمن ''انجمن اصلاح نوجوانان شیروک لین کلاکوٹ'' جس کا میں جنرل سیکریٹری بھی ہوں اس انجمن کے صدر حاجی محمد رفیق داد اور جملہ عہدیداران نے اس بند پرائمری اسکول کی بحالی کے لیے انتھک محنت کی۔ ہماری کوششوں سے یک فروری 2013 کو اس اسکول کا ازسرنو آغاز ہوا۔ انجمن کی کوششوں سے طلبہ و طالبات جن کی تعداد 160 تھی کے لیے مفت یونیفارم اور کاپیاں بمع اسٹیشنری تقسیم کی گئی۔
جب کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے نصابی کتب بچوں کی تعداد سے کم دی گئی تھیں اس کمی کو انجمن نے پوری کردی تھی یعنی بچوں میں کتابیں بھی سماجی سطح پر مفت تقسیم کردی گئی تھی۔اس دوران حکومت سندھ کے قوانین کے تحت اس اسکول کی (اسکول مینجمنٹ کمیٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کمیٹی کی کوششوں سے علاقے میں پرائمری تعلیم فروغ پا رہا ہے۔
5 اپریل 2013 کو SMC بینک اکاؤنٹ متعلقہ بینک میں کھولا گیا۔ یکم جون 2012 تا اکتوبر 2014 تک بینک اسٹیٹمنٹ نکالا گیا۔ اس ضمن میں محکمہ تعلیم کی ہدایت و قوانین کے تحت تمام ضروری ضوابط پورے کیے گئے اور متعلقہ محکمہ تعلیم لیاری زون جنوبی میں جمع کرائے گئے۔ لیکن گزشتہ 2 سال سے آج تک مذکورہ بالا اسکول کا SMC فنڈز جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کوششیں کی گئیں اور یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے تاکہ فنڈز کی فراہمی سے اسکول کے روز مرہ اور ترقیاتی کام کیے جاسکیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 2 سال سے اسکول کے اخراجات SMC کمیٹی اور اسکول کے ٹیچرز باہمی تعاون سے رضاکارانہ طور پر کر رہے ہیں۔
اسکول کی بڑی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متعلقہ SMC نے مورخہ 24 اپریل 2014کو ایجوکیشن ایگزیکٹو انجینئر ورکس ڈپارٹ(RSU) میں تحریری درخواستیں جمع کرائی گئیں، جس میں 50 ڈیسک، 6 میز، 10 کرسیاں،4 پنکھے، 2 الماریوں کی فراہمی اور اسکول میں باتھ روم تعمیر کرنے کی درخواست کی گئی۔ اس ضمن میں 8 مئی 2014 کو متعلقہ ڈپارٹ کی جانب سے مذکورہ اسکول کا سروے کیا گیا تاکہ مذکورہ بالا ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ لیکن تاحال اس ضمن میں عملی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ جس وجہ سے خاص طور پر لیڈیز ٹیچرز کو باتھ روم کے حوالے سے پریشانی کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں 30 اپریل 2014 کو اسکول ٹیچرز اور ڈیسک کی فراہمی کے لیے جناب اے ڈی او لیاری کے نام درخواست دی گئی لیکن تاحال مذکورہ بالا ضروریات پوری نہیں کی جاسکی ہیں۔ جس وجہ سے تعلیمی حرج ہو رہا ہے۔
امسال نئے تعلیمی سال 2014 کے آغاز کے وقت محکمہ تعلیم اے ڈی او لیاری آفس کو نصابی کتب کی فراہمی کے لیے درخواست دی گئی اور تاخیر کے بعد جو نصابی کتب دی گئی وہ بچوں کی جملہ تعداد سے 50 فیصد کم تھی جب کہ 5 ویں جماعت کے لیے سرے سے کوئی کتاب نہیں دی گئی کہ کتابیں اوپر سے نہیں آئی ہیں۔ اس طرح بھی تعلیم میں حرج ہو رہا ہے۔
اس وقت اسکول میں 4 ٹیچرز PST ہیں اور 1 ٹیچر SLT ہے یعنی 5 ٹیچرز ہیں۔ جب کہ بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مزید 2 ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ اس وقت اسکول میں اول جماعت کے 59، دوم جماعت A میں 31، دوم جماعت B میں 31، تیسری جماعت میں 22، چوتھی جماعت میں 26 اور پانچویں جماعت میں کتابیں نہ ہونے کی وجہ سے صرف 5 بچے زیر تعلیم ہیں۔ جو بچے چوتھی جماعت سے 5 ویں جماعت میں آئے تھے لیکن کتابیں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اس لیے وہ گھر بیٹھ گئے اس طرح وہ تعلیم سے محروم ہیں۔ اسکول کی بہتری اور فروغ تعلیم کے لیے مزید ٹیچرز، نصابی کتب، سالانہ فنڈز اور ترقیاتی کاموں اور دیگر ضروری اشیا کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں مذکورہ پرائمری اسکول، بلوچ سیکنڈری اسکول کے کیمپس میں شامل ہوگیا ہے۔ کیمپس رول کے مطابق پرائمری اسکول کا SMC فنڈ بلوچ سیکنڈری اسکول کے SMC فنڈ میں آنا تھا لیکن نہیں آیا جب کہ بلوچ سیکنڈری اسکول کا SMC فنڈ جاری کیا گیا۔ یہ بھی عجیب صورتحال ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر محکمہ تعلیم کے ذمے داران مذکورہ پرائمری اسکول کو نظرانداز کر رہے ہیں۔
یہ متعلقہ SMC کمیٹی کی ہمت اور کوشش ہے کہ محکمہ تعلیم کے عدم تعاون کے باوجود یہ اسکول چل رہا ہے دیگر یہ اسکول ایک مرتبہ پھر بند ہوجاتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک محکمہ تعلیم کے عدم تعاون کے باوجود یہ اسکول آباد ہوگا۔ جب ٹیچرز اور کتابیں نہ ہوں گی تو لامحالہ یہ اسکول پھر بند ہوجائے گا۔ خدارا! اسکول کو بند ہونے سے بچائیں۔
واضح رہے کہ اسکول مینجمنٹ کمیٹی (ایس ایم سی) فنڈ کے اجرا سے اسکولوں کی حالت بہتر بنانے، اساتذہ، طلبہ اور عملہ کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ان سطور کے ذریعے چند گزارشات کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی صاحب کی خدمت میں پیش ہیں، اس امید کے ساتھ کہ وہ اس تحریر کو درخواست جان کر شکایت کا ازالہ کریں گے۔ گورنمنٹ اردو بوائز بلوچ پرائمری اسکول (یونین کونسل 10، محراب خان عیسیٰ خان روڈ لیاری میں واقع ہے) اس اسکول کا میں ایس ایم سی کا چیئرمین کی حیثیت سے رضاکارانہ خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔ یہ اسکول ایک عرصہ تک بند رہا تھا ۔
جس وجہ سے علاقے میں پرائمری تعلیم کا فروغ رک چکا تھا، جس کے نتیجے میں اسی اسکول کے باؤنڈری میں واقع بلوچ بوائے سیکنڈری اسکول بھی بے معنی ہوکر رہ گیا تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر علاقے کی انجمن ''انجمن اصلاح نوجوانان شیروک لین کلاکوٹ'' جس کا میں جنرل سیکریٹری بھی ہوں اس انجمن کے صدر حاجی محمد رفیق داد اور جملہ عہدیداران نے اس بند پرائمری اسکول کی بحالی کے لیے انتھک محنت کی۔ ہماری کوششوں سے یک فروری 2013 کو اس اسکول کا ازسرنو آغاز ہوا۔ انجمن کی کوششوں سے طلبہ و طالبات جن کی تعداد 160 تھی کے لیے مفت یونیفارم اور کاپیاں بمع اسٹیشنری تقسیم کی گئی۔
جب کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے نصابی کتب بچوں کی تعداد سے کم دی گئی تھیں اس کمی کو انجمن نے پوری کردی تھی یعنی بچوں میں کتابیں بھی سماجی سطح پر مفت تقسیم کردی گئی تھی۔اس دوران حکومت سندھ کے قوانین کے تحت اس اسکول کی (اسکول مینجمنٹ کمیٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کمیٹی کی کوششوں سے علاقے میں پرائمری تعلیم فروغ پا رہا ہے۔
5 اپریل 2013 کو SMC بینک اکاؤنٹ متعلقہ بینک میں کھولا گیا۔ یکم جون 2012 تا اکتوبر 2014 تک بینک اسٹیٹمنٹ نکالا گیا۔ اس ضمن میں محکمہ تعلیم کی ہدایت و قوانین کے تحت تمام ضروری ضوابط پورے کیے گئے اور متعلقہ محکمہ تعلیم لیاری زون جنوبی میں جمع کرائے گئے۔ لیکن گزشتہ 2 سال سے آج تک مذکورہ بالا اسکول کا SMC فنڈز جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کوششیں کی گئیں اور یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے تاکہ فنڈز کی فراہمی سے اسکول کے روز مرہ اور ترقیاتی کام کیے جاسکیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 2 سال سے اسکول کے اخراجات SMC کمیٹی اور اسکول کے ٹیچرز باہمی تعاون سے رضاکارانہ طور پر کر رہے ہیں۔
اسکول کی بڑی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے متعلقہ SMC نے مورخہ 24 اپریل 2014کو ایجوکیشن ایگزیکٹو انجینئر ورکس ڈپارٹ(RSU) میں تحریری درخواستیں جمع کرائی گئیں، جس میں 50 ڈیسک، 6 میز، 10 کرسیاں،4 پنکھے، 2 الماریوں کی فراہمی اور اسکول میں باتھ روم تعمیر کرنے کی درخواست کی گئی۔ اس ضمن میں 8 مئی 2014 کو متعلقہ ڈپارٹ کی جانب سے مذکورہ اسکول کا سروے کیا گیا تاکہ مذکورہ بالا ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ لیکن تاحال اس ضمن میں عملی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ جس وجہ سے خاص طور پر لیڈیز ٹیچرز کو باتھ روم کے حوالے سے پریشانی کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں 30 اپریل 2014 کو اسکول ٹیچرز اور ڈیسک کی فراہمی کے لیے جناب اے ڈی او لیاری کے نام درخواست دی گئی لیکن تاحال مذکورہ بالا ضروریات پوری نہیں کی جاسکی ہیں۔ جس وجہ سے تعلیمی حرج ہو رہا ہے۔
امسال نئے تعلیمی سال 2014 کے آغاز کے وقت محکمہ تعلیم اے ڈی او لیاری آفس کو نصابی کتب کی فراہمی کے لیے درخواست دی گئی اور تاخیر کے بعد جو نصابی کتب دی گئی وہ بچوں کی جملہ تعداد سے 50 فیصد کم تھی جب کہ 5 ویں جماعت کے لیے سرے سے کوئی کتاب نہیں دی گئی کہ کتابیں اوپر سے نہیں آئی ہیں۔ اس طرح بھی تعلیم میں حرج ہو رہا ہے۔
اس وقت اسکول میں 4 ٹیچرز PST ہیں اور 1 ٹیچر SLT ہے یعنی 5 ٹیچرز ہیں۔ جب کہ بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مزید 2 ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ اس وقت اسکول میں اول جماعت کے 59، دوم جماعت A میں 31، دوم جماعت B میں 31، تیسری جماعت میں 22، چوتھی جماعت میں 26 اور پانچویں جماعت میں کتابیں نہ ہونے کی وجہ سے صرف 5 بچے زیر تعلیم ہیں۔ جو بچے چوتھی جماعت سے 5 ویں جماعت میں آئے تھے لیکن کتابیں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اس لیے وہ گھر بیٹھ گئے اس طرح وہ تعلیم سے محروم ہیں۔ اسکول کی بہتری اور فروغ تعلیم کے لیے مزید ٹیچرز، نصابی کتب، سالانہ فنڈز اور ترقیاتی کاموں اور دیگر ضروری اشیا کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں مذکورہ پرائمری اسکول، بلوچ سیکنڈری اسکول کے کیمپس میں شامل ہوگیا ہے۔ کیمپس رول کے مطابق پرائمری اسکول کا SMC فنڈ بلوچ سیکنڈری اسکول کے SMC فنڈ میں آنا تھا لیکن نہیں آیا جب کہ بلوچ سیکنڈری اسکول کا SMC فنڈ جاری کیا گیا۔ یہ بھی عجیب صورتحال ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر محکمہ تعلیم کے ذمے داران مذکورہ پرائمری اسکول کو نظرانداز کر رہے ہیں۔
یہ متعلقہ SMC کمیٹی کی ہمت اور کوشش ہے کہ محکمہ تعلیم کے عدم تعاون کے باوجود یہ اسکول چل رہا ہے دیگر یہ اسکول ایک مرتبہ پھر بند ہوجاتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک محکمہ تعلیم کے عدم تعاون کے باوجود یہ اسکول آباد ہوگا۔ جب ٹیچرز اور کتابیں نہ ہوں گی تو لامحالہ یہ اسکول پھر بند ہوجائے گا۔ خدارا! اسکول کو بند ہونے سے بچائیں۔