شاندار ماضی…تابناک مستقبل
آج عرب ممالک، پاکستان سمیت دہشت گردی اور دہشت گردوں کے حوالے سے دنیا بھر میں نمایاں ہے۔
ابھی چند روز پہلے کہیں جانا ہوا، ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جن کے شوہر سرکاری ملازم تھے، سرکار کے کاموں کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں ان کا تبادلہ ہوتا رہا تھا، خاص کر کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف حصوں میں تبادلوں کی وجہ سے قیام اور سفر چلتا رہا تھا، جہاں سرد اور خشک موسم سے انھیں الرجی ہوگئی تھی اور علاج سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
لہٰذا انھوں نے تمام میک اپ ترک کردیا اور اب برسوں سے کراچی میں مقیم ہیں تو میک اپ کے لیے صرف بیرون ملک کی مصنوعات استعمال کرتی ہیں، یہاں تک تو چلیے بات ٹھیک تھی لیکن وقفے وقفے سے وہ باہر ملکوں کی مصنوعات کی تعریفوں کے پل توڑتی رہیں، باہر کی مصنوعات، ورائٹی، تعلیم، یونیورسٹیز، سب کچھ بہت اچھا، بہت اعلیٰ، بہترین۔ بحث کی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی تھی، وہ اپنے موقف پر سختی سے ڈٹی ہوئی تھیں۔ یہ مسئلہ صرف ان خاتون کا نہیں ہے بلکہ ہمارے ملک میں اکثر اشخاص اس بیماری کا شکار نظر آتے ہیں ۔
جنھیں اپنے ملک اور اس کی بنی مصنوعات، تعلیم، تعلیمی معیار، سیاست، کھیل، کھلاڑی یہاں تک کہ اناڑیوں میں بھی صرف خامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں، بہت سے معیار واقعی خاصے توجہ طلب ہیں لیکن ایک شعبہ جسے عقل و ذہانت کہہ لیجیے ہماری قوم کم نہیں ہے۔ اس قوم میں آئے دن ایسے ہونہار اور دور دراز علاقوں کے رہنے والے پھول اپنی دانشوری سے دنیا کے بڑے بڑے علمبرداروں کے سینے پر حسد کے چرکے لگا رہے ہیں، یقیناً وہ سوچتے تو ہوں گے کہ ہم اپنے ملک میں ایسے ذہین اور روشن ذہن کہاں سے لائیں جو پاکستان جیسے غریب اور دانشور یوں بھرے ملک کو میسر ہیں۔ خدا کی قدرت ہے۔
ایک طویل عرصے سے مغربی ممالک کی ذہانت کا طوطی بولتا ہے۔ ان کی ایجادات، تعمیرات اور فنون لطیفہ کے حوالے سے خاص کر اسلامی ممالک احساس کمتری میں مبتلا رہے ہیں، ریل کے بھاپ کے انجن سے لے کر کمپیوٹر تک اہل مغرب کی ذہانت کے قلم سے رقم ہے ایک کے بعد ایک ایجاد ان ہی ممالک کے اردگرد گھومتی نظر آتی ہے، ابھی کچھ روز پہلے ہی بچوں کے ایک رسالے کا مطالعہ کر رہی تھی جہاں معلومات عامہ کے حوالے سے کچھ مقابلے درج تھے۔
ایجادات کے حوالے سے بلب، ہوائی جہاز، کشش ثقل کے قوانین، کمپیوٹر اور نجانے کیا کیا کچھ سب مغربی سائنسدانوں کے نام درج تھے، مجھ سمیت نئی نسل کے نوخیز پھول بھی ان معلومات سے مغربی سائنسدانوں سے خاصے متاثر ہوئے، لیکن ان تمام ایجادات اور معلومات کے خزانے کے اصل ماخذ کیا ہیں۔ یہ ہم میں سے بہت سے نہیں جانتے، یا شاید ایک ایسا سلسلہ ہے جو بہت کچھ آہنی قدیم الماریوں کے مضبوط قفلوں میں قید ہے۔ یہی بہتر ہے نہ علم ہو۔ متاثر ہی رہنے دیا جائے۔ احساس کمتری کے دائروں میں ہی گھومنے دیا جائے۔ لیکن سچ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ ارفع کریم کے انتقال کو ابھی زیادہ عرصہ تو نہیں گزرا کہ ایسے اور ننھے منے پھولوں نے ماشاء اللہ کھلنا شروع کیا ہے۔
آج عرب ممالک، پاکستان سمیت دہشت گردی اور دہشت گردوں کے حوالے سے دنیا بھر میں نمایاں ہے، تعصب پسند، جاہل، قدامت پسند، مذہبی انتہا پسندوں کے عنوانوں سے بھی انھیں پکارتے ہیں، لیکن شاید ہم میں سے بھی بہت سے غافل ہیں کہ اہل عرب آٹھویں صدی عیسوی میں علم و فنون کے دلدادہ ہوگئے تھے، یہ حقیقت ہے کہ یونانی مفکرین نے دنیا بھر میں اپنے فلسفوں سے ذہنوں کو پہلی بار جھنجھوڑا تھا لیکن ان کی بنیاد خیالوں اور منطقوں کی حد تک محدود تھی جب کہ اہل عرب کی سرزمین نے ایسے ایسے اعلیٰ عالموں اور حکیموں کو جنم دیا جنھوں نے منطقوں اور خیالوں پر نہیں بلکہ اپنے تجربات کی بنیاد پر ایسی ایسی ایجادات کیں۔
جس سے دنیا مستفید ہوئی، فلکیات ہو یا ریاضیات، جغرافیائی علم ہو یا نباتاتی علم، علم کیمیا ہو یا تعمیرات۔ یہاں تک کہ فنون و لطیفہ میں بھی ایسے ایسے معرکے جو آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی نایاب ہیں، لیکن افسوس اہل یورپ نے ان میں سے اکثر ایجادات اور معلومات کو اپنے ان سائنسدانوں کے نام منسوب کیا جو پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں ہوئے مثلاً ایک سائنسدان سیوتیکو براجر نے پوری ایک صدی بعد 1576 میں اپنا رصدخانہ تعمیر کیا جو اس سے پہلے سمرقند میں قائم تھا اور ان ھی خطوط پر پوری ایک صدی بعد کام کیا گیا اور یہ سہرا سیوتیکوبراجر کے سر بندھا۔ سولہویں صدی تک یورپ میں علم فلکیات کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا تھا، جب کہ مسلمان علما اس علم میں بہت دور چلے گئے تھے آج اہل مغرب تیکوبراجر کو اعلیٰ مقام دیتے ہیں حالانکہ یہ سہرا تو ان عظیم عرب سائنسدانوں کے سر ہے جنھوں نے اپنے علم و فکر سے ایک تاریخ رقم کی تھی۔ اگر ہم عرب سائنسدانوں کی تاریخ کھنگالنے بیٹھے تو ایک کے بعد ایک نئی جہد نئی ایجاد نئی سوچ نئی فکر در پر در کھلتے چلے جائیں گے۔
ریاضیات میں عرب علما نے ایسی ایسی جہتیں کیں جو آج بھی ہمارے الجبرا، جیومیٹری اور حساب کی تمام شاخوں میں پھیلی ہوئی ہیں، جوبرٹ پاپائے روم جن کا لقب سلوسٹر دوم ہے۔ 980-970 تک یورپ میں وہی علم ریاضی میں داخل کیے جو اس نے اسپین کے عرب علما سے حاصل کیے تھے۔ اسی طرح ایک انگریز عالم اڈھیلارڈ نے 1100 سے 1120 تک اسپین اور مصر میں سیاحت کی اور اس نے مبادی اقلیدس کا عربی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کیا، اسی طرح سے جیومیٹری میں عربی زبان سے ترجمہ کیا گیا اور اسے جوتھیوڈوز کی جانب سے منسوب کیا گیا، علم کیمیا میں ایسے ایسے کارنامے ہوئے کہ آج تک دنیا ان عرب کیمیا گروں کی کیمیاگری سے مستفید ہو رہی ہے۔ زراعت کے شعبے میں بھی اس سرزمین سے ایسے ہیرے ابھرے جنھوں نے نر اور مادہ پھولوں والے درختوں کا پتہ چلایا، کافور، ریوند چینی، لونگ اور ایسے بہت سے قدرتی نباتات کا استعمال دنیا کو متعارف کروایا۔
سمجھ نہیں آرہا کون سا شعبہ ہے جس پر تحقیق نہ کی گئی ہو، لیکن جس کا قبضہ پکا اس کا دعویٰ سچا۔ بہرحال بہت سا وقت بیچ سے گزر چکا ہے لیکن تاریخ شاہد ہے اور گواہ ہے کہ جس قوم میں ایسے نایاب ہیرے پیدا ہوں ان کا مستقبل بھی شاندار ہوسکتا ہے۔ بس ہمت اور حوصلے کے ساتھ ایمان کی سچائی بھی ضروری ہے۔