وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئے

علامہ اقبال نے مسلمانوں کے دینی، سیاسی، معاشرتی زوال کی جو وجوہات بیان کی ان میں نمایاں ملوکیت، ملائیت اورخانقاہیت ہیں

علامہ اقبال نے مسلمانوں کے دینی، سیاسی، معاشرتی زوال کی جو وجوہات بیان کی ان میں نمایاں ملوکیت، ملائیت اور خانقاہیت ہیں۔ فوٹو: فائل

بعض اہم موضوعات پر علامہ اقبال نے شعر یا نثر میں کچھ نہ کچھ تحریر کرنے کے منصوبے تو بنائے مگر زندگی نے وفا نہ کی، اس لیے ان کی تکمیل نہ ہوسکی۔

مثلاً مہاراجہ کشن پرشاد کو خط میں ''بھگوت گیتا'' کا اردو اشعار میں ترجمہ کرنے کے ارادے کا ذکر کرتے ہیں۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کو خط میں انگریزی میں ایسی کتاب لکھنے کا ذکر کرتے ہیں جس کا عنوان ہوگا ''اسلام میرے نقطۂ نگاہ سے'' نذیر نیازی فرماتے ہیں کہ حادثہ کربلا پر ہومرکے ''اوڈیسے'' کی طرز پر ایک طویل نظم لکھنا چاہتے تھے۔ جاوید نامہ میں اضافی ارواح سے ملاقاتوں کے بارے میں لکھنے کا سوچتے تھے۔ انگریزی میں ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب تحریر کرنے کا منصوبہ تھا۔

آخری ایام میں نواب بھوپال سے وعدہ کیا کہ ''اجتہاد کی تاریخ و ارتقا'' کے موضوع پر کتاب لکھیں گے۔ اس سلسلے میں میاں محمد شفیع (م۔ش) سے انگریزی میں کچھ ابتدائی نوٹس بھی لکھوائے گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے نام خط محررہ 28 مئی 1937ء میں فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ مسلمانوںکی غیرت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟

خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ اورجدید نظریات کی روشنی میں اس کے آئندہ ارتقاء میں حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور محتاط مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ ضابطۂ قانون صحیح طور پر سمجھ کر نافذ کردیا جائے تو ہر ایک کے لیے کم از کم زندہ رہنے کا حق محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن قانون شریعت کا نفاذ اور ارتقاء اس سرزمین میں ناممکن ہے جب تک کہ آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں وجود میں نہ لائی جائیں۔ اسلام کے لیے ''سوشل ڈیما کریسی'' کو کسی مناسب شکل میں جو اسلامی قانون کے اصولوں کے مطابق ہو، قبول کرلینا ''انقلاب'' نہیں بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف واپس جانا ہے۔

ان منصوبوں میں بعض تو ادبی نوعیت کے ہیں، بعض کا تعلق فلسفہ، مابعد الطبیعیات یا دینیات سے ہے اور بعض خالصتاً عنقریب وجود میں آنے والی مسلم ریاست (پاکستان) کی عملی، سیاسی اور معاشی ضروریات سے متعلق ہیں۔ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ، حادثہ کربلا پر ہومر کے اوڈیسے کی طرز پر نظم لکھنا یا جاوید نامہ میں اضافی ارواح شامل کرنا، ایسے ادبی منصوبے تھے جو شاعر کے تخیلی سمندر میں مضطرب لہروں کی طرح ابھرے اور ڈوب گئے لیکن باقی منصوبوں کے بارے میں ایسا گمان کرنا درست نہ ہوگا۔

''اسلام میرے نقطہ نگاہ سے'' یا ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب'' جیسی کتب تحریر کرنے کا اگر انہیں موقع مل جاتا تو تخلیقی سوچ کے اعتبار سے وہ خطبات اسلامی فکر کی تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ اسی طرح ''اجتہاد کی تاریخ و ارتقا'' اور ''فلاحی ریاست کا قرآنی تصور'' کے موضوعات پر اگر وہ کتب تحریر کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو ان کے افکار مسلمانان پاکستان کی مزید فکری رہبری کا باعث بن سکتے تھے۔

خطبات تشکیل نوکن کے لیے تحریر کیے گئے؟ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفہ سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفۂ اسلام کو جدید الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے خیالات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔

جب یہ لیکچر علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے سنے تو صدر شعبۂ فلسفہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن نے علامہ اقبال سے کہا:
جناب والا! آپ نے اسلام میں فلسفہ دین کی تشکیل نو کی بنیاد رکھ دی۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلیں اس کے لیے آپ کی ممنون احسان ہیں۔ آپ کی فکر افزا مثال اور لوگوں کی بھی ہمت بندھائے گی۔

خطبات کے ایک مبصر سلیم احمد تحریر کرتے ہیں:
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا چیلنج ایک نئی الٰہیات کی تشکیل کا مطالعہ کررہا تھا۔ اقبال کی نئی الٰہیات کی کوشش کا حقیقی مقصد مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان مشترکہ عناصر کی جستجو ہے۔ اگر ہمیں مغربی تہذیب کو قبول کرنا ہے یا اسے اپنے اندر جذب کرکے فائدہ اٹھانا ہے تو ہمیں مغربی اور اسلامی تہذیب کی روح میں اتر کر ان کی ہم آہنگی کو الٰہیاتی بنیادوں پر ثابت کرنا پڑے گا۔ تشکیل جدید ان ہی معنوں میں ایک زبردست کارنامہ ہے جسے جدید اسلام کی بائبل کہنا چاہیے۔

یہ سب اپنی جگہ درست۔ حقیقت یہی ہے کہ خطبات علامہ اقبال کی ایسی تصنیف ہے جسے علماء نے اگر پڑھنے کی کوشش کی تو اسے ناپسند فرمایا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے تو صاف کہہ دیا کہ یہ کتاب اگر نہ لکھی جاتی تو بہتر ہوتا۔ جہاں تک مسلمانوں کی ''مغرب زدہ'' نئی نسل کا تعلق ہے، انہوں نے خطبات کو، جس توجہ کے وہ مستحق تھے، نہیں دی۔ پس علامہ اقبال کی ''فکر افزائی'' اوروں کی ہمت نہ بندھاسکی۔

خطبات کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ انہیں تحریر کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔ پہلی یہ کہ علامہ اقبال کو احساس تھا کہ دنیائے اسلام ہر طور پر مغرب کی طرف جھکتی چلی جارہی ہے۔ وہ اس تحریک کے مخالف نہ تھے کیونکہ یورپی تہذیب عقل و دانش کے اعتبار سے انہی نظریات کی ترقی یافتہ صورت پیش کرتی ہے جن پر اسلام کی تمدنی تاریخ کے مختلف ادوار میں غور و فکر کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں وہ یورپی تہذیب کو ایک طرح سے اسلامی تہذیب ہی کی توسیع خیال کرتے تھے اور مسلمانوں کی نئی نسل کے اس مطالبے کو جائز سمجھتے تھے کہ اسلامی عقائد اور نظریۂ حیات کا ایک بار پھر جائزہ لے کر ایسی نئی تعبیر یا تشریح کی ضرورت ہے جو وقت کے جدید تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہو۔ انہیں خدشہ صرف اس بات کا تھا کہ مادہ پرست یورپی کلچر کی ظاہری چمک دمک ہمیں اتنا متاثر نہ کردے کہ ہم اس کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچ سکنے کے قابل نہ رہیں۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ بقول اقبال انسان مختلف قسم کے رشتوں کے ذریعے خدا اور کائنات سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا مطالعۂ فطرت یا سائنسی تحقیق بھی اپنی طرح کی عبادت ہے۔ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کی توجہ سائنسی علوم کی طرف مبذول کرنے کی خاطر ان پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ اسلام روحانی دنیا کے ساتھ مادی دنیا کو بطور حقیقت تسلیم کرتا ہے اور انسان کو مشاہداتی یا تجربی علوم کی تحصیل سے تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے۔

تیسری وجہ یہ تھی کہ علامہ اقبال کے نزدیک روحانی (یا مذہبی) تجربہ بھی ایک نوع کا علم ہے جسے دیگر علوم کی طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے خطبات میں فکری نقطۂ نگاہ سے اسلام کو بطور ارفع مذہب پیش کیا اور بعض آیات کی تعبیر سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مابعد الطبیعیات، طبیعیات یا مادے اور زماں و مکاں سے متعلق فکری یا تجربی علوم کے نئے انکشافات کی تصدیق قرآن سے کی جاسکتی ہے۔

خطبات کا مطالعہ مختلف جہتوں سے کیا جاسکتا ہے اور انہیں تحریر کرنے کی اور وجوہ بھی بیان کی جاسکتی ہیں۔ جس طرح پہلے کہا جاچکا ہے، اگر علامہ اقبال ''اسلام میرے نقطہ نگاہ سے'' یا ''ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب'' لکھنے میں کامیاب ہو جاتے تو یقینا وہ خطبات تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ یہ کام صرف علامہ اقبال خود ہی انجام دے سکتے ہیں۔ اس میدان میں ان کی ''فکر افزا'' مثال نے پہلے کسی کی ہمت نہ بندھائی تو اب کیا بندھائے گی۔

اب علامہ اقبال کے ''اجتہاد کی تاریخ و ارتقا'' کے موضوع پر کتاب لکھنے کے ارادے کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ''اجتہاد'' کے مطالبے میں علامہ اقبال نے پہل نہیں کی۔ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و تمدنی زوال و انتشار کے عالم میں دراصل شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے کو اٹھایا اور اپنے وضع کردہ فقہی اصول ''تلفیق'' کے تحت اہل سنت والجماعت فرقے کو ان کے چار مدرسہ ہائے فقہ (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) میں سے ہر کسی معاملے میں سب سے سہل راہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ یہ صحیح معنوں میں اجتہاد تو نہ تھا، مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ سنیّوں کے چاروں فقہی مذاہب کے علماء ایک دوسرے پر کفر کے فتوے صادر کرتے رہے۔

شاید اسی بنا پر بعد میں سرسید احمد خان نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں نے اگر ''تقلید'' کو نہ چھوڑا تو برصغیر میں اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ علامہ اقبال نے 1924ء میں جب ''اجتہاد'' کے موضوع پر اپنا پہلا خطبہ دیا تو ان پر کفر کے فتوے لگے تھے۔ بعدازاں اسی خطبے کو بہتر صورت میں خطبات تشکیل نو میں شامل کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے ''اجتہاد مطلق'' پر اصرار کے اسباب کیا تھے؟

علامہ اقبال نے مسلمانوں کے عالمی دینی، سیاسی، تہذیبی، معاشرتی زوال کی جو وجوہ بیان کی ہیں ان میں نمایاں تین ہیں: ملوکیت، ملائیت اور خانقاہیت۔ ان کے خیال میں اسلام کا ''نزول'' اس وقت ہوا جب انسان کی عقل استقرائی بالغ ہوچکی تھی اور اسے نبیوں، مذہبی پیشواؤں اور بادشاہوں جیسے سہاروں کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اسلام نے اعلان کیا کہ نبوت ختم ہوگئی۔ اسلام میں پرانے مذاہب کی مانند کسی قسم کی پاپائیت یا مذہبی پیشوائیت کا وجود نہیں۔ مسلمانوں نے ابتدا ہی میں ساسانی اور رومن سلطنتوں کا خاتمہ کرکے ثابت کردیا کو ملوکیت کا تعلق عہد جاہلیت سے تھا۔ پس بقول علامہ اقبال اسلام کا پیغام سلطانی جمہور کا قیام ہے ۔

علامہ اقبال ''اجتہاد مطلق'' پر اس لیے بھی زور دیتے ہیں کہ ان کے مطابق اسلام مسلمانوں کو ''ثبات فی التغیر'' کے اصول پر زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآنی احکام جو عبادات سے متعلق ہیں ان میں کسی ردوبدل کی گنجائش نہیں، انہیں ثبات حاصل ہے۔ لیکن جن احکام کا تعلق ''معاملات'' سے ہے وہ اصول تغیر کے تحت ہیں اور وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق ان میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اسی سبب علامہ اقبال کی رائے میں ''اجتہاد'' بطور عمل اسلام کی ابتدا ہی کے ساتھ جاری ہوگیا تھا۔

علامہ اقبال ''اجتہاد'' کی تعریف ''اصول حرکت'' کے طور پر کرتے ہیں۔ اس بنا پر فرماتے ہیں کہ جو اجتہادات ماضی میں کیے گئے وہ اپنے اپنے زمانوں کے مطابق درست تھے۔ مگر وہ حال کی ضروریات کے مطابق صحیح قرار نہیں دیے جاسکتے۔ جو کوئی بھی اجتہاد کی تاریخ اور ارتقاء کے موضوع پر مستند کتاب لکھنے کا اہل ہوگا، وہ اپنے وقت کا مجدد قرار پائے گا۔ یہ بھی فرماتے ہیں کہ شاید یہ ایک شخص کا کام نہ ہو بلکہ اسے انجام دینے کے لیے فقہاء کا ایک بورڈ قائم کرنا پڑے اور اس کی تکمیل کے لیے خاصی مدت لگے۔

اگر سوال کیا جائے کہ علامہ اقبال کی سوچ کا ''عطر'' کیا ہے؟ تو اس کا جواب ان کے جاوید نامہ کے ان چند اشعار سے دیا جاسکتا ہے، جب وہ خدائے اسلام کے حضور میں کھڑے ہیں اور خدا وند تعالیٰ ہی سے کہلواتے ہیں:
ہر کہ او را قوت تخلیق نیست
پیش ماجز کافر و زندیق نیست
از جمال ما نصیب خود نبرد
از نخیل زندگانی بر نخورد

(ہر وہ جو تخلیقی سوچ کی قوت نہیں رکھتا، ہمارے نزدیک اصل کافر اور منافق ہے۔ اس نے ہمارے جمال میں سے اپنا نصیب حاصل نہیں کیا اور وہ زندگانی کے درخت کا پھل کھانے سے محروم رہا۔)

علامہ اقبال کو اس المیے کا بخوبی احساس تھا کہ تحریک پاکستان سے پیشتر برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تحریکیں، یعنی تحریک (وہابی) مجاہدین اور اس کے بعد تحریک خلافت، جو اسلام کے نام پر چلیں، اس لیے ناکام ہوئیں کہ ان کے پیچھے سوچ ''تقلیدی'' تھی۔ تحریک پاکستان بھی اسلام ہی کے نام پر چلی، لیکن اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اس لیے کہ اس کے پیچھے سوچ ''اجتہادی'' تھی۔ علامہ اقبال نے ''علاقائی قومیت'' کے مغربی تصور کو ''اسلامی یا مسلم قومیت'' کے تصور کے طور پر پیش کیا۔ یعنی اگر مشترک علاقہ، زبان یا نسل کی بنیاد پر انسانوں کا گروہ ایک قوم بن سکتا ہے تو مشترک روحانی مطمع نظر کی بنیاد پر مسلمان ایک قوم کیوں نہیں کہلا سکتے؟

1930ء میں خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے ''مسلم قومیت'' کے اسی اصول کی بنیاد پر علیحدہ ''ریاست'' کا مطالبہ کیا۔ اس سے پیشتر 1930ء ہی میں وہ اپنا خطبہ ''اجتہاد بطور اصول حرکت'' دے چکے تھے۔ وفات سے چند روز قبل اسی موضوع پر علامہ اقبال کا مناظرہ دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ہوا۔ مولانا کا مؤقف تھا کہ برصغیر کے مسلمان قوم کے اعتبار سے ہندوستانی ہیں مگر ملت کے اعتبار سے مسلمان۔ علامہ اقبال نے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلمان کے نزدیک ''قوم و ملت'' میں کوئی امتیاز نہیں، دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ پس بالآخر اسی اجتہادی سوچ کے نتیجے میں برصغیر کے مسلم اکثریتی صوبوں نے پاکستان کو وجود میں لاکر سیاسی و تہذیبی آزادی حاصل کی۔

اگر پاکستان اجتہادی سوچ کا نتیجہ ہے تو اسلامی قانون سازی کے معاملے میں اجتہاد ہی کے ذریعے زندہ رہ سکتا ہے۔ اسی بنا پر علامہ اقبال آئین کے تحت جمہوری طور پر منتخب پارلیمنٹ (اجماع یا شوریٰ) کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک آئندہ کے مجتہد وہ قانونی ماہرین یا وکلاء ہونے چاہئیں جنہوں نے ''اسلامی فقہ'' اور ''جدید جور سپروڈنس'' کے تقابلی مطالعہ کے موضوع پر اعلیٰ تربیت حاصل کی ہو۔ ایسے قانونی ماہرین کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر قانون ساز ادارے یعنی پارلیمنٹ کے رکن بن سکتے ہیں اور اسلامی قانون سازی میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی۔ اس دوران بادشاہوں نے قلعے بنائے تو اپنی حفاظت کے لیے، محل بنائے تو اپنی عیش و عشرت کے لیے، مقبرے بنائے تو اس لیے کہ یاد رکھے جائیں اور مساجد تعمیر کرائیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کردے۔ لیکن نہ کوئی دارالعدل کی عمارت نظر آئے گی نہ دارالعلم کی۔ بادشاہوں کی تاریخ کتب سے ہم اتنا جانتے ہیں کہ فیروز تغلق کے زمانے میں آئین فیروز شاہی لاگو ہوا یا اورنگ زیب کے عہد میں فتاویٰ عالمگیری کی روشنی میں انصاف کیا جاتا تھا۔ ایسی کتب جن سے معلوم ہوسکے کہ اس دوران عدل گستری کے لیے نافذ قوانین کی نوعیت کیا تھی؟ اسی طرح ایسی کتب موجودنہیں جو اس دوران ہمیں اپنے تہذیبی ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم کرسکیں۔ یعنی کیا اس مسلم دور کے ہندوستانی مدرسوں نے علم الکلام، فلسفہ یا تجربی علوم میں کوئی اہم یا قابل ذکر ہستیاں پیدا کیں؟ اگر علامہ اقبال قیام پاکستان کے بعد زندہ رہتے تو ایسے سب میدانوں میں تحقیق کی ضرورت پر زو دیتے۔


اب قائداعظم کے نام علامہ اقبال کے خط میں ''فلاحی ریاست کے قرآنی تصور'' کے بارے میں غور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے اس موضوع پر کوئی مستند مقالہ یا خطبہ تو تحریر نہیں کیا۔ شعرو نثر میں چند اشارے موجود ہیں۔ البتہ وہ مارکس ازم، کمیونزم یا اشراکیت کے اتنے ہی خلاف تھے جتنے کیپٹل ازم، سرمایہ داری یا جاگیرداری کے۔ ان کے خیال میں انسانی بہبود یا فلاح کا ہر وہ نظام جو روحانیت سے عاری ہو، انسان کے لیے صحیح سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتا۔ شاید اسی بنا پر انہوں نے خطبات میں شامل اپنے خطبہ ''اجتہاد'' میں فرمایا کہ اسلام کا اصل مقصد ''روحانی'' جمہوریت کا قیام ہے۔

علاوہ اس کے پیش گوئی کی تھی کہ سوویت روس میں کمیونزم بطور نظام ختم ہوجائے گا، جو بالآخر درست ثابت ہوئی۔ مغربی تہذیب کے روحانیت سے عاری سرمایہ دارانہ نظام کے استبداد کے بارے میں بھی وہ سمجھتے تھے کہ شاخ نارک پر بنا یہ آشیانہ ناپائیدار ہوگا۔ علامہ اقبال کی تحریروں سے ظاہر ہے کہ وہ سرمایہ اور محنت کے درمیان توازن کو اسلامی نظام معیشت قرار دیتے ہوئے اسے ''اقتصاد'' کا نام دیتے ہیں یعنی درمیانے طبقے کی فلاحی ریاست۔ بہرحال یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ اگرچہ علامہ اقبال ابتدائی زمانہ میں ''پولیٹیکل اکانومی'' پر کتابچہ تحریر کیا اور قیام انگلستان کے دوران ''اکانومکس'' کی کلاسوں میں شریک ہوتے رہے، وہ صحیح معنوں میں تربیت یافتہ اکانومسٹ یا اقتصادیات کے ماہر نہ تھے۔

1926ء میں علامہ اقبال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اس زمانے میں ''انڈسٹری'' کے میدان میں تو مسلمانوں کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ البتہ ''جاگیرداری'' کا مسئلہ تھا۔ لہٰذا اس موضوع پر کونسل میں ان کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کو زمین کا مالک سمجھتے تھے۔ یعنی ان کے نزدیک چار بنیادی عنصر جن سے کائنات تشکیل کی گئی۔ آگ، پانی، ہوا اور زمین، سب خدا کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا انسان اصولی طور پر زمین کا مالک نہیں، محض ''ٹرسٹی'' ہے تاکہ اس کے ذریعے روزی کما سکے۔ اس اصول کا اطلاق وہ ''کراؤن'' یا ''سٹیٹ'' پر بھی کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ''کراؤن'' (اسٹیٹ) کے تصرف میں جو اراضی ہے وہ آسان قسطوں پر بے زمین کاشتکاروں میں بانٹ دی جائے۔ نیز جاگیردار کے پاس اتنی اراضی رہنے دی جائے جو وہ خود کاشت کرتا ہو۔

گویا علامہ اقبال جاگیردار کے ''ٹیننٹ'' سے ''بٹائی'' (مخابرہ) لینے کے بھی خلاف تھے۔ اسی طرح اس زمانے میں بڑے زمینداروں پر ''ایگریکلچرل'' ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی، جو ٹیکس عشر اور زکوٰۃ کی وصولی کے علاوہ تھا۔ علامہ اقبال مسلم جاگیرداروں پر اسلامی قانون وراثت کے سختی کے ساتھ اطلاق سے بھی سمجھتے تھے کہ یوں چند نسلیں گزرنے کے بعد جاگیرداری کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال ''لینڈ ریفارم'' کے بارے میں مخصوص نظریہ رکھتے تھے۔

تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو مسلم معاشرہ کی معیشت کی بنیادیں دراصل ابتداسے ''فیوڈل'' (جاگیرداری) نظام پر قائم ہونے کی بجائے ''مرکنٹائیل'' (تجارتی) نظام پر قائم تھیں۔ اسی لیے اسلامی فقہ میں ''مال'' سے مراد ''سرمایہ'' (ولتھ) بھی ہے اور ''اراضی'' (اسٹیٹ) بھی۔ نیز تجارت کے ذریعے پیداوار بڑھانا یا منافع کمانا اخلاقی طور پر عمدہ اسلامی خصائل سمجھے جاتے تھے۔ ''تجارتی معیشت ''(مارکیٹ اکانومی) کے لیے ''سرمایہ'' کی فراہمی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔

اس لیے اگرچہ اسلامی قانون کے مطابق ربا حرام ہے، لیکن ایسے لین دین کو مختلف ''حیلوں'' کے ذریعے جاری رکھا گیا۔ بقول ناصر خسرو گیارہویں صدی اصفہان میں ''تبادلہ سرمایہ'' (منی ایکسچینج) کی خاطر دو سو کے قریب کاروباری ادارے موجود تھے یہی کاروبار کرتے تھے۔ علامہ اقبال معاشرہ میں ''سرمایہ'' (کیپٹل) کی قوت کو بالکل ختم کرنا نہیں چاہتے بلکہ ''مارکیٹ اکانومی'' کے فروغ کے لیے اس کی موجودگی کو اہم خیال کرتے ہیں۔ اسی سبب مولانا شبلی کی طرح بینک کے سود کو ''منافع'' قرار دیتے ہیں کیوں کہ اس میں استحصال کا ویسا امکان نہیں جو ربا کی وصولی میں ہے۔

پرانے زمانے کی اسلامی ریاست کی آمدنی کے ذرائع مختصراً یہ تھے: ذمیّوں سے ''جزیہ'' اور اگر اراضی کے مالک ہوں تو ''خراج'' کی وصولی۔ غینمہ۔ مسلمانوں سے، اگر اراضی کے مالک ہوں تو ''عشر'' اور اس کے علاوہ ''زکوٰۃ'' کی وصولی (اگر رضا کارانہ طور پر ادا نہ کی گئی ہو تو)۔ ریاست کو ''تجارتی معیشت'' کے ذریعے منافع پر مختلف نوعیت کے ٹیکسوں کی آمدنی بھی ہوتی تھی۔ معاشیات کے بارے میں تحریر کرنے والوں میں امام ابو یوسف کی کتاب الخراج معروف ہے۔ مگر ابن خلدون، البیرونی، ابن تیمیہ، ناصر طوسی، ابن مسکویہ اور اخوان الصفا نے بھی اپنی کتاب میں ایسے مسائل پر بحث کی ہے۔

جہاں تک انسان کے بنیادی حقوق کا تعلق ہے، قرآن کی سورۃ طہٰ آیات 119,118 میں اللہ تعالیٰ آدم سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: اے آدم، تمہارے لیے یہاں انتظام ہے۔ نہ بھوکے ننگے رہو گے، نہ گرمی تمہیں ستائے گی۔''

ان آیات کے ساتھ اگر ترمذی کی بیان کردہ حدیث پڑھی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد کیا: آدم کے بیٹے کے تین حقوق ہیں، رہنے کو مکان، ننگا پن چھپانے کو کپڑا اور کھانے پینے کو روٹی اور پانی۔'' تو اسلامی فلاحی ریاست کے ارباب بست و کشاد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر شہری کو یہ سہولتیں فراہم کریں اور اب تو ان میں دو مزید حقوق یعنی بلا معاوضہ تعلیم اور مفت طبی امداد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا مناسب ہے کہ علامہ اقبال خاندانی منصوبہ بندی کے اس طرح قائل تھے کہ اگر بیوی اولاد پیدا نہ کرنا چاہے تو خاوند اسے مجبور نہیں کرسکتا۔

علامہ اقبال جب قائداعظم کو اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ اسلامی قانون کے طویل مطالعے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کی ''جدید نظریات'' کی روشنی میں ارتقا کے ذریعے قابل قبول ''سوشل ڈیما کریسی'' قائم کی جاسکتی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے وہ اپنے اس دعویٰ کی بنیاد کن قرآنی آیات پر استوار کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے انہوں نے فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کی بنیاد سورۃ البقر آیت 219 اور سورۃ الذاریات آیت 19 پر رکھی ہو۔ سورۃ البقرہ آیت 219 میں حکم ہے: ''پوچھتے ہیں اللہ کی راہ میں کیا خرچ کیا جائے؟ قل العفو (کہو جو ضرورت سے زائد ہے)!!'' اس ضمن میں علامہ اقبال کے اشعار قابل غور ہیں:

قرآں میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
جو حرف ''قل العفو'' میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

''قل العفو'' کے بارے میں ''تقلیدی'' سوچ تو یہی ہے کہ انسان رضا کارانہ طور پر جو اپنی ضرورت سے زائد یا فالتو سمجھے خدا کی راہ میں دے دے۔ مگر ''جدت کردار'' سے علامہ اقبال کی کیا مراد ہے؟ کیا یہ طے کرنے کے لیے ضرورت سے زائد فالتو کیا ہے، ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ سورۃ الذاریات آیت 19 میں ارشاد ہوتا ہے ''دولت مندوں کے مال میں ناداروں اور محروموں کا حصہ ہے۔'' کیا علامہ اقبال کے نزدیک اس حصے کا تعین کرنے کی خاطر بھی ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ علامہ اقبال کے ارشادات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کے قرآنی تصور اور دولت مندوں کی ذمہ داری سے متعلق قرآنی احکام کے تحت ''روحانی'' بنیادوں پر قائم ''سوشل ڈیما کریسی'' یا ''اسلامی فلاحی ریاست'' وجود میں لائی جاسکتی ہے۔

بہرحال خصوصی طور پر ''اجتہاد کی تاریخ و ارتقا'' اور ''فلاحی ریاست کا قرآنی تصور'' کے موضوعات پر کتب تحریر کرنا ایسے کام تھے جو علامہ اقبال تو ادھورے چھوڑ گئے مگر علامہ اقبال کے نام پر قائم سرکاری یا غیر سرکاری ادارے انجام دے سکتے ہیں۔ یہی امید ہمیں اس ادارے سے رکھنی چاہیے جو میاں اقبال صلاح الدین اور ان کے رفقاء نے علامہ اقبال کے نام پر قائم کیا ہے۔

شاید ''اجتہاد کی تاریخ و ارتقا'' پر کوئی مستند کتاب تحریر کرنے کی خاطر علماء و فقہاء کا بورڈ قائم کرنے کی ضرورت پڑے۔ اسی طرح ''فلاحی ریاست کا قرآنی تصور'' کے موضوع پر کچھ تحریر کرنے کی خاطر ماہرین اقتصادیات کی خدمت حاصل کرنی پڑیں۔ علامہ اقبال احیائے اسلام کے شاعر ہیں۔ انہوں نے فرما رکھا ہے کہ وہ ''حرف آخر'' نہیں۔ اگر ان کا شروع کردہ عمل احیا واقعی جاری ہے تو بقول ان کے، ان کے پیش کردہ نظریات سے بہتر نظریات سامنے آسکتے ہیں۔ ضرورت صرف ان کے اس شعر کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے:

ہر کہ او را قوت تخلیق نیست
پیش ماجز کافر و زندیق نیست

اقبال کے بارے میں چند باتیں بیٹی منیرہ اقبال کی زبانی

''جب میں نے ہوش سنبھالا تو ابا جی کو صاحب فراش ہی پایا۔ وہ سارا دن اپنی چارپائی پر نیم دراز رہتے۔ ان کا گلا بیٹھا ہوا تھا۔ جب ان کے پاس کوئی نہ ہوتا تو میں ان کے کمرے میں چلی جایا کرتی اور گھنٹوں ان سے باتیں کرتی رہتی۔ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ فطرتاً نہایت متین اور سنجیدہ سے تھے لیکن وہ جتنا میری باتوں پر ہنستے شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے انہیں اپنے سامنے ہمیشہ خوش و خرم ہی پایا۔ بہت سارے لوگ انہیں ملنے آتے۔ ایسے موقعے کم ملتے تھے جب میں انہیں تنہا پاتی۔ پھر بھی کبھی آپ مجھے بلاتے تو میں ہر کام چھوڑ کر بھاگتی ہوئی ان تک پہنچ جاتی۔ ایک دن میں گھر کے برآمدے میں کھیل رہی تھی کہ علی بخش میرے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ کو ابا جی بلا رہے ہیں۔ میں بھاگتی ہوئی ان کے پاس گئی تو وہ ڈرائنگ روم میں کھڑے تھے اور ساتھ صوفہ پر کسی خاتون کی بڑی سی تصویر پڑی تھی۔ تصویر مجھے دکھاتے ہوئے انہوں نے پوچھا:

''آپ کو معلوم ہے یہ کون ہیں؟'' میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ فرمایا ''یہ آپ کی ماں ہیں'' پھر میری والدہ کے متعلق مجھے کچھ بتایا جو اب مجھے یاد نہیں۔'' (والدہ کی رحلت کے بعد والد نے ان کی ایک بڑی تصویر بنوا کر انگیٹھی پر سجادی تھی تاکہ بچوں کو ماں کی یاد آئے تو تصویر دیکھ لیا کریں)۔

''ایک دفعہ بھائی جاوید بیمار تھے۔ میں نے غالباً کوئی شرارت کی اور انہوں نے مجھے تھپڑ دے مارا۔ میں روتی بلکتی ابا جی کے کمرے میں جاپہنچی کہ بھائی جاوید نے مجھے مارا ہے۔ وہ میرے رونے کی آواز برداشت نہ کرسکتے تھے۔ چند لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے لیکن سخت غصہ کے عالم میں وہ فوراً بستر سے اٹھے اور میری انگلی پکڑے اندر داخل ہوئے۔ بھائی جاوید بخار کے سبب بستر پر دراز تھے لیکن ابا جی نے بغیر پرواہ کیے انہیں خوب ڈانٹا۔ ہماری آپس میں صلح بھی جلدی ہوجایا کرتی اور اگر وہ دونوں کو ہنستے کھیلتے دیکھتے تو بہت خوش ہوا کرتے۔



بعض اوقات ابا جی اپنا ایک بازو میرے کندھے پر اوردوسرا جاوید بھائی کے کندھے پر رکھے گھر کے باغیچہ میں سیر بھی کرتے۔ مجھے اکثر کہا کرتے ''تمہارا ایک ہی بھائی ہے وہ تم سے پیار نہ بھی کرے تو تم اسے پیار کرتی رہنا۔ اس سے کبھی نہ چوکنا'' اور یہ کہتے وقت ان کی آواز بھرا جایا کرتی۔ بعض اوقات شب کو اکیلے ہوتے تو ان کے ساتھ بستر میں گھس جاتی اور کوئی کہانی سنانے کا مطالبہ کرتی۔ عجیب و غریب کہانیاں سناتے۔ میں سوجایا کرتی تو علی بخش مجھے اٹھا کر اپنے بستر پر پہنچا دیا کرتے۔ سکول جاتے وقت اور واپس آتے وقت ابا جی کے کمرے سے ہوکر آیا کرتی اور وہ میری پیشانی چوما کرتے تھے۔''

''ابا جی کی نظم ''چین و عرب ہمارا'' مجھے زبانی یاد تھی اور کبھی کبھار ان کے کہنے پر انہیں گا کر کر بھی سناتی۔ ایک روز انہوں نے میری شرارتوں پر اسی بحر میں ایک مصرع بھی کہا جس کے آخری حروف ''پانداں ہمارا'' تھے۔ مگر مجھے اب وہ مصرع یاد نہیں۔ انہیں ملنے والوں میں ایک صاحب انہی کی غزلیں انہیں گا کر سنایا کرتے۔ ابا جی کو ''دیس'' راگنی بے حد پسند تھی۔ اکثر وہی سناکرتے۔ مجھے مصور بننے کو کہتے لیکن مجھے آرٹ سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔

ایک حجازی عرب بھی قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے اور آپ انہیں سنتے وقت زار و قطار رویا کرتے۔ انہیں یوں روتے دیکھ کر میں خود بھی رونے لگتی۔ ابا جی کبھی بھی باہر جاتے، میں ان کے ساتھ جایا کرتی تھی۔ مجھے موٹر پر ان کے ساتھ نہر پر جانا اور وہاں ہم دونوں کے ہاتھ میں ہاتھ پکڑے سیر کرنا یاد ہے۔ ابا جی میرے ساتھ ہونے پر بہت خوش ہوا کرتے۔ گھر میں ہر کوئی مجھے ''بانو'' کہہ کر بلاتا لیکن ابا جی مجھے ''ببّی'' اور میں ''ببّی'' کہلائے جانے پر سخت چڑا کرتی۔ اسی طرح ابا جی میرا نام ''منیرا'' لکھتے حالانکہ مجھے اپنا نام ''منیرہ'' لکھنا پسند تھا۔''

''ابا جی کو آم کھانے کا بے حد شوق تھا۔ لوگ انہیں ہندوستان کے مختلف شہروں سے آموں کے ٹوکرے بھیجا کرتے۔ جب بھی کوئی ٹوکرہ آتا تو میں علی بخش کو باہر ہی سے پکڑلیا کرتی کہ کیا ہے؟ وہ کہہ دیتا کہ سبزی ہے، مگر مجھے شک رہتا۔ میں سیدھی ابا جی کے کمرے میں آتی اور وہ مجھے دیکھتے ہی ہنسنے لگتے۔ جیسے انہیں آم کھانے کا شوق تھا ویسے ہی میں بھی بغیر آموں کے نہیں رہ سکتی تھی۔ بس ہم دونوں باہم بیٹھ جاتے اور آم کھانے کا مقابلہ ہوجاتا۔ میں اکثر زیادہ آم کھا جاتی۔ آپ مجھے روکتے بھی نہ تھے کہیں ناراض ہوکر رونے نہ لگوں۔ بہرحال صورت کوئی شے کھانے کی ہو تو مجھے پہلے بلایا جاتا۔''

''ایک شب برات بھائی جاوید نے ابا جی کو آتش بازی منگوا دینے کے لیے کہا لیکن انہیں اجازت نہ ملی۔ وہ ناراض اور چپ، میرے قریب آکر بیٹھ گئے۔ مجھے ان پر بڑا ترس آیا لیکن ابا جی ایک بار انکار کردیں تو انہیں منانا کوئی آسان بات نہ ہوتی تھی۔ خیر میں نے جرأت کی اور ابا جی کے کمرے میں میں جاکر خاموش بیٹھ گئی۔ وہ اِدھر اُدھر کی باتیں پوچھتے رہے۔ میں جواب نہ دیتی تھی۔ پوچھنے لگے: ''کیا بات ہے؟ چپ کیوں ہو؟'' میں نے سوچا کہہ دوں کہ امّاں جی یاد آرہی ہیں۔

سو میں نے تو کہہ دیا لیکن تب ان کی حالت بہت خراب ہوگئی۔ انہیں یوں دیکھ کر مجھے سچ مچ امّاں جی یاد آگئیں اور میں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔ وہ مجھے سینہ سے لگائے بیٹھے پیار دلاسے کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اچانک بولے ''بھئی آج تو شب برات ہے، تم نے آتش بازی نہیں منگوانی؟'' میں خاموش رہی۔ پھر فوراً علی بخش کو حکم دیا۔ میری بیٹی کے لیے آتش بازی لائی جائے۔ میں خوش ہوگئی۔ آتش بازی آئی۔

ہم سب باہر دالان میں تھے۔ ابا جی بھی باہر آگئے۔ بھائی جاوید کو صرف پٹاخوں کا خبط تھا اور ابا جی پٹاخوں سے بہت ناراض ہوتے تھے۔ انہیں مہتابی، انار یا پھلجھڑیاں پسند تھیں۔ سو بھائی جاوید تو اپنے مطلب کا سامان لے کر کوٹھی سے باہر نکل گئے لیکن ابا جی نے آرام کرسی باہر بچھوالی اور میرے قریب بیٹھ گئے۔ مجھے پھلجھڑیاں سلگا سلگا کر دیتے اور میں ان سے رنگ نکلتے دیکھ کر بے حد خوش ہوتی۔ ابا جی انار چلاتے اور میرے چہرے کو عجیب نگاہوں سے دیکھتے کہ ماں کو واقعی بھول گئی ہے یا نہیں۔ میں ماں کو کب کی بھول چکی تھی۔ رات گئے تک ابا جی میرے ساتھ آتش بازی چلاتے رہے۔ انہیں آگ کے کھیلوں سے نفرت تھی لیکن میری خاطر وہ اپنے ہاتھ سے اناروں کو تیلی لگاتے اور مجھے ہنستا دیکھ کر خوش ہوتے۔''

''بھائی جاوید کو سینما دیکھنے کی ممانعت تھی لیکن کبھی میں ابا جی سے کہتی کہ میں نے جانا ہے تو مجھے نہ روکتے۔ مجھے ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں جب میری کہی ہوئی بات یا فرمائش ٹالی گئی ہو۔ جو کہتی خرید دیا جاتا، جو چاہتی پہنتی، جو چاہتی کھاتی، جہاں چاہتی جاتی۔ اصل میں میری کوئی بھی فرمائش ٹھکرانے کی ابا جی کو جرأت ہی نہ تھی۔ وہ ڈرا کرتے کہیں میں ماں کو یاد نہ کرنے لگوں۔ حالانکہ جسے دیکھ سکنا یاد نہ ہو اسے یاد کیسے کیا جاسکتا ہے۔ کہا کرتے ''جس دن ببّی نے قرآن ختم کرلیا جو مانگے گی اسے دوں گا۔'' لیکن ان کی زندگی میں مَیں قرآن ختم نہ کرسکی۔''

نوٹ: منیرہ اقبال نے اپنے والد سے متعلق ان یادوں کو اپنے بھائی ڈاکٹرجاوید اقبال کو دیے گئے انٹرویو میں بیان کیا، جنھیں وہ اپنی آپ بیتی ''اپنا گریباں چاک'' کے نئے اڈیشن میں جگہ دیں گے، اس سے قبل مگر یہ یادداشتیں''الحمرا''میں حال ہی میں شائع ہوئی ہیں، جن میں سے چند اقتباسات ہم شائع کررہے ہیں۔
Load Next Story