بُک شیلف

چودہ افسانوں پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب شہزاد اختر کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے۔

فوٹو : فائل

تجلیاتِ نظر
شاعر: سید احمد مرتضیٰ نظر

مرتبین: سید امین الرحمٰن حسنی، سید افتخارالحسن
زیراہتمام: دنیائے ادب، کراچی

صفحات:172
قیمت:500روپے

''تجلیات ِنظر'' قادر الکلام شاعر اور ممتاز محقق سیداحمد مرتضیٰ حسنی نظر کا نایاب دیوان ہے۔ مرتضی حسنی نظر کا تعلق سیداحمد شہید بریلوی کے خانوادے سے ہے۔ یہ خانوادہ بالاکوٹ سے ہجرت کرکے ریاست ِٹونک میں نواب ابراہیم علی خان کے دربار سے وابستہ ہوگیا تھا۔ اسی دوران مرتضی حسنی نظر صاحب نے آثار ِمالوہ، صولت ِ شیر شاہی اور تاریخ ِقطب جیسی معرکہ آرا تحقیقی کتب تحریر کیں، لیکن 1942ء میں 63کی عمر میں جہان ِفانی سے کوچ کرنے والے اس ممتاز محقق اور معروف شاعر کے منتخب مضامین ''مضامین ِنظر اور دیوان ''تجلیات ِنظر'' غیرمطبوعہ ہی رہے۔

اب مرتضی حسنی نظر کے صاحب زادے سید امین الرحمن حسنی اور ان کے نواسے سید افتخار الحسن نے اس غیر مطبوعہ دیوان کو زیور ِطباعت سے آراستہ کرادیا ہے اور اس طرح ایک نایاب دیوان ضائع ہونے سے بچ گیا۔ شاعری کے مجموعے یوں تو بہت شائع ہوتے ہیں، تاہم ایسے سنجیدہ اور قادرالکلام شاعر کے دیوان کی اشاعت یقیناً خوش آیند ہے، جو اپنے کلام میں تصوف، تغزل اور نغمگی کی گہری چاشنی کے ساتھ زبان وبیان کا لطف بھی رکھتا ہو۔

اس کے ساتھ مشرقی روایات کے شعور سے پوری طرح آگاہ ہونے اور بدلتے ہوئی ہوائوں کا ادراک رکھنے کے باعث مرتضی حسنی نظر صاحب کی غزلوں میں ایک نوع کی تازگی، شگفتگی، وارفتگی اور شائستگی کی فضا اپنے تخلیقی ادب و آداب کے ساتھ پورے دیوان میں بکھری ہوئی ہے ۔ اسی لیے یہ غزلیں بوسیدہ ہیں اور نہ گزرے ہوئے مہ و سال کی گرد انہیں چھو پائی ہے۔ یہ غزلیں عشق کی روایت کے سائے میں ذات کے نہاں خانوں سے ہوتی ہوئی، کبھی فطرت سے ہم کلام ہوتی ہیں اور کبھی کائنات کے سربستہ رازوں کی جانب محوِ خرام ہوجاتی ہیں۔

مطلع، حُسنِ مطلع اور مقطع کے بھرپور معنوی برتائو کے ساتھ غزلوں کی طوالت مرتضی حسنی نظر صاحب کی تخلیقی استقامت، توانا مشق اور ان کی قادرالکلامی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ان غزلوں میں موجود تہذیبی فضا اور استادانہ رکھ رکھائو بتاتا ہے کہ مر تضی نظر صاحب نے اپنا کلام روا روی میں تحریر نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اپنے ہم عصر ادبی منظر نامے کو بڑے قریب سے دیکھا، سمجھا اور پھر اپنی تخلیقی شخصیت کو پہلے طویل فنی ریاضت سے چمکایا، اس کے بعد یہ تمام غزلیں یک جا کیں۔ اسی سبب سے نظر صاحب کی غزلوں میں رنگ، رس اور زندگی پائی جاتی ہے۔

''دنیائے ادب'' کے مدیر اوج ِکمال نے اس دیوان کی اشاعت میں خصوصی دل چسپی لی اور خوش قسمتی سے اس نادر دیوان کو عہد ِحاضر کی بلند قامت ادبی شخصیت اور کہنہ مشق شاعر حمایت علی شاعر کی رفاقت بھی میسر آگئی۔ یوں مرتضی حسنی نظر صاحب کا دیوان ''تجلیات ِنظر'' ایک منفرد دیوان کے روپ میں اہل ِعلم و ادب کے ہاتھوں تک پہنچ سکا۔ 172صفحات پر مشتمل دیوان کی ابتدا حمد ِباری تعالی اور چند خوب صورت نعتوں سے ہوتی ہے۔

دیوان میں مرتضی حسنی نظر صاحب کے ہاتھوں سے لکھا ہوا خصوصی مضمون بھی موجود ہے، جو اُن کے حالات ِزندگی اور فکر و فن کے حوالے سے بڑا اہم ہے۔ اس کے علاوہ دیوان میں نظر صاحب کے صاحب زادے امین الرحمن حسنی اور نواسے سید افتخار الحسن کے مختصر تعارفی مضامین بھی موجود ہیں۔ دیوان عام کتابی سائز سے بڑے سائز میں قرینے کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
(تبصرہ نگار: خ ۔ م)

دیوانے کا خواب (افسانے)
مصنف: شہزاد اختر

ناشر: زین پبلی کیشنز، کراچی
قیمت: 350

صفحات:200

چودہ افسانوں پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب شہزاد اختر کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ کتاب میں ''عرض ناشر'' کے عنوان سے احمد زین الدین کا مضمون شامل ہے۔ عبداﷲ جاوید نے اپنے طویل مضمون میں بنگال میں اردو کے سفر اور افسانہ نگار کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے اُن کے کرافٹنگ کے فن پر گرفت کا ذکر کیا ہے۔ ''بھولے دن بسری راتیں'' کے زیر عنوان، کتاب کے آخری حصے میں شہزاد اختر کی یادداشتوں پر مشتمل مضمون شامل ہے۔

شہزاد اختر کا اصل نام ابوالفصل انوار ہے۔ فنی محاسن پر بات کی جائے، تو بیانیے پر گرفت اور اظہار کی روانی اُن کی تخلیقات کا خاصہ ہے۔ افسانوں پر حقیقت نگاری کا رنگ غالب ہے، جن میں سے کہیں کہیں سفاکیت بھی جھلکتی ہے۔ اسلوب خارجی ہے۔ منظرنگاری جان دار ہے۔ کہانی کے بارے میں اُن کا نقطۂ نظر قدیم روایات سے مماثلت رکھتا ہے۔

عبداﷲ جاوید کے مطابق اُن کے افسانے ماسوائے ریئل ازم کے، ہر قسم کے ازم سے پاک نظر آتا ہے۔ البتہ چند افسانے نسائیت کا رنگ بھی لیے ہوئے ہیں۔ صفحات کی تعداد دیکھتے ہوئے قیمت کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔
(تبصرہ نگار : محمد اختر)

تیمور لنگ لرزندۂ جہاں
مصنف: الیاس سیتا پوری

ناشر: بشام پبلشرز، C-107، رحمٰن اسکوائر، 13-D، گلشن اقبال، کراچی
صفحات: 261

قیمت:300 روپے
تاریخ کا ادنیٰ طالب علم اور معمولی ذوق و شوق رکھنے والے بھی امیر تیمور کے نام سے واقف ہیں، جسے دنیا تیمور لنگ بھی کہتی ہے۔ ترک قبیلے برلاس سے تعلق رکھنے والا تیموریہ سلطنت کا یہ بانی 1335میں پیدا ہوا۔ تیمور کا شمار تاریخ کے تین بڑے سپہ سالاروں میں کیا جاتا ہے، جس نے سمرقند کو اپنا پایۂ تخت بناتے ہوئے اپنی فتوحات کا دائرہ وسط ایشیا اور ایران تک پھیلا دیا تھا۔

پیشِ نظر تاریخی ناول تیمور کے دور حکومت اور کارناموں کی منظر کشی کرتا ہے۔ اس کے مصنف الیاس سیتا پوری (مرحوم) ہیں جو اردو ادب میں تاریخی ناول نگار کے طور پر شناخت رکھتے ہیں اور ان کے ناول قارئین میں مقبول رہے ہیں۔ ان کا طرزِ تحریر قاری کو واقعات کا شاہد بنا دیتا ہے اور اس ناول کی خوبی بھی یہی ہے کہ پڑھنے والا ان کے بیانیہ انداز سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تاریخ کے کرداروں کو اپنی نظروں کے سامنے پائے گا۔

نجات
مصنف: قیصر سلیم

ناشر: میڈیا گرافکس، A-997 ، سیکٹر11-A، نارتھ کراچی، 75850

صفحات:176،قیمت:200

قیصر سلیم کا قلمی سفر کئی برسوں پر محیط ہے۔ ادیب و مترجم کی حیثیت سے ان کی متعدد کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ ان میں افسانوں کے مجموعے، سفر نامے، مختلف تراجم، کالم اور مضامین کے علاوہ ناول شامل ہیں۔ مصنف ایک واضح نظریے اور فکر کے حامل ہیں جس کا اظہار ان کی تخلیقات اور تراجم کے لیے انتخاب کی جانے والی کتب سے بھی ہوتا ہے۔

'نجات' ان کا نیا ناول ہے جو عالمی حالات و واقعات کے پس منظر میں بیانیہ انداز میں لکھا گیا ہے جسے پڑھ کر قارئین کو آج کے دور میں بین الاقوامی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف رچی جانے والی سازشوں کے بارے میں جان سکیں گے۔

گوریلا جنگ
مؤلف: سلام صابر

ناشر: نام درج نہیں
صفحات: 160

قیمت:200 روپے
دنیا پر جنگ و جدل کے ذریعے اپنی برتری کا اظہار کرنے والے ملکوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ مضبوط روایتی فوج اور بے پناہ عسکری طاقت کا گھمنڈ انھیں اپنے سے کم زور خطوں میں عوام بسنے والوں پر لشکر کشی پر ابھارتا رہا اور ان کی مہم جوئی نے لاکھوں معصوم انسانوں کی زندگی کے چراغ بجھا دیے اور ان کے گھر بار سب کچھ برباد کر دیا۔

یہ کتاب کم زوروں سے اپنی حاکمیت جتانے کے لیے فوجی طاقت کا بے دریغ اور سفاکانہ استعمال کرنے والے ملکوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والی گوریلا یا چھاپا مار جنگ سے متعلق ہے۔ یہ سلام صابر کی تالیف ہے، جس میں انھوں نے اس جنگ کا تعارف اور لڑی جانے والی مختلف گوریلا جنگوں اور آخر میں اس کے اصول اختصار کے ساتھ شامل کیے ہیں۔ یہ کتاب اس موضوع میں دل چسپی رکھنے والوں کی معلومات میں اضافے باعث بنے گی۔
(تبصرہ نگار: عارف عزیز)

بِہار دانش
تحقیق و تدوین: قیصر سلیم

ناشر: میڈیا گرافکس، اے997، سیکٹر 11 ۔اے، کراچی
صفحات: 360

قیمت:400 روپے
یہ کتاب ان مذہبی، روحانی، علمی اور ادبی شخصیات کے تعارف اور کارناموں پر اختصار کے ساتھ لکھی گئی ہے جو ہندوستان کی ریاست بہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیصر سلیم نے اس کتاب کے متن سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے اس کتاب کو برصغیر کی آزادی تک بہار میں پیدا ہونے والی شخصیات کے تذکروں تک محدود رکھا ہے اور اس میں علم وفضل اور حکمت و دانش کی بنیاد پر نمایاں مقام رکھنے والی شخصیات کا ذکر ہے۔

اجرا (ادبی جریدہ)

مدیر: احسن سلیم
صفحات: 576،قیمت: 400

''کیا ہمارے دانش وَر رائے قائم کرتے وقت دیانت دارانہ سوچ، علم اور مشاہدے کو بروئے کار لاتے ہیں؟'' یہ سوال ''اجرا'' کے سرپرست، شاہین نیازی نے دسویں شمارے میں شامل اپنے مضمون ''گفت گو'' میں اٹھایا ہے۔ اداریے کا آغاز غفلت سے آلودہ اُس نیند کے لبادے سے ہوتا ہے، جس کی سلوٹوں میں قوموں کی بقائے باہمی کا خواب گُم ہوتا جارہا ہے۔ مدیر نے پاکستانی ادیبوں اور شعرا کی سوچ اور خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے اُن کی ذمے داریوں کی منظرکشی کی ہے، اور مفلوک الحالی کے ویرانے میں ادبیوں، شاعروں اور فن کاروں کی آگے آنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اِسے ''اجرا'' کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار دیا ہے۔

اجرا نے ''ادب برائے تبدیلی'' کے نعرے کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ماضی میں اِس تحریک کے امکانات اور ضرورت پر مضامین لکھے گئے، اِس بار بھی قاضی اختر جونا گڑھی کا مضمون شامل ہے۔ دسویں شمارے کی اشاعت کے بعد قارئین اِس کی بات ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ تحریک کے خدوخال واضح کیے جائیں، منشور شایع کیا جائے، اور مباحث سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے عملی اقدامات پر روشنی ڈالی جائے۔

پرچے کے مندرجات پر نظر دوڑائیں، تو نظموں پر مشتمل سلسلے ''فلک آثار'' میں پاکستان اور بیرون ملک بسنے والے سنیئر اور نئے شعرا کا کلام موجود ہے۔ بین الاقوامی اور علاقائی ادب کے تراجم پر مشتمل ''مشرق و مغرب'' کا آغاز افغانی شاعرہ زہرہ سعید کی نظمیں سے ہوتا ہے، ترجمہ کشور ناہید نے کیا ہے۔ کورین شاعر، چانگ سوکو کے کلام کو شاہین مفتی نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ڈاکٹر محمد حنیف نے نوبیل انعام یافتہ جرمن ادیب، گنترگراس کی احتجاجی نظم کا ترجمہ کیا ہے۔ سرائیکی اور بلوچی افسانوں کے تراجم کی اشاعت خوش آیند ہے۔

سلسلے ''نافۂ نایاب'' میں دیگر نگارشات کے علاوہ مایۂ ناز غزل گائیک مہدی حسن کی بابت چار مضامین موجود ہیں۔ سلسلہ ''سخن سخن'' میں 57 غزلیں شامل ہیں۔ ''داستان سرائے'' میں 24 افسانے ہیں، جن میں جھاڑ کھنڈ، انڈیا سے تعلق رکھنے والے قاسم خورشید کے پانچ افسانے، ادارتی نوٹ کے ساتھ شامل ہیں۔ رضیہ فصیح احمد کا افسانہ ''مرمت کہاں سے شروع کی جائے'' خاصے کی چیز ہے۔ ''خرد افروزیاں'' میں انورسدید کا افتحار نسیم کی بابت مضمون اہمیت کا حامل ہے۔

''اجرا'' میں شایع ہونے والی تخلیقات اور تراجم کے روزن سے فکر و ادب کی دنیا میں ہونے والی سرگرمی کا جو منظر دکھائی دیتا ہے، اُس سے ''ادب برائے تبدیلی'' کا جواز تو واضح ہوتا ہے، لیکن مدیر، احسن سلیم اور اُن کے رفقا جس طرز احساس کو اہل قلم تک منتقل کرنا چاہتے ہیں، اُس کے خدوخال پر مزید بات ہونے کی ضرورت ہے۔

مجموعی طور پر زیرتبصرہ شمارے میں سنجیدہ موضوعات پر نئے اور پرانے لکھاریوں کے قابل مطالعہ مضامین شامل ہیں۔ البتہ ''پروف ریڈنگ'' پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے سنجیدہ جراید کے فروغ کے لیے لکھنے اور پڑھنے والوں کی خاص توجہ درکار ہوتی ہے، تاکہ ''احساسِ زیاں'' کی زائل ہوتی متاع کو جمع رکھنے کی یہ کوشش کام یاب ٹھہرے۔

خوشیوں بھرے غبارے
ناشر: الٰہی پبلی کیشنز، کراچی

مصنف: دعا زہرا
صفحات: 200،قیمت:82

پاکستان چلڈرن رائٹرز گائیڈ کے زیر اہتمام شایع ہونے والی یہ کتاب چہارم جماعت کی طالبہ، دعا زہرا کی بیس کہانیوں پر مشتمل ہے۔ ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولنے والی اس ننھی کہانی کار کی پہلی تخلیق عالمی اخبار میں شایع ہوئی، جس کے مثبت ردعمل نے انھیں مزید لکھنے کی تحریک دی۔ اس ضمن میں ان کے والد، سید صفدر رضا رضوی کی حوصلہ افزائی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ کتاب کے ابتدائی حصے میں دعا زہرا کے والد کے علاوہ پاکستان اور بیرون ملک مقیم کئی ادیبوں اور کالم نگاروں کی رائے موجود ہے۔

چار رنگین صفحات پر مصنفہ کی اپنے اہل خانہ کے ساتھ تصاویر ہیں۔ کتاب میں شامل کہانیاں مثلاً ''میری پہلی نماز''، ''میرا اسکول''، ''میں اور تتلی''، ''آئی لو یو پاپا'' دعا کے تجربات، مشاہدات اور تاثرات پر مبنی ہیں۔ ہر کہانی کے ساتھ اسکیچ دیا ہوا ہے۔ کتاب بڑے سائز میں ہے۔ طباعت معیاری ہے۔ سرورق بچوں کے مزاج کے مطابق ہے۔
(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)
Load Next Story