اک اور دریا کا سامنا تھا…

داعش کے خطرے کے پیش نظر ایران نے کرد فورسز کی ہتھیاروں سے مدد کی اور ملٹری ایڈوائزر بھی بھیجے۔


Zamrad Naqvi November 10, 2014
www.facebook./shah Naqvi

ISLAMABAD: عراق کے نو منتخب وزیر اعظم حیدر العبادی نے گزشتہ ماہ کے آخر میں ایران کا دورہ کیا جہاں وہ ایرانی صدر حسن روحانی اور نائب صدر اسحاق جہانگیری سے ملے۔ اپنے دورے میں انھوں نے کہا کہ ان کا ملک دہشت گردوں کے ساتھ جنگ کر رہا ہے جن کی وجہ سے پورے خطے کو خطرہ ہے اور یہ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کر کے آپس میں لڑا دیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ عراق صرف دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑ رہا بلکہ یہ ایک توسیع شدہ جنگ ہے جو داعش، القاعدہ اور اس کی ذیلی تنظیم النصرت فرنٹ کی طرف سے مسلط کی گئی ہے۔ تہران کے دورے سے پہلے عبادی نے غیر ملکی مداخلت کو خارج از امکان قرار دیا اور اس بات کو واضح کر دیا کہ عراق میں کسی بھی علاقائی طاقت کو جنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ واضح رہے کہ داعش کے خطرے کے پیش نظر ایران نے کرد فورسز کی ہتھیاروں سے مدد کی اور ملٹری ایڈوائزر بھی بھیجے۔

نئے عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے نوری المالکی کی جگہ سنبھالی ہے جو عراقی عوام کا اعتماد کھو چکے تھے۔ نوری المالکی عراق میں مختلف گروہوں کے درمیان توازن قائم نہ رکھ سکے۔ یوں وہ ایرانی حمایت سے محروم ہو گئے اور اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب عبادی صورتحال بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال عراق کی المناک صورت حال کے پس منظر میں یہ خوش آیند ہے کہ ایک طویل انتظار اور جاں گسل جدوجہد کے بعد وہاں ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں آ گیا ہے جو عراق و بیرون عراق تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہو سکتی ہے۔

اس ملاقات سے پہلے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر حسین روحانی نے الزام لگایا کہ مشرق وسطیٰ میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے لیے مغرب اور عرب حکومتوں نے انتہا پسندی کے بیج بوئے جس کے نتیجے میں داعش اور دیگر تنظیمیں طاقتور ہوئیں۔ صدر روحانی نے کہا کہ جنہوں نے ان دہشت گرد گروہوں کی بنیاد رکھی اور مدد کی انھیں لازمی طور پر اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگنی چاہیے۔ ایرانی لیڈر نے اس بات سے انکار کیا کہ ایران خلیج میں واقع ملکوں پر اپنا کنٹرول چاہتا ہے۔

روحانی نے اس پروپیگنڈے کو ایران مخالف دشمنوں کا ''ایران فوبیا'' قرار دیا کہ خطے اور دنیا کی دوسری قوموں میں ایران کے خلاف نفرت پیدا کی جا سکے۔تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ امریکا کی قیادت میں 60 سے زائد ممالک داعش کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ داعش مخالف اتحاد کے قیام میں سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی بادشاہتیں پیش پیش ہیں۔ یہ وہ حکومتیں ہیں جنہوں نے شام میں بشارالاسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ان گروہوں کو ہر طرح کی امداد دی۔

ایک ارب ڈالر کی امداد کی رقم، جس میں نصف امریکا کے ہیں، شام کے باغی گروہوں کو دی جا چکی ہے۔ جس کے نتیجے میں جِن بوتل سے اس طرح نکلا کہ پورے خطے کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ مفتی اعظم سعودی عرب داعش کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فتویٰ دے چکے ہیں۔ اس صورتحال میں دنیا کے 120 اسلامی اسکالرز نے جن میں بیشتر اپنے ملکوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں نے ایک کھلا خط جاری کیا ہے جس میں داعش کی انتہا پسندی کی مذمت اور ان کے مذہبی دعوئوں کو مسترد کیا ہے۔ اس خط پر 126 افراد کے دستخط ہیں جن کا تعلق انڈونیشیا سے مراکش تک کے ملکوں سے ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ داعش کے خطرے نے امریکا اور خلیج کی بادشاہتوں کو ایران سے مدد مانگے پر مجبور کر دیا ہے تو دوسری طرف اس کے سربراہ البغدادی نے روم اٹلی اسپین فتح کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن اسرائیل جو ان کے پڑوس میں ہے اسے تسخیر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ چند ماہ پیشتر جب اسرائیل مسلسل فلسطینیوں پر بم باری کر رہا تھا یہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ اس راز کو فاش ایڈورڈ سنوڈن نے امریکی پوشیدہ دستاویزات کے ذریعے کیا ہے۔ سنوڈن امریکی راز فاش کرنے کے جرم میں امریکا کو مطلوب اور روس میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہے۔ اس تمام صورت حال کے پاکستان جیسے ملک پر بھی اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں۔ جہاں دہشت گرد بہت مضبوط ہیں۔

خطے میں ہونے والی اچانک تیز رفتار تبدیلیوں نے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کے مقام پر لا کھڑا کر دیا ہے... اللہ خیر کرے... ایک فرنٹ لائن افغانستان میں کے نام پر کھلی تھی اس کو اب تک بھگت رہے ہیں... اب دوسری کا سامنا ہے... ایک آگ و خون کا سمندر ابھی عبور ہی کر رہے تھے کہ دوسرا سمندر داعش کے نام پر سامنے آ گیا۔ آرمی چیف کا مجوزہ طویل دورہ امریکا سامنے ہے۔ واہگہ پر خودکش حملہ جو قبل از وقت صحیح ترین اطلاعات کے باوجود روکا نہ جا سکا۔۔۔ اس پر سونے پر سہاگہ امریکی وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ داعش کے خطرے سے نمٹنے میں مزید تیس سال لگ جائیں گے۔ اس پر ایران کا احتجاج کہ یہ امریکا کا خلیج میں موجودگی برقرار رکھنے کا بہانہ ہے۔

... داعش اور اس کے سربراہ کے لیے جنوری سے اپریل مئی 2015ء تباہ کن ہو سکتا ہے۔

سیل فون نمبر:0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں