کینگروز کیخلاف فتح سے کھلاڑیوں کا عزم جواں مگر۔۔۔ ورلڈ کپ کیلئے مختلف گیم پلان کی ضرورت ہوگی
آسٹریلیا کے خلاف پاکستانی ٹیم کی شاندار کامیابی بلاشبہ برسوں یاد رکھی جائے گی
ISLAMABAD:
کرکٹ کو ''فنی گیم'' ایسے ہی نہیں کہا جاتا، چند روز قبل ہی پاکستانی ٹیم کے ساتھ کپتان مصباح الحق بھی شدید تنقید کی زد میں تھے، رواں سال متواتر ناکامیاں اس کی وجہ بنیں۔
سری لنکا سے سیریز میں شکست کے بعد تو یہ سلسلہ مزید تیز ہوگیا، پھر جب آسٹریلیا سے ابتدائی دونوں ون ڈے ہار کر سیریز گنوائی تو تنقیدی نشتر مصباح کا سینہ چھلنی کر گئے، اسی وجہ سے وہ تیسرے ون ڈے سے دستبردار ہوئے، شاید یہی اس کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا، بورڈ نے ایک میچ کے لیے شاہد آفریدی کو قیادت سونپی اور انھوں نے میچ کے بعد پریس کانفرنس میں اس حوالے سے اظہار خیال بھی کر دیا، اس سے یہ غلط تاثر سامنے آیا کہ مصباح کو کپتانی سے ہٹانے کے لیے کوئی سازش رچائی گئی ہے۔
پی سی بی مشکل میں پڑ گیا اور آفریدی کی سرزنش کرتے ہوئے مصباح کو ورلڈکپ تک کے لیے کپتانی بنانے کا شاید چوتھی یا پانچویں بار اعلان کر دیا گیا، کرسی مضبوط ہونے سے سینئر بیٹسمین کے حوصلے بڑھے، یونس خان بھی اپنے آپ کو منوانے کے لیے کوشاں تھے، دونوں نے مل کر ٹیم کی قسمت بدل دی، نیا ٹیلنٹ بھی کام آ گیا، یوں وہ مصباح جو دباؤ میں آ کر ایک میچ کے لیے قیادت چھوڑ چکے تھے اب ملکی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان بننے کے قریب ہیں، انھیں ٹک ٹک مصباح کہا جاتا تھا اب وہ پانچ روزہ کرکٹ کی تیز ترین ففٹی اور سنچری کا ریکارڈ اپنے نام کر چکے ہیں، یہی اس کھیل کی خوبی ہے، کبھی خوب رُلاتا تو پھر اتنا ہی ہنساتا بھی ہے۔
آسٹریلیا کے خلاف پاکستانی ٹیم کی شاندار کامیابی بلاشبہ برسوں یاد رکھی جائے گی، سعید اجمل کی عدم موجودگی کے باوجود بولرز نے تمام خدشات غلط ثابت کر دیئے، ذوالفقار بابر نے 14 اور یاسر شاہ نے 12 وکٹیں لے کر اپنی صلاحیتوں کا ایسا اظہار کیا کہ دنیا حیران رہ گئی، ان دونوں کی چکمہ دیتی گیندوں کا کینگروز کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، خصوصاً انتہائی تاخیر سے موقع پانے والے یاسر نے تو شین وارن کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا، ان دونوں نے مل کر 26 وکٹیں لیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کا مستقبل تابناک ہے۔
پی سی بی نے اسپن پچز بنوا کر بہت اچھا قدم اٹھایا، آسٹریلوی بیٹسمین گزشتہ برس بھارتی سلو پچز پر بھی جدوجہد کرتے نظر آئے اور چاروں ٹیسٹ میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا،آف اسپنر روی چندرن ایشون 29 اور لیفٹ آرم اسپنر رویندرا جڈیجا 24 پلیئرز کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب رہے، مجموعی طور پر 65 وکٹیں سلو بولرز کے ساتھ لگی تھیں، یہ بات یقینا پاکستانی حکام کے ذہنوں میں بھی تھی۔ انھوں نے بھی اسپن کا ایسا جال تیار کیا جس میں الجھ کر کینگروز منہ کے بل گر پڑے، اب سوچیں کہ اگر سعید اجمل ایکشن کلیئر کرا کے واپس آگئے تو ہمارا اسپن اٹیک کتنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
البتہ سیریز میں پیسرز عمران خان اور راحت علی غیرمعمولی پرفارم نہ کر سکے، اس شعبے میں ہمیں مزید نئے بولرز کو بھی تلاش کرنا ہو گا، جنید خان اور وہاب ریاض کے لیے جگہ اب بھی خالی نظر آتی ہے، یہ درست ہے کہ پچز پیسرز کے لیے سازگار نہیں تھیں لیکن ہم ایسا کر کے اپنے بیٹسمینوں کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے، لہٰذا فاسٹ بولرز کو یو اے ای میں ہی عمدہ پرفارم کرنا سیکھنا ہوگا،آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے بیٹسمین سلو بولرز کے سامنے ایشیائی کنڈیشنز میں پریشان ہوتے ہیں مگر سری لنکا اور بھارت سے اگر یہاں مقابلہ ہوا تو اسپنرز نہیں چلیں گے، وہاں پیسرز کو ہی کام دکھانا ہوگا۔
کینگروز کے پاس اب شین وارن جیسا کوئی اسپنر موجود نہیں جبکہ بیٹسمین سلو بولرز کا ڈٹ کر سامنا نہیں کر پاتے، اس وجہ سے سیریز میں ان کا اتنا برا حال ہوا، دوسری جانب پاکستانی بیٹسمینوں نے سازگار کنڈیشنز میں رنز کے ڈھیر لگا دیئے، ٹاپ آرڈر کے واحد بدقسمت بیٹسمین محمد حفیظ ہی تھے جو نصف سنچری بھی نہ بنا سکے، احمد شہزاد، اظہر علی، مصباح الحق، یونس خان اور سرفراز احمد سب ہی نے رنز کی بہتی گنگا میں دل بھرکر ہاتھ دھوئے، خصوصاً یونس نے 468 رنز بنا کر اپنے ٹاپ بیٹسمین ہونے کا ثبوت دیا، ون ڈے سیریز سے ڈراپ ہونے پر وہ مایوسی کا شکار تھے اور انھوں نے اپنا غصہ آسٹریلوی بولرز پر نکال دیا، مصباح بھی فارم میں واپس آ گئے جو ورلڈکپ سے قبل پاکستان کے لیے اچھی علامت ہے۔
یو اے ای میں یونس خان کی عمدہ پرفارمنس نے چیف سلیکٹر معین خان کو شائقین کی نظر میں وِلن بنا دیا، سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ بعض معاملات کی وجہ سے انھیں کپتان مصباح الحق بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، یوں سینئرز کی آنکھوں میں بطور منیجر بھی سابق وکٹ کیپر ساکھ کھو بیٹھے ہیں، اب سب ان پر تنقید کر رہے ہیں کہ اتنے اچھے بیٹسمین کو ڈراپ کیوں کیا تھا لیکن اگر ٹھنڈے دل سے حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو علم ہو گا کہ یونس ٹیسٹ اسکواڈ سے تو کبھی باہرہوئے ہی نہیں، اصل معاملہ تو ون ڈے میں ان کی شمولیت کا تھا۔
یہ درست ہے کہ طویل عرصے سے اس طرز میں ان کی کارکردگی اچھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود جب انھیں دورئہ سری لنکا کے لیے منتخب کیا گیا تو اس سے سابقہ ناکامیاں زائل ہو گئیں، اب یونس کو پورا موقع دینا چاہیے تھا،مگر ایک میچ میں ناکامی کے بعد جب وہ نجی وجوہات کی بنا پر ٹور ادھورا چھوڑ کر واپس آ گئے تو اگلی سیریز سے باہر کر دیا گیا، یہیں سلیکٹرز سے چوک ہو گی،اس نے ساری عوامی ہمدردی یونس خان کو دلا دی اور معین خان دباؤ میں آ گئے، پھر ٹیسٹ سیریز میں یونس کے شاندار کھیل سے متاثر ہو کر چیئرمین بورڈ شہریار خان نے ازخود انھیں ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل کرنے کا عندیہ دے دیا، اسی وجہ سے ابتدائی 30 پلیئرز کا انتخاب کرتے وقت سب سے پہلے یونس کا نام ہی لکھا گیا۔
ویسے چیئرمین کو جو کام کرنے چاہئیں وہ تو کر نہیں رہے بلکہ دوسروں کے فرائض میں دخل اندازی شروع کر دی ہے، اگر کوئی جذباتی انسان ہوتا تو فوراً چیف سلیکٹر کا عہدہ ہی چھوڑ دیتا لیکن شاید ہر ماہ چیک پر لگے صفر معین کو ایسے قدم سے باز رکھ رہے ہیں، وہ دوہری ذمہ داریوں کے سبب تنقید کی زد میں ہیں، سینئرز سے کشیدہ تعلقات نے مسائل مزید بڑھا دیئے، ایسے میں ان کا ورلڈکپ کے لیے آسٹریلیا و نیوزی لینڈ بطور منیجر جانا آسان نہیں لگتا، ویسے تنقید اپنی جگہ مگر معین خان کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ انھوں نے ہی ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ کو منتخب کیا جنھوں نے سیریز میں ٹیم کو فتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا، سرفراز احمد پر ان کا مسلسل اعتماد بھی اب نتائج دینے لگا ہے، انھوں نے اپنی بیٹنگ تو بہت بہتر بنا لی مگر وکٹ کیپنگ میں خامیاں نوٹ کی جانے لگی ہیں۔
کینگروز کے خلاف سرفراز نے کئی مواقع ضائع کیے جو فتح کی وجہ سے نمایاں نہ ہوسکے، انھیں بیٹنگ کے ساتھ اپنے اصل شعبے پر بھی مکمل توجہ دینی چاہیے، تب ہی طویل عرصے تک ٹیم کے لیے خدمات انجام دے سکتے ہیں، احمد شہزاد ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی کارکردگی میں عدم تسلسل کا شکار نظر آئے، ایک سنچری کے سوا دیگر تین اننگز میں وہ کچھ نہیں کر پائے، انھیں بھی یہ مسئلہ جلد حل کرنا ہوگا، اظہر علی نے ثابت کر دیا کہ وہ مستقبل میں یونس اور مصباح کی جگہ سنبھالنے کے اہلیت ہیں، اسد شفیق کو گوکہ 2 ہی بار بیٹنگ کا موقع ملا مگر ایک اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے، بیٹسمینوں کی یہ پرفارمنس خوش آئند ہے، اس نے شاندار ماضی کی یاد دلا دی۔
پہلے بھی کہہ چکا کہ ہم لوگ ایک فتح ملنے پر سابقہ ناکامیوں کو فراموش کر دیتے ہیں، جیسے اب حالیہ ٹیسٹ سیریزکے بعد ہوا، یقیناً سعید اجمل کی عدم موجودگی میں یہ جیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنی چاہیے کہ یو اے ای کی اسپنرز فرینڈلی پچز پر ہم انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کو بھی ٹیسٹ میں ہرا چکے ہیں، دوسری جانب سری لنکا نے جہاں سیمنگ وکٹیں بنائیں سیریز ہمارے ہاتھ سے نکل گئی، مجموعی طور پر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی گزشتہ چند برسوں کی پرفارمنس کو اچھا کہا جا سکتا ہے، البتہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں ایسا نہیں، یاد رکھیں ورلڈکپ ٹیسٹ کرکٹ کا نہیں ہوگا، اس میں ون ڈے میچز کھیلے جائیں گے۔
رواں برس اس طرز میں ہم مسلسل 2 سیریز ہار چکے اور 11 میں سے صرف 4 میچز جیتے ہیں، اس میں سے بھی 2 مقابلے افغانستان اور بنگلہ دیش کی کمزور ٹیموں سے تھے، ایسے میں کیا یو اے ای میں 2 ٹیسٹ جیتنے کے بعد خود کو ورلڈکپ فیورٹ ٹیموں میں شامل کرنا ٹھیک ہے؟ ہمارے یہاں اگر حقیقت بیان کرو تو شائقین برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، اسی لیے ہوا کا رخ دیکھ کر سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہے، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچز اب 1992ء جیسی خطرناک نہیں رہیں،اس لیے عمران خان اور جاوید میانداد کی آغاز میں سست اور بعد میں جارحانہ بیٹنگ کا حوالہ نہیں دیا جاسکتا۔
اب حالات اور قوانین بھی بدل چکے، اس وقت ہمارے پاس وسیم اکرم، عاقب جاوید، مشتاق احمد اور عمران خان پر مشتمل بولنگ اٹیک تھا جو 230 رنز کا بھی دفاع کر لیتا، اب ایسے فاسٹ بولرز موجود نہیں جو تسلسل سے عمدہ پرفارم کر سکیں، لہٰذامصباح اور یونس کو خاص طور پر انداز بیٹنگ بدلنا ہوگا تاکہ ایسا اسکور بنایا جا سکے جس کا بولرز دفاع کر سکیں،شائقین کو کپتان سے حالیہ ٹیسٹ جیسی مثبت بیٹنگ کی توقع ہے،یونس کو بھی اب اگر موقع ملا ہے تو شاندار بیٹنگ سے اس ورلڈکپ کو یادگار بنا دینا چاہیے۔
دونوں سینئرز کے پاس اپنی2011 سیمی فائنل کی سلو بیٹنگ کے ازالے کا سنہری موقع موجود ہے جسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، سلیکٹرز جدید دور کے مدنظر عمر اکمل،صہیب مقصود اور فواد عالم جیسے نوجوانوں پر بھی اعتماد کریں، ہماری ٹیم کوئی بنگلہ دیش نہیں کہ ایک سیریز جیتنے پر ایسے خوشیاں منائے جیسے ورلڈکپ حاصل کر لیا ہو، ہمیں اس فتح کے خمار سے نکل کر ون ڈے میں بھی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ اب نیوزی لینڈ سے سیریز شروع ہونے والی ہے، اس کے خلاف بھی کامیابیاں ٹیم کا مورال مزید بڑھا دیں گی جس سے میگا ایونٹ میں عمدہ کھیل کا امکان مزید روشن ہو جائے گا۔
اب ذکر کچھ آئی سی سی ایوارڈز کا ہو جائے، گزشتہ دو برس سے اس کے ووٹنگ پینل میں سابق ٹیسٹ آل راؤنڈر مدثر نذر کے ساتھ شامل دوسرا پاکستانی میں ہوں، یہ نہ صرف میرے بلکہ ملک کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے، کئی سابق کرکٹرز بشمول جان ایمبری، کرن مورے، مارک رچرڈسن، جونٹی رہوڈز اور چمندا واس بھی 32 رکنی پینل کا حصہ ہیں، اس بار پاکستان کے کسی کھلاڑی کو ایوارڈز کے لیے نامزدگی نہیں ملی تو کئی لوگوں نے مجھے بھی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا، انھیں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس پینل میں میرے علاوہ دیگر 31 افراد بھی ہیں، اسی طرح حالیہ کارکردگی کو نہ دیکھیں۔
یہ ایوارڈز 26 اگست 2013ء سے17 ستمبر 2014ء تک کے ہیں، اس عرصے میں بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم خاص پرفارم نہ کر سکی، 9 میں سے صرف 3 ٹیسٹ جیتے، 5 میں شکست ہوئی، 24 ون ڈے میں سے 12 میں فتح اور اتنے میں ہی ناکامی ملی، 11 ٹوئنٹی 20 میں سے 5 جیتے اور 6 میں مات ہوئی، اب آغاز اچھا ہوا ہے یقینا اگلے برس یونس اور مصباح بھی نامزد ہوںگے، ہمیں تب تک انتظار کرنا چاہیے،ویسے ہمارے ملک میں یہ کلچر فروغ پا چکا کہ کوئی کسی کی کامیابی سے خوش نہیں ہوتا، چاہے اسے جانتے بھی نہ ہوں خوامخواہ حسد شروع کر دیتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں تنقید کرنے سے قبل حقائق کا جائزہ لے لیا جائے تو شاید خاموش رہنے میں ہی عافیت مناسب ہو۔
جاتے جاتے کچھ سعید اجمل کا ذکر کر دوں، وہ بولنگ ایکشن کی ان آفیشل جانچ کے لیے انگلینڈ روانہ ہو چکے ہیں، اگر گرین سگنل ملا تو آئی سی سی سے بھی پاکستان ٹیسٹ کے لیے درخواست کرے گا،ہماری ورلڈکپ مہم میں سعید اجمل کا کردار انتہائی اہم ہو گا، وہ ہر طرز کی کرکٹ میں کامیاب ثابت ہو چکے، ایکشن کی بہتری کے بعد بھی پہلے کی طرح مہلک اسپنر رہے تو گرین شرٹس حریف ٹیموں کو ٹف ٹائم دیں گے۔
skhaliq@express.com.pk
کرکٹ کو ''فنی گیم'' ایسے ہی نہیں کہا جاتا، چند روز قبل ہی پاکستانی ٹیم کے ساتھ کپتان مصباح الحق بھی شدید تنقید کی زد میں تھے، رواں سال متواتر ناکامیاں اس کی وجہ بنیں۔
سری لنکا سے سیریز میں شکست کے بعد تو یہ سلسلہ مزید تیز ہوگیا، پھر جب آسٹریلیا سے ابتدائی دونوں ون ڈے ہار کر سیریز گنوائی تو تنقیدی نشتر مصباح کا سینہ چھلنی کر گئے، اسی وجہ سے وہ تیسرے ون ڈے سے دستبردار ہوئے، شاید یہی اس کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا، بورڈ نے ایک میچ کے لیے شاہد آفریدی کو قیادت سونپی اور انھوں نے میچ کے بعد پریس کانفرنس میں اس حوالے سے اظہار خیال بھی کر دیا، اس سے یہ غلط تاثر سامنے آیا کہ مصباح کو کپتانی سے ہٹانے کے لیے کوئی سازش رچائی گئی ہے۔
پی سی بی مشکل میں پڑ گیا اور آفریدی کی سرزنش کرتے ہوئے مصباح کو ورلڈکپ تک کے لیے کپتانی بنانے کا شاید چوتھی یا پانچویں بار اعلان کر دیا گیا، کرسی مضبوط ہونے سے سینئر بیٹسمین کے حوصلے بڑھے، یونس خان بھی اپنے آپ کو منوانے کے لیے کوشاں تھے، دونوں نے مل کر ٹیم کی قسمت بدل دی، نیا ٹیلنٹ بھی کام آ گیا، یوں وہ مصباح جو دباؤ میں آ کر ایک میچ کے لیے قیادت چھوڑ چکے تھے اب ملکی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان بننے کے قریب ہیں، انھیں ٹک ٹک مصباح کہا جاتا تھا اب وہ پانچ روزہ کرکٹ کی تیز ترین ففٹی اور سنچری کا ریکارڈ اپنے نام کر چکے ہیں، یہی اس کھیل کی خوبی ہے، کبھی خوب رُلاتا تو پھر اتنا ہی ہنساتا بھی ہے۔
آسٹریلیا کے خلاف پاکستانی ٹیم کی شاندار کامیابی بلاشبہ برسوں یاد رکھی جائے گی، سعید اجمل کی عدم موجودگی کے باوجود بولرز نے تمام خدشات غلط ثابت کر دیئے، ذوالفقار بابر نے 14 اور یاسر شاہ نے 12 وکٹیں لے کر اپنی صلاحیتوں کا ایسا اظہار کیا کہ دنیا حیران رہ گئی، ان دونوں کی چکمہ دیتی گیندوں کا کینگروز کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، خصوصاً انتہائی تاخیر سے موقع پانے والے یاسر نے تو شین وارن کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا، ان دونوں نے مل کر 26 وکٹیں لیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کا مستقبل تابناک ہے۔
پی سی بی نے اسپن پچز بنوا کر بہت اچھا قدم اٹھایا، آسٹریلوی بیٹسمین گزشتہ برس بھارتی سلو پچز پر بھی جدوجہد کرتے نظر آئے اور چاروں ٹیسٹ میں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا،آف اسپنر روی چندرن ایشون 29 اور لیفٹ آرم اسپنر رویندرا جڈیجا 24 پلیئرز کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب رہے، مجموعی طور پر 65 وکٹیں سلو بولرز کے ساتھ لگی تھیں، یہ بات یقینا پاکستانی حکام کے ذہنوں میں بھی تھی۔ انھوں نے بھی اسپن کا ایسا جال تیار کیا جس میں الجھ کر کینگروز منہ کے بل گر پڑے، اب سوچیں کہ اگر سعید اجمل ایکشن کلیئر کرا کے واپس آگئے تو ہمارا اسپن اٹیک کتنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
البتہ سیریز میں پیسرز عمران خان اور راحت علی غیرمعمولی پرفارم نہ کر سکے، اس شعبے میں ہمیں مزید نئے بولرز کو بھی تلاش کرنا ہو گا، جنید خان اور وہاب ریاض کے لیے جگہ اب بھی خالی نظر آتی ہے، یہ درست ہے کہ پچز پیسرز کے لیے سازگار نہیں تھیں لیکن ہم ایسا کر کے اپنے بیٹسمینوں کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے، لہٰذا فاسٹ بولرز کو یو اے ای میں ہی عمدہ پرفارم کرنا سیکھنا ہوگا،آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے بیٹسمین سلو بولرز کے سامنے ایشیائی کنڈیشنز میں پریشان ہوتے ہیں مگر سری لنکا اور بھارت سے اگر یہاں مقابلہ ہوا تو اسپنرز نہیں چلیں گے، وہاں پیسرز کو ہی کام دکھانا ہوگا۔
کینگروز کے پاس اب شین وارن جیسا کوئی اسپنر موجود نہیں جبکہ بیٹسمین سلو بولرز کا ڈٹ کر سامنا نہیں کر پاتے، اس وجہ سے سیریز میں ان کا اتنا برا حال ہوا، دوسری جانب پاکستانی بیٹسمینوں نے سازگار کنڈیشنز میں رنز کے ڈھیر لگا دیئے، ٹاپ آرڈر کے واحد بدقسمت بیٹسمین محمد حفیظ ہی تھے جو نصف سنچری بھی نہ بنا سکے، احمد شہزاد، اظہر علی، مصباح الحق، یونس خان اور سرفراز احمد سب ہی نے رنز کی بہتی گنگا میں دل بھرکر ہاتھ دھوئے، خصوصاً یونس نے 468 رنز بنا کر اپنے ٹاپ بیٹسمین ہونے کا ثبوت دیا، ون ڈے سیریز سے ڈراپ ہونے پر وہ مایوسی کا شکار تھے اور انھوں نے اپنا غصہ آسٹریلوی بولرز پر نکال دیا، مصباح بھی فارم میں واپس آ گئے جو ورلڈکپ سے قبل پاکستان کے لیے اچھی علامت ہے۔
یو اے ای میں یونس خان کی عمدہ پرفارمنس نے چیف سلیکٹر معین خان کو شائقین کی نظر میں وِلن بنا دیا، سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ بعض معاملات کی وجہ سے انھیں کپتان مصباح الحق بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، یوں سینئرز کی آنکھوں میں بطور منیجر بھی سابق وکٹ کیپر ساکھ کھو بیٹھے ہیں، اب سب ان پر تنقید کر رہے ہیں کہ اتنے اچھے بیٹسمین کو ڈراپ کیوں کیا تھا لیکن اگر ٹھنڈے دل سے حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو علم ہو گا کہ یونس ٹیسٹ اسکواڈ سے تو کبھی باہرہوئے ہی نہیں، اصل معاملہ تو ون ڈے میں ان کی شمولیت کا تھا۔
یہ درست ہے کہ طویل عرصے سے اس طرز میں ان کی کارکردگی اچھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود جب انھیں دورئہ سری لنکا کے لیے منتخب کیا گیا تو اس سے سابقہ ناکامیاں زائل ہو گئیں، اب یونس کو پورا موقع دینا چاہیے تھا،مگر ایک میچ میں ناکامی کے بعد جب وہ نجی وجوہات کی بنا پر ٹور ادھورا چھوڑ کر واپس آ گئے تو اگلی سیریز سے باہر کر دیا گیا، یہیں سلیکٹرز سے چوک ہو گی،اس نے ساری عوامی ہمدردی یونس خان کو دلا دی اور معین خان دباؤ میں آ گئے، پھر ٹیسٹ سیریز میں یونس کے شاندار کھیل سے متاثر ہو کر چیئرمین بورڈ شہریار خان نے ازخود انھیں ورلڈکپ اسکواڈ میں شامل کرنے کا عندیہ دے دیا، اسی وجہ سے ابتدائی 30 پلیئرز کا انتخاب کرتے وقت سب سے پہلے یونس کا نام ہی لکھا گیا۔
ویسے چیئرمین کو جو کام کرنے چاہئیں وہ تو کر نہیں رہے بلکہ دوسروں کے فرائض میں دخل اندازی شروع کر دی ہے، اگر کوئی جذباتی انسان ہوتا تو فوراً چیف سلیکٹر کا عہدہ ہی چھوڑ دیتا لیکن شاید ہر ماہ چیک پر لگے صفر معین کو ایسے قدم سے باز رکھ رہے ہیں، وہ دوہری ذمہ داریوں کے سبب تنقید کی زد میں ہیں، سینئرز سے کشیدہ تعلقات نے مسائل مزید بڑھا دیئے، ایسے میں ان کا ورلڈکپ کے لیے آسٹریلیا و نیوزی لینڈ بطور منیجر جانا آسان نہیں لگتا، ویسے تنقید اپنی جگہ مگر معین خان کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ انھوں نے ہی ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ کو منتخب کیا جنھوں نے سیریز میں ٹیم کو فتح دلانے میں اہم کردار ادا کیا، سرفراز احمد پر ان کا مسلسل اعتماد بھی اب نتائج دینے لگا ہے، انھوں نے اپنی بیٹنگ تو بہت بہتر بنا لی مگر وکٹ کیپنگ میں خامیاں نوٹ کی جانے لگی ہیں۔
کینگروز کے خلاف سرفراز نے کئی مواقع ضائع کیے جو فتح کی وجہ سے نمایاں نہ ہوسکے، انھیں بیٹنگ کے ساتھ اپنے اصل شعبے پر بھی مکمل توجہ دینی چاہیے، تب ہی طویل عرصے تک ٹیم کے لیے خدمات انجام دے سکتے ہیں، احمد شہزاد ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی کارکردگی میں عدم تسلسل کا شکار نظر آئے، ایک سنچری کے سوا دیگر تین اننگز میں وہ کچھ نہیں کر پائے، انھیں بھی یہ مسئلہ جلد حل کرنا ہوگا، اظہر علی نے ثابت کر دیا کہ وہ مستقبل میں یونس اور مصباح کی جگہ سنبھالنے کے اہلیت ہیں، اسد شفیق کو گوکہ 2 ہی بار بیٹنگ کا موقع ملا مگر ایک اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہے، بیٹسمینوں کی یہ پرفارمنس خوش آئند ہے، اس نے شاندار ماضی کی یاد دلا دی۔
پہلے بھی کہہ چکا کہ ہم لوگ ایک فتح ملنے پر سابقہ ناکامیوں کو فراموش کر دیتے ہیں، جیسے اب حالیہ ٹیسٹ سیریزکے بعد ہوا، یقیناً سعید اجمل کی عدم موجودگی میں یہ جیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنی چاہیے کہ یو اے ای کی اسپنرز فرینڈلی پچز پر ہم انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کو بھی ٹیسٹ میں ہرا چکے ہیں، دوسری جانب سری لنکا نے جہاں سیمنگ وکٹیں بنائیں سیریز ہمارے ہاتھ سے نکل گئی، مجموعی طور پر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی گزشتہ چند برسوں کی پرفارمنس کو اچھا کہا جا سکتا ہے، البتہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں ایسا نہیں، یاد رکھیں ورلڈکپ ٹیسٹ کرکٹ کا نہیں ہوگا، اس میں ون ڈے میچز کھیلے جائیں گے۔
رواں برس اس طرز میں ہم مسلسل 2 سیریز ہار چکے اور 11 میں سے صرف 4 میچز جیتے ہیں، اس میں سے بھی 2 مقابلے افغانستان اور بنگلہ دیش کی کمزور ٹیموں سے تھے، ایسے میں کیا یو اے ای میں 2 ٹیسٹ جیتنے کے بعد خود کو ورلڈکپ فیورٹ ٹیموں میں شامل کرنا ٹھیک ہے؟ ہمارے یہاں اگر حقیقت بیان کرو تو شائقین برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، اسی لیے ہوا کا رخ دیکھ کر سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہے، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچز اب 1992ء جیسی خطرناک نہیں رہیں،اس لیے عمران خان اور جاوید میانداد کی آغاز میں سست اور بعد میں جارحانہ بیٹنگ کا حوالہ نہیں دیا جاسکتا۔
اب حالات اور قوانین بھی بدل چکے، اس وقت ہمارے پاس وسیم اکرم، عاقب جاوید، مشتاق احمد اور عمران خان پر مشتمل بولنگ اٹیک تھا جو 230 رنز کا بھی دفاع کر لیتا، اب ایسے فاسٹ بولرز موجود نہیں جو تسلسل سے عمدہ پرفارم کر سکیں، لہٰذامصباح اور یونس کو خاص طور پر انداز بیٹنگ بدلنا ہوگا تاکہ ایسا اسکور بنایا جا سکے جس کا بولرز دفاع کر سکیں،شائقین کو کپتان سے حالیہ ٹیسٹ جیسی مثبت بیٹنگ کی توقع ہے،یونس کو بھی اب اگر موقع ملا ہے تو شاندار بیٹنگ سے اس ورلڈکپ کو یادگار بنا دینا چاہیے۔
دونوں سینئرز کے پاس اپنی2011 سیمی فائنل کی سلو بیٹنگ کے ازالے کا سنہری موقع موجود ہے جسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، سلیکٹرز جدید دور کے مدنظر عمر اکمل،صہیب مقصود اور فواد عالم جیسے نوجوانوں پر بھی اعتماد کریں، ہماری ٹیم کوئی بنگلہ دیش نہیں کہ ایک سیریز جیتنے پر ایسے خوشیاں منائے جیسے ورلڈکپ حاصل کر لیا ہو، ہمیں اس فتح کے خمار سے نکل کر ون ڈے میں بھی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ اب نیوزی لینڈ سے سیریز شروع ہونے والی ہے، اس کے خلاف بھی کامیابیاں ٹیم کا مورال مزید بڑھا دیں گی جس سے میگا ایونٹ میں عمدہ کھیل کا امکان مزید روشن ہو جائے گا۔
اب ذکر کچھ آئی سی سی ایوارڈز کا ہو جائے، گزشتہ دو برس سے اس کے ووٹنگ پینل میں سابق ٹیسٹ آل راؤنڈر مدثر نذر کے ساتھ شامل دوسرا پاکستانی میں ہوں، یہ نہ صرف میرے بلکہ ملک کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے، کئی سابق کرکٹرز بشمول جان ایمبری، کرن مورے، مارک رچرڈسن، جونٹی رہوڈز اور چمندا واس بھی 32 رکنی پینل کا حصہ ہیں، اس بار پاکستان کے کسی کھلاڑی کو ایوارڈز کے لیے نامزدگی نہیں ملی تو کئی لوگوں نے مجھے بھی تنقید کا نشانہ بنا ڈالا، انھیں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس پینل میں میرے علاوہ دیگر 31 افراد بھی ہیں، اسی طرح حالیہ کارکردگی کو نہ دیکھیں۔
یہ ایوارڈز 26 اگست 2013ء سے17 ستمبر 2014ء تک کے ہیں، اس عرصے میں بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم خاص پرفارم نہ کر سکی، 9 میں سے صرف 3 ٹیسٹ جیتے، 5 میں شکست ہوئی، 24 ون ڈے میں سے 12 میں فتح اور اتنے میں ہی ناکامی ملی، 11 ٹوئنٹی 20 میں سے 5 جیتے اور 6 میں مات ہوئی، اب آغاز اچھا ہوا ہے یقینا اگلے برس یونس اور مصباح بھی نامزد ہوںگے، ہمیں تب تک انتظار کرنا چاہیے،ویسے ہمارے ملک میں یہ کلچر فروغ پا چکا کہ کوئی کسی کی کامیابی سے خوش نہیں ہوتا، چاہے اسے جانتے بھی نہ ہوں خوامخواہ حسد شروع کر دیتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں تنقید کرنے سے قبل حقائق کا جائزہ لے لیا جائے تو شاید خاموش رہنے میں ہی عافیت مناسب ہو۔
جاتے جاتے کچھ سعید اجمل کا ذکر کر دوں، وہ بولنگ ایکشن کی ان آفیشل جانچ کے لیے انگلینڈ روانہ ہو چکے ہیں، اگر گرین سگنل ملا تو آئی سی سی سے بھی پاکستان ٹیسٹ کے لیے درخواست کرے گا،ہماری ورلڈکپ مہم میں سعید اجمل کا کردار انتہائی اہم ہو گا، وہ ہر طرز کی کرکٹ میں کامیاب ثابت ہو چکے، ایکشن کی بہتری کے بعد بھی پہلے کی طرح مہلک اسپنر رہے تو گرین شرٹس حریف ٹیموں کو ٹف ٹائم دیں گے۔
skhaliq@express.com.pk