نامساعد حالات کے باوجود امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے

پاکستان کو اسپورٹس میں تنہا کرنے کی بھارتی سازشیں

پاکستان کو اسپورٹس میں تنہا کرنے کی بھارتی سازشیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
میرا سفارتکار دوست مجھے بتا رہا تھا، امریکا، انگلینڈ اور جاپان سمیت دنیا کے متعدد ممالک کی خاک چھان چکا ہوں، اپنے اس تجربے کی بنا پرکہتا ہوں کہ دوسرے شعبوں کی طرح بھارت پاکستان کو کھیلوں میں بھی عالمی سطح پر تنہا کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔

اب خود ہی دیکھ لو کہ پانچ سال سے انٹرنیشنل کرکٹ ٹیمیں پاکستان میں کھیلنے سے انکاری ہیں، حقائق کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اس کے بھی تانے بانے ہمسایہ ملک بھارت سے ملیں گے۔ میری یہ بات لکھ لو مستقبل میں بھی جب اور جہاں بھی پاکستانی سپورٹس تنظیموں اور کھلاڑیوں کو مالی فوائد ملنے کے امکانات موجود ہوں گے، بھارتی اس کی راہ میں رکاوٹ ضرور بنیں گے۔ اپنے دوست کی باتوں پرسنجیدگی کے ساتھ غور کیا تو واقعات کی کڑیاں ایک ایک کر کے ملنا شروع ہو گئیں۔

سانحہ لبرٹی نے جہاں پاکستان میں انٹرنیشنل کھیلوں پر کاری ضرب لگائی وہاں ایک ایڈیشن کے بعد پاکستانی کرکٹرز پر انڈین پریمیئر لیگ کے دروازے بھی بند کر دیئے گئے، بات یہی ختم نہیں ہوئی بلکہ بنگلہ دیشی اور سری لنکن بورڈز کو بھی مجبور کیا کہ وہ اپنی لیگز میں پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل کرنے سے باز رہیں۔ قومی ہاکی پلیئرز لیگ کھیلنے کے لیے بھارت گئے تاہم سکیورٹی کو جواز بنا کر بغیرکھلائے انہیں واپس بجھوا دیا گیا، یہ سب کچھ بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ پاکستان میں ہوا ہوتا تو انڈین میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا اور دنیا بھر میں پاکستان کو ذلیل ورسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ چھوڑتا۔

بھارتی روہن بھوپننا ٹینس سٹار اعصام الحق کے ساتھ جوڑی بناتے ہیں تو اپنوں کے طعنوں سے تنگ آ کر پاکستانی کھلاڑی سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں جب عالمی رینکنگ میں تنزلی آنے لگتی ہے تو اعصام سے جوڑی دوبارہ بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بھارتی میڈیا اپنی ہی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک سے شادی کرنے کے جرم میں بدنام کرنے کا موقع بھی کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، کبھی طنزاً انہیں پاکستان کی بھابھی کہہ کر پکارتا ہے تو کبھی پرچم کی تذلیل کرنے کا الزام لگا کر انہیں ذہنی وجسمانی طور پر ٹارچر کیا جاتا ہے۔

اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ایک بھارتی شہری کو پاکستانی کٹ پہننے کی وجہ سے اپنے وطن سے غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی پنجاب الیون ان دنوں بھارتی شہر جالندھر میں موجود اور آخری اطلاعات تک سرجیت سنگھ ہاکی ٹورنامنٹ میں حریف ٹیموں کو ناکوں چنے چبوا کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔

واقفان حال کا کہنا ہے کہ بعض خفیہ طاقتیں پاکستانی ٹیم کی بھارت میں موجودگی سے ناخوش ہیں اور ٹورنامنٹ انتظامیہ سے نالاں ہیں کہ گرین شرٹس کی پے درپے کامیابیوں سے جہاں بھارتی پلیئرز کی اپنی ہی سرزمین پر جگ ہنسائی ہو رہی ہے وہیں فائنل جیتنے کی صورت میں پاکستانی ٹیم کو ایک کروڑ روپے کی بھاری اور پرکشش انعامی رقم بھی میسر آئے گی، بھارت تو پہلے ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے خالی خزانے بھرنے پر پچھتا رہا ہے۔

اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کی انتھک کاوشوں اور کوششوں کی وجہ سے بھارتی ٹیم 1987ء کے بعد پہلی بار 2004-05 میں پاکستان میں کھیلنے کے لیے آئی، یہ سیریز اتنی کامیاب رہی کہ پی سی بی کے خالی خزانہ کو اربوں روپے کی آمدن میسر آئی، جب یہ بات بھارت کی سمجھ میں آئی تو پلوں سے بہت پانی بہہ چکا تھا۔ اپنی ''غلطی'' کو سدھارنے کے لیے بھارت اپنی ٹیم کو دوبارہ پاکستان نہ بھجوانے کا عہد کر چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ پی سی بی کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھارتی ٹیم پاکستان میں تاحال کھیلنے سے انکاری ہے۔


گو پی سی بی اور بی سی سی آئی کے درمیان 8 سالہ معاہدے پردستخط ہو چکے ہیں جس کے مطابق پاکستان 2023ء تک 6 میں سے 4 سیریز کی میزبانی کرے گا، دعوے سے کہتا ہوں کہ پاکستان میں سکیورٹی کا مسئلہ نہ بھی ہوا تو بھی بھارتی ٹیم کبھی بھی سونے گراؤنڈز آباد کرنے اور مالی فائدہ پہنچانے کے لیے پاکستان نہیں آئے گی۔ ہمسایہ ملک تو پاکستان کو کھیلوں میں بھی عالمی سطح پر تنہا کرنے کا عزم کر چکا ہے ،سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد بگ تھری اور اب دنیا کے نمبر ون سپنر سعید اجمل کے مشکوک بولنگ ایکشن کا شوشہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ ورلڈ کبڈی لیگ میں لاہور لائنز کی کامیابیاں اور میگا ایونٹ کے 22 نومبر سے 2 دسمبر تک کی لاہور میں میزبانی بھارتی سرکار کو ہضم نہیں ہو پا رہی اور ورلڈ کبڈی لیگ کی مہمان نوازی کا حق چھیننے کے اسباب تلاش کئے جا رہے ہیں۔

5 مارچ 2009ء کو لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر شدت پسندوں کے حملے کو یوم سیاہ سے پکارا جائے تو غلط نہ ہوگا، اس افسوس ناک واقعہ کی وجہ سے جہاں متعدد پولیس اہلکار اور شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہیں انٹرنیشنل کھیلیں بھی ہم سے روٹھ گئیں، پاکستان کرکٹ بورڈ نے لاکھ چاہا کہ کسی نہ کسی طرح کسی بھی ٹیم کو پاکستان لایا جائے لیکن بورڈ کے تمام حربے اور نسخے ناکام رہے، آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ تو دور کی بات افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں نے بھی پاکستان کو سکیورٹی رسک قرار دے کر اپنی ٹیمیں پاکستان بجھوانے سے صاف انکار کر دیا۔

سچ میں عار نہیں، اس میں کچھ ہماری نیتوں میں بھی کھوٹ تھا، کچھ حالات بھی ایسے نہ تھے کہ کسی ٹیم کو پاکستان بلا کر مہمانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جاتا۔ دہشت، وحشت اور بربریت کے اس سائے میں ملکی کھیلوں سے وابستہ کچھ فیڈریشنز میدان میں آئیں اور انہوں نے ان ہونی کو ہونی اور نامکمن کو ممکن کر دکھانے کا بیڑہ اٹھایا۔ ان تنظیموں میں سرفہرست پاکستان فٹبال فیڈریشن ہے جو سانحہ لاہور کے بعد ایک بار نہیں درجنوں بار مختلف عالمی ایونٹس میں غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان میں بلا کر کامیاب ایونٹس کا انعقاد کرواچکی ہیں۔

پاکستان بیس بال فیڈریشن بھی ایشیا کپ کا کامیاب میلہ لاہور میں سجا چکی، پنجاب سپورٹس فیسٹول انٹرنیشنل میں امریکا، کینیڈا، جرمنی، جاپان، انگلینڈ، سری لنکا اور بھوٹان کے نہ صرف وفود آئے بلکہ ان ملکوں کے کھلاڑی بھی زندہ دلوں کی سرزمین پر ایکشن میں دکھائی دیئے۔پنجاب سکواش فیڈریشن نے سکواش کے 5 سابق عالمی چیمپئنز سمیت دنیا بھر کے ایک درجن سے زائد غیر ملکی کھلاڑیوں کو لاہور میں مدعو کر کے ان کی یادگار مہمان نوازی کی۔

بھارتی ریشہ دوانیوں کے باوجود راقم کو نہ جانے کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ مایوسیوں ، تاریکیوں اور اندھیروں کے سیاہ بادل اب چھٹنے والے ہیں، ضرب عضب میں پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں رنگ لانے والی ہیں۔ سالہا سال سے کھیلوں کے سونے گراؤنڈز آباد ہونے والے ہیں۔ افغانستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم تین میچوں کی سیریز اپنے نام کر کے اپنے وطن لوٹ چکی ہے۔

کینیا کی اے ٹیم نے پاکستان آنے کا عندیہ دے دیا ہے، مذاکرات میں کامیابی کی صورت میں مہمان ٹیم پاکستان اے کے خلاف پانچ میچوں کی سیریز میں حصہ لے گی۔ آٹھ سال کے طویل عرصہ کے بعد آئندہ ماہ پاکستان ہاکی فیڈریشن ایشین ہاکی فیڈریشن کی ایگزیکٹو باڈی کی میزبانی کرنے والا ہے۔ حال ہی میں فلسطین کی ٹیم کے بعد پی ایف ایف نے 11 نومبر سے ساف خواتین فٹبال چیمپئن کی میزبانی کا بیڑہ اٹھایا ہے، سانحہ واہگہ بارڈر کے فوری بعد سارک ممالک پر مشتمل 8 ٹیموں کا اسلام آباد میں اکٹھا ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔

mian.asghar@express.com.pk
Load Next Story