قدیم ترین سنگھار۔۔۔ چوڑیاں

مقبول زیور کی تیاری میں خواتین کاری گروں کا کردار نمایاں ہے

مقبول زیور کی تیاری میں خواتین کاری گروں کا کردار نمایاں ہے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
خواتین اپنی زیبائش کے لیے مختلف اقسام کے زیورات استعمال کرتی ہیں۔ مثلاً تاج، ٹیکہ، جھومر، جھمکے، بالیاں، بندے، لونگ، نتھ، ہار، مالا، گلوبند، انگوٹھی، چوڑیاں، پازیب اور چھاگل وغیرہ، لیکن ہمارے ہاں ان تمام زیورات میں چوڑیوں کو ثقافتی اور جذباتی لحاظ سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔

اس کا شمار قدیم ترین زیورات میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے چوڑی موہن جودڑو میں 2600 قبل مسیح میں تیار ہوئی۔ گزشتہ ادوار میں چوڑیاں گھونگے اور مٹی سے تیار کی جاتی تھیں۔ بعد میں جب مختلف اوزار ایجاد ہوئے اور دھاتیں دریافت ہوئیں، تو چوڑیاں بھی دھاتوں اور قیمتی پتھروں سے تیار ہونے لگیں۔ آثار ِقدیمہ کی کھدائی سے جب مختلف دیویوں کی مورتیاں دریافت ہوئیں، ان مورتیوں کے ہاتھوں میں بھی چوڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ جب چوڑی دریافت ہوئی، تو اُس کو ایک منفرد طریقہ سے گول شکل دی، کیوں کہ چوڑی کی شکل چوکور اور مُثلّث نما تھی۔

چوڑی جنوبی ایشیا کی ثقافتوں کا ایک اہم ترین جُز ہے۔ مغل بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں کو کانچ کی چوڑیوں کا موجد کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان چوڑیوں کو فروغ بھارتی ریاست فیروزآباد (اُتر پردیش) سے ملا۔ اس کے علاوہ مرادآباد اور حیدرآباد (دکن) میں چوڑی سازی کے مشہور بازار موجود ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد چوڑی سازی سے وابستہ بہت سے خاندانوں نے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں اپنے کام کو فروغ دیا۔ آج بھی چوڑی سازی کے لیے یہ بے حد مشہور ہے۔

چوڑی کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ جن میں کڑا، کنگن، ونگا، چوڑا، کنکن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جس طرح مختلف رنگ مختلف تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی طرح چوڑیوں کے مختلف رنگ اور ڈیزائن بھی برِصغیر کی مختلف تہذیبوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔


قابل ذکر امر یہ ہے کہ حیدرآباد میں چوڑی سازی کی صنعت کی 75 فی صد افرادی قوت کا تعلق خواتین اور بچوں سے ہے۔ ان میں نوعمر لڑکیاں اور 6 سال کی عمر تک کے بچے بھی شامل ہیں، جو متواتر آٹھ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ پاکستان لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے مطابق ان میں 53 فی صد خواتین ناخواندہ، 17 فی صد ثانوی جماعتوں، جب کہ 13 فی صد پرائمری جماعتوں تک تعلم حاصل کی ہے۔ چوڑی سازی کے دوران بھٹیوں کے سینک سے خواتین کے ہاتھ پاؤں جھلس جانے کے خدشات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے بچے بھی اس خطرناک کاموںکو انجام دیتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق 50 فی صد گھروں کے دو یا دو سے زائد بچے چوڑی سازی کے کام سے منسلک ہیں۔ 23 فی صد گھروں کا ایک بچہ، جب کہ 27 فی صد گھروں کا کوئی بچہ اس کام سے منسلک نہیں۔ اکثر گھرانوں میں چوڑی سازی کا کام سینہ بہ سینہ منتقل ہوا ہے۔ 2007 میں پاکستان میں قومی روزگار پالیسی کے تحت چوڑی کی صنعت کو مکمل طور پر رجسٹرڈ کیا گیا۔ چوڑی بنانے کے لیے پہلے خواتین مختلف علاقوں سے کانچ کے ٹکڑے جمع کرتی ہیں۔ دوسرے مرحلے میں چونا، راکھ، ریت اور دیگر اجزا کے ساتھ اسے 1350 ڈگری سینٹی گریڈ پر بھٹی میں پگھلایا جاتا ہے اور ایک تیز رفتار رولر کے ارد گرد گھمایا جاتا ہے۔ جو ایک گول لچھے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اسے بعد میں کاٹ، کاٹ کر چوڑیاں تیار کر لی جاتی ہیں۔

خوشی کا موقع کوئی بھی ہو خواتین کی تیاری چوڑیوں کے بِنا نا مکمل ہے۔ لگ بھگ ہزاروں سالوں سے یہ خواتین کے سنگھار کا ایک لازمی حصّہ ہیں۔ آج بھی خواتین عام طور پر بھی ہاتھ میں کوئی نہ کوئی چوڑی یا کڑا پہنے رہتی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں اس حوالے سے مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ جیسے سندھ کے علاقے تھر میں خواتین پورے بازو میں چوڑیاں پہنے ہوتی ہیں۔ عموماً چوڑیاں کلائی کے حصے تک ہی ہوتی ہیں، لیکن وہاں کی خواتین کا پورا بازو کلائی سے کندھے تک چوڑیوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ کلائی سے کہنی اور پھر کہنی سے کندھے تک پہنی گئی ان چوڑیوں کی ناپ ہاتھ کی مناسبت سے ہوتی ہے، تاکہ انہیں بہ آسانی پہنا جا سکے۔

وقت کے ساتھ ان کی تیاری اور اقسام میں تبدیلی آتی رہی، لیکن یہ کبھی ترک نہیں کی جا سکیں۔ اس لیے سارا سال اس کی فروخت جاری رہتی ہے، لیکن عید اور دیگر تہواروں کے موقع پر اس کی فروخت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ چاند رات کو چوڑیوں کی خریداری سب سے لازمی جُز سمجھا جاتا ہے۔ سونے اور چاندی کے بنے قیمتی کنگن کی بہت مانگ ہوتی ہے، مگر کانچ کی چوڑیوں میں وہ بات ہے کہ خریدار کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کی دل کشی کا بھی کوئی جواب نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ قیمت کے اعتبار سے امیر، غریب سے لے کر متوسط طبقے تک، ہر ایک کی رسائی میں ہے۔

مورخین کے مطابق چوڑیوں کا شمار قدیم ترین زیورات میں ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ ابتداً درخت کی نرم شاخوں کو دائروں یا تکونی شکل دی گئی ہوں گی۔ اس قدیم دور سے آج تک چوڑیوں کی دھات، نقش اور بُنت میں ضرور تبدیلیاں آئیں، تاہم یہ آج بھی خواتین کا مقبول ترین زیور ہے۔
Load Next Story