پاکستان ایک نظر میں احساس کی چڑیا اور میڈیا کی غلط فہمی

تھر میں اگتی بھوک کی فصلیں اور پیاس کے دریا اس کی سنسنی پھیلانے والی حس کی تسکین کے لئے وافر سامان مہیا کر رہے ہیں۔

تھر میں اگتی بھوک کی فصلیں اور پیاس کے دریا اس کی سنسنی پھیلانے والی حس کی تسکین کے لئے وافر سامان مہیا کر رہے ہیں۔ فوٹو فائل

گذشتہ کچھ دنوں سے یہود و ہنود کے اشاروں پر چلنے والا ہمارا میڈیا تھر کی بھوک اور پیاس کی کہانیاں سنا سنا کر ہمارے حکمرانوں کو شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے ۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ میڈیا نے اس سازش کے ذریعے سندھ میں بہنے والی دودھ اور شہد کی نہروں میں پتھر پھینکنے کی کوشش کی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ میڈیا نے جمہوریت کی برکات سمیٹتے تھر کے باسیوں کے انجوائے منٹ میں پہلی دفعہ خلل ڈالا ہو۔ صرف ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو قائم علی شاہ کے مثالی طرزِ حکومت سے پہلے ارباب غلام رحیم کے دور میں بھی میڈیا ایسی گھناؤنی سازشیں کرتا نظر آتا ہے ۔میڈیا نہ آمریت کے جھولے میں چپکا بیٹھ سکا اور نہ ہی آج اسے جمہوری پینگ کے ہلکورے خاموش کر سکے ہیں ۔ تھر میں اگتی بھوک کی فصلیں اور پیاس کے دریا اس کی سنسنی پھیلانے والی حس کی تسکین کے لئے وافر سامان مہیا کر رہے ہیں۔ اس لئے اور کوئی بولے نہ بولے میڈیا تو بول رہا ہے۔

لیکن اگر ہمارا میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ سیاست کے نقار خانے میں اس کے تھر کے لئے کئے گئے واویلوں پر کوئی کان دھرے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ موجودہ قحط کی صورتِ حال سالِ گذشتہ سے جاری خشک سالی کا نتیجہ ہے ۔ پچھلے سال بھی میڈیا نے بہتیرا شور مچایا تھا کہ تھر میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور امداد کے لیے بھجوائی گئی گندم کی بوریاں گوداموں میں پڑی پڑی سڑ رہی ہیں ۔ گزشتہ سال بھی میڈیا ہڈیوں کے ڈھانچوں کی صورت بنتے بچوں کی کہانیاں سنا سنا کر ہمارے حکمرانوں کے ضمیروں کو خواب خرگوش سے جگانے کی بھرپور کوشش کرتا رہا تھا لیکن سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی جمہوریت کے لئے دی گئی اپنی قربانیوں کے بوجھ تلے اتنی دبی ہوئی تھی کہ اس تک تھر کی بھوکی آواز نہ پہنچ سکی۔

بدقسمتی سے آج بھی صورتِ حال جوں کی توں ہے اورہمارے حکمرانوں کے کانوں پر کسی جوں کے رینگنے کا دور دور تک آج بھی کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ۔ آج بھی تھر کے متاثرین کے لئے بھجوائی جانے والی گندم کی بوریوں سے مٹی نکل رہی ہے ۔آج بھی متاثرین کے لیے بھجوایا جانے والا پانی ان تک پہنچنے کی بجائے گوداموں میں ہچکولے کھا رہا ہے ۔ تھر کے صحرا میں بھوک اور پیاس سے بلکتے غریبوں کے لئے حکمراں جماعت کے دفتر میں جھوٹی تسلیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میڈیا لاکھ چیخے چلائے لیکن پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی مضبوطی اور اس کے بقا کے لئے جو لازوال قربانیاں دی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان نظر نہیں آتاکہ اتنی بڑی جماعت چند سو لوگوں کے بھوک پیاس سے مرنے کے چھوٹے سے مسئلے پر ہڑبڑا اٹھے گی۔فی الحال پیپلز پارٹی کے روزنامچے میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔


میڈیا نے تھر کی خبریں چلا چلا کر جہاں بزرگ سیاستدان قائم علی شاہ کے آرام میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ہے وہیں پیپلز پارٹی کے نوخیز چیرمین بلاول بھٹو کے جوان خون کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ منظور وسان کی لیک شدہ رپورٹ پر چیرمین صاحب نے تیش میں آ کر سندھ میں پیپلز پارٹی کی ان دو تاریخی شخصیات کو جو شو کاز نوٹس جاری کئے انہیں غالباً اسی خدشے کے تحت واپس لے لیا گیا ہے کہ ان عظیم سیاست دانوں نے اگر واقعتا اصل 'کاز' کو 'شو ' کر دیا تو پیپلز پارٹی کہیں کوئی 'شو' کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال کہ بدانتظامی، بے عملی ، نااہلی ، اقربا پروری اور بدعنوانی کو اگر یکجا دیکھنے کی خواہش ہو تو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت سے بہتر ماڈل کہیں نہیں مل سکتا تھرکے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت حد تک درست معلوم ہو تا ہے ۔ حیرت ہے کہ بلوچستان والوں سے رئیسانی جیسی دلچسپ و عجیب حکمران کا سایہ تو اٹھ گیا لیکن سندھ کے باسیوں کے سر قائم علی شاہ کے سائے سے نہیں نکل پا رہے۔

ہمارے میڈیا پر دکھایا جانے والا تھر اور اس میں بسنے والے وہ پاکستانی جن کے لئے پینے کا پانی بھی ایک عیاشی ہے اورجن کی حالت افریقہ کے قحط زدہ ملکوں سے بھی کہیں ابتر ہے یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ احساس نامی چڑیا کا سندھی حکمرانوں کے محلوں سے کبھی گزر نہیں ہوتا۔ سیاست کو کھیل سمجھ کر الٹی سیدھی چالیں چلنے والے یہ حکمران انسانی ہمدردی کے بنیادی جذبے سے بھی عاری دکھائی دیتے ہیں ۔ کرپشن کی دلدل میں یہ یوں پھنسے ہیں کہ اب بھوک پیاس سے جاں بلب مظلوموں کے نام پر دی جانے والی امداد کی حریصانہ بندر بانٹ ان کے لئے ایک معمول کا کھیل ہے۔ نااہلی ان کا امتیازی نشان اور کرپشن ان کا طرہِ امتیاز ہے۔ یہ کفن بیچ کر پیسے ڈکارنے والوں کے قبیلے سے ہیں اور ان کا قبیلہ ہی سیاست کا سب سے معتبر قبیلہ ہے ۔ سیاست میں نئے قبیلے کے آنے تک تھر والوں کو انہی کی چاکری کرنی ہے، بھوک سے تڑپنا ہے، پیاس سے بلکنا ہے اور مٹی سے بھری بوریاں وصول کر کے جئے جئے کے نعرے لگانے ہیں کہ یہی ہماری سیاست ہے یہی ہمارا مقدر ہے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story