پاکستان ایک نظر میں محمد علی جناح سے کوٹ رادھا کشن تک

جوزف کالونی کا سانحہ ہو یا کوٹ رادھا کشن، پاکستان کی ریاست ہر جگہ پر خاموش تماشائی بنی رہی۔

جوزف کالونی کا سانحہ ہو یا کوٹ رادھا کشن ،پاکستان کی ریاست ہر جگہ پر خاموش تماشائی بنی رہی۔ فوٹو فائل

یہ 22 نومبر1942 کا دن تھا جب لاہور کے لورنگ ہوٹل میں قائد اعظم کے اعزاز میں منعقدہ ایک سیمینار میں مسیحی برادری نے ایس۔پی سنگھاکی قیادت میں مسلم لیگ کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیااور قائد اعظم نے مسیحی برادری کو یقین دلایا کہ پاکستان میں مسیح برادری کو مکمل تحفظ حاصل ہو گا۔ باونڈری کمیشن کے سامنے بھی تمام مسیحی برادری نے مکمل طور پر پاکستان میں رہنے کا اعلان کیا اور گورداسپور کو پاکستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ مسیحی برادری کی حمایت اس وقت پاکستان بننے کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی جب 23 جون 1947 کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں تین مسیحی ووٹوں نے اٹھاسی کے مقابلے میں اکیانوے ووٹوں سے پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کی قرارداد کو منظور کروایا ، یہ وہ وقت تھا جب موجودہ پاکستان کے ٹھیکداروں کے آباو اجداد نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

محمد علی جناح جب بھی پاکستان بنانے کے لئے کسی ملک گیر دورے پر روانہ ہوتے تو ان کے ایک طرف مسیحی رہنما ایس۔پی سنگھا اور دوسری طرف فضل الہی نظر آتے۔ایک مکمل کتاب اس تاریخی حقیقت پر لکھی جاسکتی ہے جب پاکستان اور مسلم لیگ کے لئے مسیحی برادری نے مکمل طور پر محمد علی جناح کی حمایت کی ، اس تاریخ کا اہم ترین باب پاکستان بننے سے کچھ عرصے قبل کے وہ بلدیاتی انتخابات ہیں جب مسلم لیگ کے شہر لاہور کی مئیر شپ کے لئے نامزد کردہ امیدوار امیر الدین پنجابی جاگیرداروں کی بیوفائی کی وجہ سے شکست کہ دہانے پر تھے تو تب مسیحی برادری نے مسلم لیگ کے امیدوار کی غیر مشروط حمایت کر کے قیام پاکستان کی تحریک کو اخلاقی شکست سے بچایا۔

لیکن آج وقت بدل چکا ہے اور قائد اعظم کی مسلم لیگ جس نے اپنے قائد کے وعدے کا پاس رکھنا تھا کئی آمروں کی بی ٹیم بن کر مختلف دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔آج کا پاکستان محمد علی جناح کا پاکستان نہیں ہے کیونکہ آج کسی بھی مسیحی یہ اقلیتی برادری کے شخص کو مذہب کے نام پر مارنا بہت آسان ہو چکا ہے ۔ایک لمبی تاریخ اور واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جب پاکستان میں مذہبی منافرت اور انتہاپسندی کے لبادے میں اقلیتوں کا استحصال کیا گیا ، پاکستان سے وفاداری کا سرٹیفیکیٹ دینے کا خودساختہ اختیار چند گروہوں نے اپنے پاس رکھ لیا اور سیاسی اور مذہبی مقاصد کے لیے اس کا بھرپور استعمال کیا۔ جوزف کالونی کا سانحہ ہو یا کوٹ رادھا کشن ،پاکستان کی ریاست ہر جگہ پر خاموش تماشائی بنی رہی اور پاکستان میں اقلیتوں کو یہ خاموش پیغام دیا گیا کہ اب ریاست ان کے تحفظ کی ذمہ دار نہیں ہے اور چند گروہوں کو اس قتل و غارت سے روکنا ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔


یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور کوٹ رادھا کشن میں جو کچھ ہوا وہ لبرل اور سیکولر پاکستان کا خواب دیکھنے والوں کے لئے تو بھیانک ہے ہی مگر وہ جو اسے اسلامی فلاحی مملکت بنانا چاہتے ہیں وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ مدینہ کی ریاست تو بدترین دشمن کو بھی دارالامان کا درجہ دے دیتی تھی مگر یہاں ریاست کے وفادار شہریوں کو محض ان کے مذہبی عقیدے کی بناء پر قتل کر دیا جائے تو یہ ایک معمولی سی بات لگتی ہے۔

وہ لوگ جو اس ملک کی سلامتی کے نگہبان ہیں وہ اگر آج بھی پاکستان کی اقلیتوں کو پاکستان کا وفادار سمجھتے ہیں تو انہیں کراچی سے خیبر تک انتہاپسندانہ سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا وگرنہ جی۔ ایچ۔ کیو میں پاکستان کی خاطر جان کا نظرانہ دینے والے 139 مسیحی افسروں اور جوانوں کے نام یادگار شہداء سے مٹا دینے چائیے تاکہ کل کو کوئی مسیحی میجر سرمس روف تمام جوانوں کے شہید ہونے کے باوجود بھی کسی کارگل کے محاذ پہ اکیلا نہ لڑتے ہوئے دیوانگی میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہ لگاتا رہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story