پاکستان ایک نظر میں حب سے لیمارکیٹ تک میٹروبس کا سفر

بلوچستان اورسندھ مشترکہ طورپرشاہراہوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئےاقدامات کرتےاور یہاں بھی میٹرو بس چلانے کا آغاز کرتے۔


شبیر رخشانی November 10, 2014
خواہش تو ہے کہ ملک بھر میں عوام کی سہولت کے لیے میٹرو بس کا آغاز کردیں۔کیونکہ یہاں تو پبلک بسوں کو نہ کوئی دیکھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا۔ فوٹو: فائل

حب بس اسٹاف پر موجود کنڈیکٹر لیمارکیٹ لیمارکیٹ کی صدائیں بلند کر رہا تھا۔ بھئی جگہ ہے میں نے کنڈیکڑ سے سوال کیا، پورا بس خالی ہے بیٹھو بیٹھو۔۔ کنڈیکٹر نے جواب دیا ،میں جیسے ہی بس پہ چڑھ گیا تو دیکھا کہ پوری بس میں صرف ایک پچھلی سیٹ خالی ہے، خیر مین بیٹھ گیا۔ چند لمحوں بعد بس لیمارکیٹ کی طرف روانہ ہو گئی تھی۔ لیکن جوں ہی گاڑی روانہ ہو گئی تو ڈرائیور کے تیور عجیب و غریب انداز میں بدل گئے ،مقابلے کے چکر میں ڈرائیور بس کو تیز بھگا رہا تھا۔ خیر گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی اور دوسری گاڑیوں کو کراس کرنا ڈرائیور اپنے لئے باعث فخر سمجھ رہے تھا، جہاں بھی راستہ ملتاڈرائیور بس کو اسی سائیڈ سے نکالنے کی کوشش کر تا۔


آہستہ آہستہ بس مسافروں سے بھرگئی، ایسالگ رہا تھا کہ بس انسانوں سے نہیں سامان سے بھری جاری ہے۔اوپر سے کنڈیکٹر مزید آنے والے مسافروں کے لئے جگہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اندر موجود مسافر بار بار کنڈیکٹر سے درخواست کر رہے تھے کہ مزید گنجائش پیدا نہیں ہو سکتی، جس پرکنڈیکٹر اپنی سرخ آنکھیں مسافروں کو دکھاتا جس دیکھ کر مسافر یوں خاموش ہوگئے جیسے لوگ کسی خطرناک جانور کو سامنے پاکر خاموش ہوجاتے ہیں۔ بس کی چھت کا منظر اندر سے مختلف نہ تھا، مسافر جنگلوں سے لٹکتے ہوئے نظر آ رہے تھے اور کنڈیکٹر اوپر نیچے کا نعرہ بلند کرتا ہوا جا رہا تھا جس سے آنے والے مسافروں کو اس سے حوصلہ ملتا۔


نہ جانے کسی مسافر کی کیسی شامت آئی کہ اس کے پاس پیسے کم پڑ گئے۔بس کنڈیکٹر نے اسے اتر جانے کا کہا لیکن مسافر بضد تھا کہ وہ ایک روپیہ مزید نہیں دے سکتا، بسمیں موجود دیگر مسافروں نے بیچ بچاؤ کرکے معاملہ سلجھا دیا۔مسافروں کو بھی لوڈنگ سامان سمجھتے ہوئے ڈرائیور گاڑی کو تیزی سے بھگا رہا تھا، وہ اوورٹیکنگ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ مسافر اپنی قیمتی جان ڈرائیور کے حوالے کرکے پیچھے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے کہ کہیں پھر کنڈیکٹر اپنی لال لال آنکھوں کا نذرانہ پیش نہ کردے بس مواچھ کے مقام پر رکی تو بھکاریوں کی لائن لگ گئی۔غربت کے مارے لوگ بس میں ایسی ایسی صدائیں لگارہے تھے کہ جیسے دنیا جہاں کا خزانہ بس میں ہی دفن ہو۔

اسی اثنا میں ایک بوڑھا شخص بھی بس میں سوار ہو کر صدائیں لگاتے ہوئے گھر کی برکت، کاروبار میں برکت، جادو و بلا سے محفوظ اور کامیابی کا آسان سا نسخہ پلاسٹک کوٹنگ میں محفوظ تعویز کو قرار دے رہا تھا ۔ بس میں موجود لوگ بابا کی متاثر کن باتوں میں آگئے ا ور دیکھتے ہی دیکھتے بابا کے ہاتھ میں تعویزوں کا انبار ہی ختم ہو گیا ۔کچھ بدقسمت لوگ اپنی قسمت کو ہی کوستے رہ گئے کہ وہ اس قیمتی چیز سے کیسے محفوظ رہ گئے۔مجھے خدا کے بندوں پر عجیب سی حیرانگی ہوئی کہ ایک بابا چند ساعتوں میں کتنے لوگوں کو بے وقوف بنا کر چلا گیا۔یہی ہماری جذباتی قوم کا المیہ ہے لوگوں کی جھوٹی باتوں میں آکر اپنا سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بس نے ہارن بجایا اور چل دی۔ میں نے فورا نظریں ادھر ادھر دوڑائیں مجھے بابا کہیں نظر نہیں آئے شاید وہ اگلی بس کے مسافروں کو اپنی فریاد پہنچانے کے لئے نئے تعویز دینے گیا ہو۔

بس اپنی رفتار میں چل رہی تھی، اچانک کسی مسافر نے پان اور گھٹکے کے رنگوں سے مزین اوپر سے تھوک پھینکا جوکہ سیدھا بس کے اندر سیٹ پر موجود معزز شخص کے چہرے کو رنگین کر گیا۔ آگے کیا ہونا تھا بس وہی قصہ دونوں مسافروں کے درمیان لڑائی شدت اختیار کر گئی، بڑی مشکل سے ان دونوں کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہو ئے۔بس کے اندرایک تو سانس لینا مشکل ہو رہا تھا، دوسرا بس تیزی سے گڑھوں کو نظر انداز کرتی چلی جارہی تھی جھٹکوں کی وجہ سے مجھے جسم میں درد محسوس ہونے لگا۔

ایسے ماحول میں کسی بھی مسافر کے لئے بس میں سفر کرنا انتہائی دشوار کام ہے۔ ہمارے ملک میں پبلک بسیں کسی قوانین کے بغیر چلائی جاتی ہیں جنہیں نہ کوئی دیکھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا۔تمام لوگ ہی جانتے ہیں کہ حب چوکی پاکستان کا اہم صنعتی علاقہ ہے جہاں پاکستانی صنعت کو دوام بخشنے کے لئے سینکڑوں کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ یہ شاہراہ انتہائی مصروف شاہراہ بھی ہے جو پاکستان کے غریب اور امیر گھرانوں کا ذریعہ معاش ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شہباز شریف کی طرح حکومت بلوچستان اور حکومت سندھ مشترکہ طور پر یہاں کی شاہراہوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرتے ہوئے یہاں بھی میٹرو بس چلانے کا آغاز کرتے جس سے مسافروں کو سفر میں آسانی ہوتی اور ان کا سفر خوشگوار لمحات میں گزرتا۔ اچانک بس کے زوردار بریک لگانے سے میں اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگیا۔ بس لیمارکیٹ کے اڈے تک اپنا سفر طے کر چکی تھی۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں