’’ایک کروڑ یورو نہ دیے تو ملک میں ایبولا وائرس چھوڑ دیں گے‘‘
بلیک میلرز کی جمہوریہ چیک کے حکمرانوں کو دھمکی
مغربی افریقا میں ایبولاوائرس نے دہشت پھیلا رکھی ہے۔ اس وائرس سے لاحق ہونے والے ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہوکر اب تک پانچ ہزار کے لگ بھگ انسان جانیں ہار چکے ہیں، اور ہزاروں موت کو لمحہ بہ لمحہ اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
ایبولا کی موجودہ وبا کی ابتدا دسمبر 2013 ء میں گنی سے ہوئی تھی جو بہ تدریج پڑوسی ممالک لائبیریا اور سیرالیون میں بھی پھیل گئی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 29 اکتوبر تک ایبولا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 13567 تھی جب کہ اس تاریخ تک یہ وائرس 4960 جانیں لے چکا تھا۔
مغربی افریقا میں ایبولا کا عفریت بہ دستور انسانی جانیں نگل رہا ہے۔ دوسری جانب اس وائرس سے مالی فائدہ اٹھانے کے نت نئے طریقے بھی سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ دنوں مُردوں کے ایبولا وائرس سے پاک جعلی سرٹیفکیٹس بنانے کا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ ایبولا سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ان کے ورثا کے حوالے نہیں کی جاتیں، بلکہ انھیں مخصوص تھیلوں میں بند کرکے ٹھکانے لگایا جاتا ہے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ یہ کام تربیت یافتہ عملہ انجام دیتا ہے۔
اس طرح لواحقین کی اپنے پیاروں کو اپنی مذہبی رسوم کے دفنانے کی خواہش تشنہ رہ جاتی ہے۔ اس خواہش کو لائبیریا میں محکمہ صحت کے اہل کاروں نے کمائی کا ذریعہ بنالیا۔ وہ رشوت کے عوض لواحقین کو جعلی سرٹیفکیٹ بنا کر دینے لگے کہ مُردہ ایبولا سے نہیں بلکہ کسی اور مرض کی وجہ سے موت کا شکار ہوا ہے۔ اس طرح لواحقین بہ آسانی لاش لے جاکر اپنے مذہب کے مطابق مُردے کی آخری رسومات ادا کردیتے تھے۔
حال ہی میں ایبولا سے مالی فائدہ اٹھانے کا ایک دل چسپ کیس سامنے آیا ہے، جس میں بلیک میلرز نے جمہوریہ چیک کی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر انھیں ایک کروڑ یورو ادا نہیں کیے گئے تو وہ ملک میں ہلاکت خیز ایبولا وائرس چھوڑ دیں گے۔ 'بانڈ اسٹائل' کی یہ دھمکی اعلیٰ ترین سرکاری دفاتر کو ای میل کے ذریعے دی گئی ہے۔ بلیک میلرز کا کہنا تھا کہ اگر ان کا مطالبہ پورانہ کیا گیا تو وہ پراگ ( دارالحکومت ) اور دیگر شہروں میں ایبولا وائرس پھیلا دیں گے۔ بلیک میلرز نے ایک کروڑ یورو کی رقم ' بِٹ کوائن' کی صورت میں فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بِٹ کوائن الیکٹرونک کرنسی ہے۔ بلیک میلرز کی پسندیدہ کرنسی ہونے کا سبب یہ ہے کہ بٹ کوائن کی صورت میں ملنے والی رقم نہ تو منجمد کی جاسکتی ہے اور ایک بار بھیجنے کے بعد نہ ہی رائج طریقوں کے ذریعے اسے واپس لیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وصول کنندہ کی شناخت ظاہر نہیں ہوپاتی۔
چیک حکومت کو بھیجی گئی ای میلز میں یہ بھی درج ہے کہ اگر ای میل کا جواب نہیں دیا گیا تو پھر پریس ریلیز ذرائع ابلاغ کو بھیجی جائیں گی اور ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب کے ذریعے عام لوگوں کو بھی آگاہ کیا جائے گا کہ حکومت اپنے شہریوں کی طرف سے کتنی بے پروا ہے۔
بلیک میلرز کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایبولا وائرس لائبیریا سے حاصل کیا ہے اور رقم نہ ملنے کی صورت میں وہ اسے جمہوریہ چیک میں پھیلادیں گے۔ انھوں نے رقم کی ادائیگی کے سلسلے میں سرکاری اہل کاروں کو ہدایات بھی دی ہیں کہ وہ ایک ایک دن کے وقفے سے تین اقساط میں رقم وصول کریں گے۔بلیک میلز کا یہ بھی کہنا تھا کہ تیسری قسط موصول ہوتے ہی ایبولا وائرس کا حامل مواد سرکاری اہل کاروں کے حوالے کردیا جائے گا۔
پولیس کے مطابق وہ بلیک میلرز کی دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ پولیس چیف Zdenek Laube کے مطابق بلیک میلنگ کے اقدام کی تفتیش کی جارہی ہے۔ Zdenek کا کہنا ہے کہ نامعلوم فرد یا افراد نے ایبولا وائرس کے پھیلائو کی دھمکی دے کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا مقصد ملک میں بے چینی اور انتشار کا ماحول پیدا کرنا ہے مگر یہ کوشش کام یاب نہیں ہوگی۔
سرکاری اہل کاروں کے مطابق بلیک میلرز نے ای میل بھیجنے کے لیے پیچیدہ طریقہ اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا سراغ لگانا مشکل ہے۔ تاہم پکڑے جانے کی صورت میں انھیں بارہ سال تک کی جیل ہوسکتی ہے۔
ایبولا کی موجودہ وبا کی ابتدا دسمبر 2013 ء میں گنی سے ہوئی تھی جو بہ تدریج پڑوسی ممالک لائبیریا اور سیرالیون میں بھی پھیل گئی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 29 اکتوبر تک ایبولا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 13567 تھی جب کہ اس تاریخ تک یہ وائرس 4960 جانیں لے چکا تھا۔
مغربی افریقا میں ایبولا کا عفریت بہ دستور انسانی جانیں نگل رہا ہے۔ دوسری جانب اس وائرس سے مالی فائدہ اٹھانے کے نت نئے طریقے بھی سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ دنوں مُردوں کے ایبولا وائرس سے پاک جعلی سرٹیفکیٹس بنانے کا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ ایبولا سے ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ان کے ورثا کے حوالے نہیں کی جاتیں، بلکہ انھیں مخصوص تھیلوں میں بند کرکے ٹھکانے لگایا جاتا ہے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ یہ کام تربیت یافتہ عملہ انجام دیتا ہے۔
اس طرح لواحقین کی اپنے پیاروں کو اپنی مذہبی رسوم کے دفنانے کی خواہش تشنہ رہ جاتی ہے۔ اس خواہش کو لائبیریا میں محکمہ صحت کے اہل کاروں نے کمائی کا ذریعہ بنالیا۔ وہ رشوت کے عوض لواحقین کو جعلی سرٹیفکیٹ بنا کر دینے لگے کہ مُردہ ایبولا سے نہیں بلکہ کسی اور مرض کی وجہ سے موت کا شکار ہوا ہے۔ اس طرح لواحقین بہ آسانی لاش لے جاکر اپنے مذہب کے مطابق مُردے کی آخری رسومات ادا کردیتے تھے۔
حال ہی میں ایبولا سے مالی فائدہ اٹھانے کا ایک دل چسپ کیس سامنے آیا ہے، جس میں بلیک میلرز نے جمہوریہ چیک کی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر انھیں ایک کروڑ یورو ادا نہیں کیے گئے تو وہ ملک میں ہلاکت خیز ایبولا وائرس چھوڑ دیں گے۔ 'بانڈ اسٹائل' کی یہ دھمکی اعلیٰ ترین سرکاری دفاتر کو ای میل کے ذریعے دی گئی ہے۔ بلیک میلرز کا کہنا تھا کہ اگر ان کا مطالبہ پورانہ کیا گیا تو وہ پراگ ( دارالحکومت ) اور دیگر شہروں میں ایبولا وائرس پھیلا دیں گے۔ بلیک میلرز نے ایک کروڑ یورو کی رقم ' بِٹ کوائن' کی صورت میں فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بِٹ کوائن الیکٹرونک کرنسی ہے۔ بلیک میلرز کی پسندیدہ کرنسی ہونے کا سبب یہ ہے کہ بٹ کوائن کی صورت میں ملنے والی رقم نہ تو منجمد کی جاسکتی ہے اور ایک بار بھیجنے کے بعد نہ ہی رائج طریقوں کے ذریعے اسے واپس لیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وصول کنندہ کی شناخت ظاہر نہیں ہوپاتی۔
چیک حکومت کو بھیجی گئی ای میلز میں یہ بھی درج ہے کہ اگر ای میل کا جواب نہیں دیا گیا تو پھر پریس ریلیز ذرائع ابلاغ کو بھیجی جائیں گی اور ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب کے ذریعے عام لوگوں کو بھی آگاہ کیا جائے گا کہ حکومت اپنے شہریوں کی طرف سے کتنی بے پروا ہے۔
بلیک میلرز کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایبولا وائرس لائبیریا سے حاصل کیا ہے اور رقم نہ ملنے کی صورت میں وہ اسے جمہوریہ چیک میں پھیلادیں گے۔ انھوں نے رقم کی ادائیگی کے سلسلے میں سرکاری اہل کاروں کو ہدایات بھی دی ہیں کہ وہ ایک ایک دن کے وقفے سے تین اقساط میں رقم وصول کریں گے۔بلیک میلز کا یہ بھی کہنا تھا کہ تیسری قسط موصول ہوتے ہی ایبولا وائرس کا حامل مواد سرکاری اہل کاروں کے حوالے کردیا جائے گا۔
پولیس کے مطابق وہ بلیک میلرز کی دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ پولیس چیف Zdenek Laube کے مطابق بلیک میلنگ کے اقدام کی تفتیش کی جارہی ہے۔ Zdenek کا کہنا ہے کہ نامعلوم فرد یا افراد نے ایبولا وائرس کے پھیلائو کی دھمکی دے کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا مقصد ملک میں بے چینی اور انتشار کا ماحول پیدا کرنا ہے مگر یہ کوشش کام یاب نہیں ہوگی۔
سرکاری اہل کاروں کے مطابق بلیک میلرز نے ای میل بھیجنے کے لیے پیچیدہ طریقہ اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا سراغ لگانا مشکل ہے۔ تاہم پکڑے جانے کی صورت میں انھیں بارہ سال تک کی جیل ہوسکتی ہے۔