بھارت کا ’ قابل فخر سپوت‘ دو سال تک قوم کو بے وقوف بناتا رہا

عزت و شہرت حاصل کرنے کے لیے ناسا میں ملازمت کا شوشا چھوڑا


عبدالریحان November 11, 2014
عزت و شہرت حاصل کرنے کے لیے ناسا میں ملازمت کا شوشا چھوڑا۔ فوٹو: فائل

AUCKLAND: اگست 2012ء میں بھارتی ذرائع ابلاغ میں اچانک ایک نوجوان کا چرچا ہونے لگا تھا۔ ریاست کیرالا کے ضلع کوٹایم کے علاقے منی مالا کے رہائشی ارون وجے کمار کے بارے میں بتایا گیا کہ اسے امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے بہ طور سائنس داں کام کرنے کی پیش کش کی ہے مگر اس ملازمت کے لیے اسے بھارتی شہریت ترک کرنا ہوگی جس کے لیے وہ تیار نہیں ہے۔

ارون کمار کے لیے ناسا کی پیش کش کو جہاں ملک و قوم کے لیے اعزاز قرار دیا گیا وہیں وطن سے اس کی محبت کو بھی سراہا گیا۔ یوں یہ نوجوان راتوں رات ہندوستان میں مشہور ہوگیا۔ ارون کی ذہانت، قابلیت اور حب الوطنی کے اتنے چرچے ہوئے کہ وزیراعظم نریندر مودی بھی اس سے ملاقات کے متمنی ہوگئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستانی شہریت ترک کرنے میں ارون کے تذبذب کو دیکھتے ہوئے امریکی خلائی ایجنسی ' ہونہار ' بھارتی سپوت کے لیے شہریت سے متعلق اپنے قواعد و ضوابط میں بھی ترمیم کرنے پر راضی ہوگئی تھی۔

26 سالہ ارون نے دعویٰ کیا تھا کہ ناسا نے اسے ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت سے ملازمت کی پیش کش کی ہے۔ جنوری 2013 ء میں ارون نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے معروف سائنس داں باربرا لسکوف کے زیرنگرانی تحقیقی مقالہ مکمل کرنے کے لیے میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( ایم آئی ٹی) میں داخلہ بھی مل گیا ہے۔ بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ارون کو اسٹینفرڈ یونی ورسٹی اور کورنل یونی ورسٹی کی جانب سے بھی پی ایچ ڈی کرنے کی پیش کش ہوئی تھی مگر اس نے ایم آئی ٹی کا انتخاب کیا اور وزارت دفاع کی جانب سے ناسا میں ملازمت کی پیش کش قبول کرلی۔

روزنامہ '' دی ہندو'' نے اس نوجوان 'سائنس داں' کا انٹرویو بھی کیا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ ناسا میں ریسرچ سائنٹسٹ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے خلائی مخلوق کا کھوج لگائے گا۔ انٹرویو کے دوران ارون نے کہا کہ اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اداروں میں کام کرنے سے کوئی دل چسپی نہیں۔ ارون نے سابق صدر اور انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سائنس داں عبدالکلام کو اپنی پسندیدہ شخصیت قرار دیا۔ ارون کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کرنے کے دوران اس نے عبدالکلام کے ساتھ باہمی دل چسپی کے موضوعات پر تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔

وزیراعظم نریندر مودی نے جب اپنے دیش کے اس ' جینیئس' اور ' محب وطن ' نوجوان کے بارے میں سنا تو وہ اس سے ملنے کے مشتاق ہوگئے اور ملاقات کے لیے اسے اپنی رہائش گاہ پر طلب کرلیا۔ وزیراعظم نے ارون سے یہ بھی کہا کہ بھارتی خلائی ادارے کے دروازے اس کے لیے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔

چند روز قبل یہ انکشاف ہوا ہے کہ ارون نہ تو ناسا کا ملازم ہے اور نہ ہی اسے خلائی ایجنسی کی جانب سے کبھی ایسی کوئی پیش کش ہوئی تھی۔ بھارت کا یہ ' قابل فخر' سپوت دو سال سے پوری قوم کو بے وقوف بنا رہا تھا۔ ارون کا بھانڈا کیرالا کی پولیس نے پھوڑا۔ کیرالا کے پولیس ڈپارٹمنٹ میں آن لائن دھوکا دہی کے کیس نمٹانے کے لیے ایک خصوصی شعبہ قائم ہے۔ مذکورہ شعبے کے اہلکار ارون کے دعووں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے ایم آئی ٹی پہنچے۔ وہاں ان پر انکشاف ہوا کہ یہاں ارون وجے کمار نامی کوئی بھارتی پی ایچ ڈی کا طالب علم نہیں ہے۔

مزید تفتیش کرنے پر انھیں یہ بھی علم ہوگیا کہ ناسا میں بھی اس نام کا کوئی شخص ملازم نہیں ہے۔ ارون کی اصلیت سامنے آنے کے بعد جہاں عام بھارتی اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں وہیں بھارتی ذرائع ابلاغ کی بے پروائی بھی سامنے آگئی ہے۔ پولیس کی تحقیقات کے بعد ارون نے بھی اعتراف کرلیا ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا، اور اس نے شہرت اور عزت حاصل کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں