کیا جمہوریت اسی کا نام ہے
سچ پوچھیے تو ہمارے یہاں جمہوریت کے دعوے دار جمہوری اقدار سے انحراف کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
وطن عزیز میں مہنگائی کا جو طوفان بلاخیز آیا ہوا ہے وہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ غریبوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہورہے ہیں جب کہ محدود آمدنی والے طبقوں کی گزر اوقات روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ منافع خوروں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی اور پرائس کنٹرول والے ادارے عملاً بے بس اور بالکل ناکام نظر آرہے ہیں۔
یوں کہنے کو تو حکومت نے ابھی حال ہی میں تیل کے نرخوں میں کمی کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کا اقدام کیا ہے لیکن ہوش ربا مہنگائی پر اس کے کوئی اثرات ابھی تک نظر نہیں آئے۔ ابھی حکومت کی جانب سے دی جانے والی اس ریلیف کے نتائج بھی سامنے نہیں آئے تھے کہ اس طرح کی پریشان کن خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ عنقریب گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جانے والا ہے۔ گویا:
مسکرانے بھی نہ پائے تھے کہ دنیا لوٹ لی
ابھی حکومت کی جانب سے بجلی کی اوور بلنگ کے انکشاف کے خلاف ہا ہا کار کی گونج ختم نہ ہونے پائی تھی کہ یہ ناخوشگوار اطلاعات آنا شروع ہوگئی ہیں کہ آیندہ ایک آدھ ماہ کے عرصے میں حکومت کی جانب سے گیس کے نرخوں میں تین سے پانچ گنا اضافہ متوقع ہے جس میں گھریلو صارفین بھی شامل ہوںگے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کے چرچے تو بہت ہیں لیکن جمہوریت کے نام لیوا خود جمہوریت سے اور جمہوری مزاج سے عاری ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہمارے یہاں جمہوریت کے دعوے دار جمہوری اقدار سے انحراف کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ خواہ کوئی لاکھ جھٹلانے کی کوشش کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ ہمارے فیوڈل اور سرمایہ دار سیاست دان جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان جس وقت آزاد ہوئے تھے اس وقت دونوں ممالک کا معاشی اور معاشرتی ڈھانچہ کم و بیش ایک جیسا تھا، جاگیرداری نظام دونوں جانب مسلط اور جاری تھا۔ لیکن ہندوستان کی دور اندیش سیاسی قیادت نے انقلابی قدم اٹھاکر جاگیرداری نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا جس کے نتیجے میں وہاں حقیقی جمہوریت کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا سدا کے لیے ہٹ گیا اور جنتا کے راج کا راستہ ہموار ہوگیا۔
بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکا جس کا خمیازہ ملک و قوم کو آج تک مختلف صورتوں میں بھگتنا پڑرہا ہے اور بے چارے عوام حکمران اشرافیہ کے غلام بنے ہوئے ہیں جن پر فرنگیوں کی Divide and Rule کی پرانی پالیسی کے تحت بے دھڑک حکمرانی کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام کو کبھی لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے تو کبھی علاقائی، مذہبی اور فقہی بنیادوں پر۔ سیاسی تقاضوں کے مطابق وقتاً فوقتاً طرح طرح کے شوشے چھوڑے جاتے رہتے ہیں تاکہ مسلسل استحصال کے شکار عوام آپس میں الجھے رہیں اور منظم اور متحد ہونے کے بجائے کسی نہ کسی بہانے سے ہم دست و گریباں رہیں۔
تھر گزشتہ دو سال سے باران رحمت سے محروم ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ بد ترین خشک سالی کا شکار ہے نہ انسانوں کے لیے خوراک ہے اور نہ جانوروں کے لیے چارہ، دونوں ہی بھوک سے بری طرح نڈھال ہیں اور نہ صرف نقاہت اور غذائی قلت کے باعث مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں بلکہ یکے بعد دیگرے لقمہ اجل بھی بن رہے ہیں۔ 19638 مربع کلو میٹر پر محیط تھر کا علاقہ انتہائی پسماندگی کا شکار ہے۔
یہاں کے لوگ تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے بری طرح محروم ہیں۔ بارش سے محرومی کی وجہ سے یہاں زراعت کا فروغ ممکن نہیں جب کہ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے مویشی پالنے کا پیشہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں صرف محنت مزدوری ہی تھر والوں کا واحد ذریعہ معاش ہے، تھر کے علاقے میں پینے کے پانی کی بھی شدید قلت ہے جس میں مارچ 2015 تک مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ قحط سالی سے بری طرح متاثر تھر پارکر کی تشویش ناک صورتحال صوبائی حکومت ہی کے لیے نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے لیے بھی ایک بہت بڑا اور انتہائی سنگین چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے جنگی پیمانے پر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔
دوسری جانب ہمارا زراعت کا شعبہ بھی حکومت کی ناقص پالیسیوں اور نا مناسب حکمت عملیوں کی وجہ سے طرح طرح کے مسائل میں الجھا ہوا ہے اور ہمارے محنت کش کسان بھائی جو مختلف فصلیں کاشت کرکے نہ صرف پورے ملک کے عوام کو خوراک فراہم کرتے ہیں بلکہ برآمدات کے ذریعے قیمتی زر مبادلہ بھی کماکر ملکی خزانے کو بھرتے ہیں۔ انتہائی بد حالی، کسمپرسی اور استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کی ناقص زرعی پالیسی کا اس سے بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہوگا کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں زرعی مداخل پر بھی جی ایس ٹی چارج کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے ملک میں بجلی، کھادوں اور زرعی ادویات کے نرخ بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں بھارت ہی کی مثال لے لیجیے جو ہمارا سب سے قریبی پڑوسی ملک ہے وہاں نہ صرف زرعی مداخل کی فراہمی رعایتیں قیمتوں پر کی جاتی ہے بلکہ بعض ریاستوں میں تو کسانوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کے لیے بجلی بھی مفت سپلائی جاتی ہے مگر ہمارے یہاں کاشت کار کا استحصال ہورہاہے اور اصل فائدہ مل مالکان، جاگیردار اور آڑھتی لوگ اٹھارہے ہیں۔ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے؟
یوں کہنے کو تو حکومت نے ابھی حال ہی میں تیل کے نرخوں میں کمی کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کا اقدام کیا ہے لیکن ہوش ربا مہنگائی پر اس کے کوئی اثرات ابھی تک نظر نہیں آئے۔ ابھی حکومت کی جانب سے دی جانے والی اس ریلیف کے نتائج بھی سامنے نہیں آئے تھے کہ اس طرح کی پریشان کن خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ عنقریب گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جانے والا ہے۔ گویا:
مسکرانے بھی نہ پائے تھے کہ دنیا لوٹ لی
ابھی حکومت کی جانب سے بجلی کی اوور بلنگ کے انکشاف کے خلاف ہا ہا کار کی گونج ختم نہ ہونے پائی تھی کہ یہ ناخوشگوار اطلاعات آنا شروع ہوگئی ہیں کہ آیندہ ایک آدھ ماہ کے عرصے میں حکومت کی جانب سے گیس کے نرخوں میں تین سے پانچ گنا اضافہ متوقع ہے جس میں گھریلو صارفین بھی شامل ہوںگے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کے چرچے تو بہت ہیں لیکن جمہوریت کے نام لیوا خود جمہوریت سے اور جمہوری مزاج سے عاری ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہمارے یہاں جمہوریت کے دعوے دار جمہوری اقدار سے انحراف کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ خواہ کوئی لاکھ جھٹلانے کی کوشش کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ ہمارے فیوڈل اور سرمایہ دار سیاست دان جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان جس وقت آزاد ہوئے تھے اس وقت دونوں ممالک کا معاشی اور معاشرتی ڈھانچہ کم و بیش ایک جیسا تھا، جاگیرداری نظام دونوں جانب مسلط اور جاری تھا۔ لیکن ہندوستان کی دور اندیش سیاسی قیادت نے انقلابی قدم اٹھاکر جاگیرداری نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا جس کے نتیجے میں وہاں حقیقی جمہوریت کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا سدا کے لیے ہٹ گیا اور جنتا کے راج کا راستہ ہموار ہوگیا۔
بد قسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکا جس کا خمیازہ ملک و قوم کو آج تک مختلف صورتوں میں بھگتنا پڑرہا ہے اور بے چارے عوام حکمران اشرافیہ کے غلام بنے ہوئے ہیں جن پر فرنگیوں کی Divide and Rule کی پرانی پالیسی کے تحت بے دھڑک حکمرانی کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام کو کبھی لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے تو کبھی علاقائی، مذہبی اور فقہی بنیادوں پر۔ سیاسی تقاضوں کے مطابق وقتاً فوقتاً طرح طرح کے شوشے چھوڑے جاتے رہتے ہیں تاکہ مسلسل استحصال کے شکار عوام آپس میں الجھے رہیں اور منظم اور متحد ہونے کے بجائے کسی نہ کسی بہانے سے ہم دست و گریباں رہیں۔
تھر گزشتہ دو سال سے باران رحمت سے محروم ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ بد ترین خشک سالی کا شکار ہے نہ انسانوں کے لیے خوراک ہے اور نہ جانوروں کے لیے چارہ، دونوں ہی بھوک سے بری طرح نڈھال ہیں اور نہ صرف نقاہت اور غذائی قلت کے باعث مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں بلکہ یکے بعد دیگرے لقمہ اجل بھی بن رہے ہیں۔ 19638 مربع کلو میٹر پر محیط تھر کا علاقہ انتہائی پسماندگی کا شکار ہے۔
یہاں کے لوگ تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے بری طرح محروم ہیں۔ بارش سے محرومی کی وجہ سے یہاں زراعت کا فروغ ممکن نہیں جب کہ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے مویشی پالنے کا پیشہ بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں صرف محنت مزدوری ہی تھر والوں کا واحد ذریعہ معاش ہے، تھر کے علاقے میں پینے کے پانی کی بھی شدید قلت ہے جس میں مارچ 2015 تک مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ قحط سالی سے بری طرح متاثر تھر پارکر کی تشویش ناک صورتحال صوبائی حکومت ہی کے لیے نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے لیے بھی ایک بہت بڑا اور انتہائی سنگین چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے جنگی پیمانے پر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔
دوسری جانب ہمارا زراعت کا شعبہ بھی حکومت کی ناقص پالیسیوں اور نا مناسب حکمت عملیوں کی وجہ سے طرح طرح کے مسائل میں الجھا ہوا ہے اور ہمارے محنت کش کسان بھائی جو مختلف فصلیں کاشت کرکے نہ صرف پورے ملک کے عوام کو خوراک فراہم کرتے ہیں بلکہ برآمدات کے ذریعے قیمتی زر مبادلہ بھی کماکر ملکی خزانے کو بھرتے ہیں۔ انتہائی بد حالی، کسمپرسی اور استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کی ناقص زرعی پالیسی کا اس سے بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہوگا کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں زرعی مداخل پر بھی جی ایس ٹی چارج کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے ملک میں بجلی، کھادوں اور زرعی ادویات کے نرخ بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں بھارت ہی کی مثال لے لیجیے جو ہمارا سب سے قریبی پڑوسی ملک ہے وہاں نہ صرف زرعی مداخل کی فراہمی رعایتیں قیمتوں پر کی جاتی ہے بلکہ بعض ریاستوں میں تو کسانوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کے لیے بجلی بھی مفت سپلائی جاتی ہے مگر ہمارے یہاں کاشت کار کا استحصال ہورہاہے اور اصل فائدہ مل مالکان، جاگیردار اور آڑھتی لوگ اٹھارہے ہیں۔ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے؟