’گو نواز گو‘ کے بعد

عمران نے گو نواز گو کا نعرہ اس زور کے ساتھ لگایا اور ایسے جذبے اور شوق کے ساتھ کہ وہ بچے بچے کی زبان پر آ گیا۔


Abdul Qadir Hassan November 11, 2014
[email protected]

ہمارے پرجوش لیڈر عمران خان نے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف کے بارے میں نعرہ لگایا۔ ''گو نواز گو'' اردو میں جاؤ نواز جاؤ۔ اس کا پنجابی میں بھی ترجمہ ہو سکتا ہے لیکن وہ مناسب نہیں ہوگا۔ نعرہ لگانے اور سننے والے دونوں پنجابی ہیں اس لیے وہ خود ہی اپنی پسند کے مطابق اس کا پنجابی ترجمہ کر لیں اور خوش ہو جائیں۔

عمران نے گو نواز گو کا نعرہ اس زور کے ساتھ لگایا اور ایسے جذبے اور شوق کے ساتھ کہ وہ بچے بچے کی زبان پر آ گیا۔ مائیں بھی اپنے بچوں کو لوری دیتے وقت اسے گو نواز گو سے شروع کرتی تھیں۔ ایوب خان کے بارے میں بھی ایک نعرہ مشہور ہوا تھا اور جب اس شریف انسان نے اپنے معصوم بچوں سے سنا کہ وہ صحن میں کھیلتے ہوئے ایوب کتا ایوب کتا کہہ رہے ہیں تو اس نے اندر کمرے میں جا کر اقتدار سے استعفیٰ لکھ دیا لیکن اب زمانہ بہت بدل چکا ہے اور سیاسی نعروں کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا جاتا۔ عمران نے جو نعرہ لگایا تھا۔

اس کے شور سے شاید خود عمران خان بھی تنگ آ گیا کہ اس نے اس نعرے سے جان چھڑا لی اور اسے پاکستانی اسٹائل میں ایک کمیشن کے حوالے کر دیا ہے جو اپنے موڈ کے مطابق کوئی فیصلہ کرے گا یا وہ بھی نہیںکرے گا اور اسے دوسرے لاتعداد کمیٹیوں اور کمشنوں کے قبرستان میں دفن کر کے اس کی قبر پر پھول چڑھا لے گا۔ عمران نے کہا ہے کہ البتہ اس کمیشن کی تحقیقات مکمل ہونے تک دھرنا تو جاری رہے گا لیکن نواز شریف بیشک مستعفی نہ ہوں یعنی گو نواز گو واپس۔

ایک آدمی جو تیسری بار وزیراعظم بنا ہے اور اس نے سیاسی حالات کو قابو کر کے ایک ریکارڈ قائم کر لیا ہے کیا وہ کسی ہوائی نعرے پر وزارت عظمیٰ جیسے منصب سے بلاتکلف اور بلا تامل مستعفی ہو جائے گا یہ کوئی بے قرار لیڈر ہی سوچ سکتا ہے۔

درست کہ میاں صاحب ایک بہت ہی بری حکومت کے سربراہ ہیں لیکن ایسی حکومت کو بھی وہ اتنی آسانی کے ساتھ کیسے چھوڑ سکتے ہیں جب تک عوام حکومت کو الیکشن پر مجبور نہ کر دیں یا فوج نہ آ جائے جو ان دنوں زیادہ ضروری خدمت میں مصروف ہے۔ مطالبہ تو کوئی سیاستدان کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن یہ کام ذرا دیکھ بھال کر کیا جائے تو مناسب ہوتا ہے کہ عزت بھی بچ جاتی ہے سیاست بھی مجروح نہیں ہوتی اور مخاطب کو ضرب شدید بھی لگ جاتی ہے۔ عمران خان کے مشیر کون ہیں مجھے معلوم نہیں کیونکہ عمران نے ہمارے بعض دوستوں کو اپنے سے دور کر دیا ہے اور یہی ہمارا منہ پھٹ اور قلم پھٹ سورس تھے۔ عمران خان کے قرب و جوار میں یعنی جلسوں کی اسٹیج پر جو دو چار سیاستدان ان کے دائیں بائیں دکھائی دیتے ہیں تو وہ سب بظاہر سیاستدان لیکن حالات کی ناسازگاری نے انھیں پژمردہ کر رکھا ہے اور وہ عمران خان کو دیکھ دیکھ کر اپنا مستقبل تلاش کرتے رہتے ہیں خود کچھ ہوتے تو اس طرح جلسوں کی رونق کے کام نہ آتے۔

ان میں بعض بڑے دولت مند ہیں اور سابقہ سیاسی عہدہ دار بھی یعنی وزیر وغیرہ بھی مگر ان کی سیاسی فراست ایسی نہیں کہ ایک نو آموز سیاستدان کی رہنمائی کر سکیں کامیابی کے راستے کی طرف۔ ایک نیک نام اور گرم و سرد چشیدہ سیاستدان جاوید ہاشمی تھا لیکن وہ بھی اس سے دور چلا گیا۔ اب تو جو لوگ ہیں وہ عمران کی مدد سے اگر اپنے آپ کو ہی بچا سکیں تو بڑی بات ہے اور وہ عمران خان کے لیے نہیں اپنے لیے اس کے ساتھ ہیں اور صحیح کر رہے ہیں۔ امام الہند مولانا آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا تو کسی دوسرے دانشور نے اس پر اضافہ کیا کہ سیاست کی آنکھ میں بھی شرم و حیا نہیں ہوتی۔ یہ نفسا نفسی اور خود غرضی کا کھیل ہے اور سیاستدان اپنے آشیانے بدلتے رہتے ہیں اور کسی سر سبز شاخ کی تلاش میں رہتے ہیں۔

بات عمران خان کے مشہور و معروف نعرے 'گو نواز گو' سے شروع ہوئی تھی جو اب عمران خان نے کسی کمیشن کے حوالے کردیا ہے اور میاں صاحب کو اجازت دے دی ہے کہ وہ اپنی وزارت عظمیٰ پر قائم رہ سکتے ہیں۔ میاں صاحب نے سکھ کا سانس لیا ہوتا۔ میں نے میاں صاحب کو اس نعرے کے آغاز اور اب اس کے اختتام پر نہیں دیکھا لیکن اس وقت ان کے صاحب اور ملازم مشیر اپنی کامیابی کے نعرے لگائیں تو میاں صاحب ان سب کو کسی قطار میں کھڑا کر کے کچھ وقت کے لیے بھول جائیں اور جب یہ تھک کر گرنے لگیں تو ان سے پوچھیں کہ انھوں نے کیا کیا ہے جس پر وہ پھولے نہیں سماتے۔

ان کے نامور ساتھی ان کے وزیر اطلاعات ہیں جن کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے کبھی ان سے خوش ہو کر انھیں گال پر چوم لیا تھا۔ یہ میاں صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ان سب حواریوں کے باوجود ڈیڑھ دو سال نکال گئے ہیں اور ابھی جاری ہیں۔ ایک عجیب بات ان سے منسوب کی گئی ہے کہ وزیراعظم کا کام ملک چلانا ہے کاروبار کرنا نہیں ہے۔

اس بات پر تبصرہ فی الحال ملتوی کہ پہلے اس کی تصدیق کر لیں کہ کتنی ہی خبریں ان دنوں بلا تصدیق ہی چلا دی جاتی ہیں۔ ایک ایڈیٹر جب کسی دلچسپ خبر کو دیکھتا تو رپورٹر سے اس کی تصدیق کیا کرتا اگر تسلی نہ ہوتی تب بھی کہتا کہ پھر بھی چھاپ دیں قارئین خوش ہوں گے اور تردید آئی تو وہ بھی کسی کونے میں چھاپ دیں گے۔ میاں صاحب سے منسوب اس خبر کی تصدیق ہوتی ہے تو ہمارے جیسے لوگ خوش ہوں گے کہ وہ میاں صاحب سے شروع سے ہی یہی بات کہہ رہے ہیں کہ ان کا اصل کام ملک چلانا ہے کاروبار کرنا نہیں۔ ابن خلدون کی بے مثل مانی جانے والی کتاب 'مقدمہ تاریخ' میں اس نے کہا ہے کہ کسی کاروباری اور تاجر کو اقتدار مت دو۔

آج میاں صاحب اگر کاروبار اور تجارت سے توبہ تائب ہوتے ہیں تو اپنی ایک بنیادی غلطی کی تصحیح کر کے مطمئن ہوں گے اور ہم لوگ بھی جو ان کو ایک حکمران سمجھتے ہیں دکاندار نہیں سمجھتے اور اب تو وہ گو نواز گو سے بھی بری ہو گئے ہیں اور یہ نعرہ کہیں الٹا ہو کر اس کے بانی کے پلے نہ پڑ جائے۔ خدا خیر کرے سیاست میں کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں