گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

ملک کے اندر اور ملک کے باہر سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ ہم آئین سے ماورا کسی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

قوموں کی زندگی میں بعض وقت ایسے مواقع آتے ہیں کہ ان مواقعوں کا درست اور مثبت استعمال کیا گیا تو قوموں کی زندگی اور ان کا مستقبل تابناک ہوجاتا ہے، پاکستان کی 67 سالہ زندگی میں ایک ایسا ہی موقع آیا ہے کہ اگر عوام اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو ان کا ہمیشہ سے تاریک رہنے والا حالی ایک تابندہ مستقبل میں بدل سکتا ہے۔

میں اور مجھ جیسے بے شمار لوگ جو اس ملک اور ملک کے عوام کی غلامانہ زندگی کو ایک آزاد اور آسودہ زندگی میں بدلنے کے لیے عشروں سے ہر محاذ پر جد وجہد کررہے ہیں عوام میں وہ ابھار وہ خواہش سسٹم کو بدلنے کی وہ تڑپ پیدا نہ کرسکے جو ایک استحصالی سسٹم کو بدلنے کے لیے ناگزیر ہوتی ہے اسے اتفاق کہیں یا خوش قسمتی کہ 67 سال میں پہلی بار عوام میں اس منافقانہ سسٹم کو بدلنے کی ایسی خواہش، ایسی تڑپ پیدا ہوگئی ہے جسے درست سمت میں مہمیز کیا جائے تو کوئی طاقت عوام کی اس خواہش کو ناکام نہیں بناسکتی۔

اس مرحلے پر اصلی سوال یہ ہے کہ عوام سیاسی جماعتیں دانشور، قلمکار اس صورت حال کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟ ہماری انفرادی، اجتماعی اور جماعتی بد قسمتی یہ ہے کہ اس انقلابی صورت حال کو ہم فرد افراد اور جماعتوں کے حوالے سے ہی دیکھ رہے ہیں اور اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ یہ صورت حال محض فرد افراد اور جماعتوں کا مسئلہ نہیں رہی بلکہ اب یہ پوری قوم ملک کے بہتر یا بد تر مستقبل کا مسئلہ بن گئی ہے۔

وہ سیاسی جماعتیں، وہ سیاسی رہنما، وہ دانشور، معزز اہل قلم، اہل علم جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس ظالمانہ غیر منصفانہ نظام کی پرورش اور حفاظت کرتے آرہے ہیں ان کا فرض منصبی تو یہی ہے کہ وہ اس خطرناک صورت حال کو کسی نہ کسی طرح ناکام بنادیں، جو ان کے اور ان کے آقاؤں کے طبقاتی مفادات کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہی ہے لیکن وہ افراد وہ جماعتیں، دانشور، قلم کار جو اس استحصالی، نامنصفانہ نظام کی تبدیلی کو ناگزیر سمجھتے ہیں ان کا اس موقع پر خاموش رہنا غیر جانبدار رہنا یا وقت واحد میں دو کشتیوں پر سوار رہنا ایک ایسا اخلاقی اور نظریاتی جرم ہے جسے آنے والی نسلیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ صورت حال عوام میں تبدیلی کی یہ خواہش، سسٹم کو تبدیل کرنے کی یہ تڑپ، دو جماعتوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور اس حوالے سے سیاسی رہنما، اہل علم، اہل دانش، اہل قلم اس صورت حال کو دیکھ کر اس کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے تبدیلیوں کا یہ موقع ہاتھ سے جاتا نظر آرہاہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس نظام کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے اس جمہوریت کو کاروباری جمہوریت اس نظام کو کرپٹ ترین نظام کہتے ہیں، انتخابات کو ایسی صنعت کہتے ہیں۔


جس میں سرمایہ کاری لا محدود منافع کی ضمانت ہے ایسے ناقدین جب چوروں،ڈاکوؤں، لٹیروں کی صف میں کھڑے ہوکر جمہوریت اور سسٹم کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کا اعلان کرتے ہیں تو عوام ایسے منافقت کے علاوہ کیا نام دے سکتے ہیں۔جو افراد جو جماعتیں اس سڑے گلے از کار رفتہ نا منصفانہ نظام کو بدلنے کی خواہش کا عشروں سے اظہار کررہی ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ ایسی صورت حال پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں جو آج ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نظر آرہی ہے۔

کیا اس صورت حال کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ یا اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ صورتحال اس بد دیانتانہ لوٹ مار کے نظام کو گرانے کے لیے آئیڈیل ہے اور اس صورت حال کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس کی حمایت اس کا حصہ بننا چاہیے؟ جو تبدیلی کے اس عمل میں شریک ہوگا وہ نہ صرف عوام کے بہتر مستقبل کے عمل میں شریک ہوگا بلکہ اس کے آیندہ بہت بڑے سیاسی فوائد حاصل ہوسکیں گے۔

یہ ہوسکتا ہے کہ اس ماحول ان حالات کو پیدا کرنے والوں سے بعض غلطیاں سر زد ہوئی ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تبدیلیوں کے دعویدار ان غلطیوں کے حوالے سے ان حالات کی مخالفت کریں گے؟ یہ بھی کہا جارہاہے کہ یہ حالات پیدا کرنے والوں کی نظر اقتدار پر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر ہے۔ یہ خیال درست ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس سیاسی رہنما، مذہبی رہنما، سیاسی جماعت، مذہبی جماعت کی نظر اقتدار اور وزارت عظمیٰ کی کرسی پر نہیں ہوتی؟ ہر سیاسی رہنما،سیاسی جماعت، مذہبی رہنما، مذہبی جماعت، رجعت پسند جماعت، لبرل جماعت کی ہر کوشش و جد وجہد کا آخری مقصد حصول اقتدار ہی ہوتا ہے اور 67 سال سے جمہوریت، جمہوری نظام، آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے جو لوگ جو جماعتیں اس نظام کا حصہ بن رہی ہیں کیا انھوں نے اس جمہوریت، اس نظام کے خلاف عوام میں ایسی ہلچل، ایسی بے چینی پیدا کی ہے، جو آج دیکھی جارہی ہے؟

اگر اس استحصالی عوام دشمن نظام کو تبدیل کرنے کے لیے سیاسی رہنما، سیاسی جماعتیں مخلص ہوتیں تو اسی وقت اس تحریک کا حصہ بن جاتیں جب یہ تحریک پیک پر تھی اور حکمرانوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور اس بد دیانتانہ نظام کو بچانے کے لیے اس نظام کے حامی اور رکھوالے تیسری اور چوتھی قوتوں کی طرف دوڑ لگارہے تھے اگر بروقت اس تحریک کو سیاسی حمایت مل جاتی تو نہ کوئی قوت اس تحریک کا رخ موڑ سکتی تھی نہ کوئی حکمران اس تحریک کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوسکتا تھا اس کمزوری کو کیا غفلت کا نام دیا جاسکتا ہے؟ یا موقع پرستی کہا جاسکتا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کا جوش و جذبہ اب بھی برقرار ہے یہ جوش و جذبہ کسی فرد یا افراد کے لیے نہیں بلکہ اس واہیات نظام کی تبدیلی کے لیے ہے جو 67 سال سے عوام کے گلے میں غلامی کا طوق بنا ہوا ہے۔

اس عوام دشمن نظام کے حامی اور رکھوالے ان رہنماؤں پر الزامات اور تضحیک کی یلغار کیے ہوئے ہیں جنھیں وہ اس نظام کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں جس کا مقصد عوام میں نظریاتی انتشار پیدا کرنا، عوام میں مایوسی پیدا کرنا ہے، اس عوام دشمن نظام کی حمایت ملک کے اندر رہنے والے عوام دشمن ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کا وہ حکمران طبقہ بھی کہہ رہا ہے جو اس نظام کا حامی اور محافظ ہے اور اس حمایت کا فائدہ صرف ان قوتوں کو ہورہاہے جو 67 سال سے اس نظام کے فوائد سے اپنی جھولیاں بھررہے ہیں اور ملک کے اندر اور ملک باہر اربوں ڈالر اور اربوں ڈالر کی جائیدادیں رکھے ہوئے ہیں۔

ملک کے اندر اور ملک کے باہر سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ ''ہم آئین سے ماورا کسی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے۔'' جس کا مطلب موجودہ منافقانہ، ظالمانہ نظام کو بچانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ 1968 کی ماورائے آئین تبدیلی کو چھوڑیے 1977 کی ماورائے آئین تبدیلی پر نظر ڈالیے اندرونی طور پر اس ماورائے آئین تبدیلی لانے والے وہی 9 ستارے تھے جو آج 11 ستاروں کی شکل میں ماورائے آئین تبدیلی کو حرام قرار دے رہے ہیں اور بیرونی طور پر وہی طاقتیں آج ماورائے آئین تبدیلی کی مخالفت کررہی ہیں جو 1977 میں ماورائے آئین تبدیلی کے لیے ڈالروں کی گنگا بہارہی تھیں۔ یہ وقت تماشا دیکھنے کا نہیں بلکہ عوام میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی خواہش کو تبدیلیوں کا حصہ بن کر مہمیز کرنے کا ہے کیوں کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔ اپنے پیچھے افسوس اور شرمندگی چھوڑ جاتا ہے۔
Load Next Story