عمرانی دھرنا بے نتیجہ کیوں

تنہا پرواز کرنے کی جوعاقبت نااندیشانہ حکمت عملی عمران خان نےخیبرپختون خوا میں اختیار کی،وہی پھرپنجاب میں بھی دہرا دی۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

طاہر القادری کی طرح، عمران خان کا دھرنا بھی بظاہر ناکام ہو چکا ہے۔ محرم الحرام سے پہلے گجرات جلسہ میں انھوں نے اعلان کیا کہ 30 نومبر کو ان کے کارکن دوبارہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور شاہراہ دستور پر آزادی دھرنا کو تازہ دم کر یں گے۔ اس پر تحریکی کارکنوں اور حامیوں میں جوش و خروش کی جو لہر از سر نو پیدا ہو گئی، انھوں نے یہ کہہ کر اسے خود ہی سرد کر دیا کہ 'نیا پاکستان' اب اگلی عید تک ظہور پذیر ہو گا ۔

دوسرے لفظوں میں 30 نومبر یا اس کے فوراً بعد بھی ان کو نواز شریف یا شہباز شریف حکومت کے ختم ہونے کی امید نہیں۔ جب وہ خود اتنے ناامید ہو چکے ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے کارکن اور حامی کتنے 'پر امید' ہوں گے۔ حقیقتاً، طاہر القادری کے دھرنا سے اٹھ جانے اور 'انقلاب' کی ری کنڈیشنگ کے لیے واپس کینیڈا جانے کے بعد عمران خان کا دھرنا، جو پہلے ہی جز وقتی تھا، مزید اضمحلال کا شکار ہو چکا ہے، اور ان کی اگر یہ خواہش تھی کہ وہ نواز شریف حکومت کے خلاف بلا شرکت غیرے دھرنا دیں، تو طاہر القادری اور چوہدری برادران نے پیچھے ہٹ کر ان کی یہ خواہش پوری کر دی ہے۔ اب عمران خان ہیں، ان کا دھرنا ہے، اور حکومت ہے۔ اسلام آباد میں عمرانی دھرنا، عمران خان کی روزافزوں مقبولیت اور ان کے کارکنوں کی بے نظیر استقامت کے باوجود اب تک بے نتیجہ کیوں رہا ہے، آئیے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

27 جون کو عمران خان نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے اور پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کیا تو توقع کی جا رہی تھی کہ جلد یا بدیر خیبرپختون خوا میں ان کے اتحادی سراج الحق بھی ان کے شانہ بہ شانہ ہوں گے۔ سراج الحق خیبر پختون خوا حکومت میں وزیر خزانہ تھے، جب جماعت اسلامی کے امیر منتخب کر لیے گئے۔ قبل ازیں2013ء میں سراج الحق کی ذاتی دلچسپی سے ہی خیبرپختون خوا میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے باہمی مفاہمت کے تحت الیکشن میں حصہ لیا تھا، ورنہ عمران خان تنہا پرواز کی طرف ہی مائل نظر آتے تھے ۔

یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں اگر الیکشن سے پہلے مفاہمت نہ ہوتی، یا اگر الیکشن کے بعد جمعیت علمائے اسلام ( ف ) کی طرح جماعت اسلامی بھی تحریک انصاف کی مخالفت پر کمربستہ ہو جاتی تو آج خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہونا تھی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ تحریک انصاف اگر پنجاب میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کر رہی تھی تو جماعت اسلامی، سندھ میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف الیکشن کا بائیکاٹ کر چکی تھی۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے 4 حلقوں میں دوبارہ گنتی اور انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کیا تو جماعت اسلامی نے اس کی بھی حمایت کی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا، اس کے بعد حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے اور دھرنا دینے کے حوالہ سے تحریک انصاف، جماعت اسلامی سے بامقصد مشاورت کرتی، لیکن مشاورت تو دور کی بات، تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو اعتماد میں لینے کی ضرورت بھی نہ سمجھی۔ انھی دنوں ایک تقریب کے دوران میں جب اس کالم نگار نے سراج الحق سے استفسار کیا کہ الیکشن میں دھاندلیوں کی شکایت آپ کو بھی ہے، تو کیا آپ عمران خان کے لانگ مارچ اور دھرنا میں شریک ہو ں گے؛ تو ان کا کہنا تھا، جب عمران خان اور تحریک انصاف نے ان سے مشاورت ہی نہیں کی، تو وہ اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا کے حوالہ سے عمران خان کے ذہن میں 2009 ء کا نواز شریف کا لانگ مارچ تھا، جب نوازشریف نے قاضی حسین احمد اور عمران خان کو اپنے ساتھ لانگ مارچ کی قیادت میں شریک نہیں کیا تھا تا کہ بعد کو کوئی ان کے کریڈٹ میں حصہ دار نہ بن سکے۔ نوازشریف حکومت کے خلاف خیبر پختون خوا سے سراج الحق کو ساتھ لے کر نہ نکلنا دھرنا تحریک میں عمران خان کی پہلی غلطی تھی۔

تنہا پرواز کرنے کی جو عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی عمران خان نے خیبرپختون خوا میں اختیار کی ، وہی پھر پنجاب میں بھی دہرا دی۔ پنجاب میں عمران خان کے بعد یہ چوہدری برادران تھے، جنہوں نے الیکشن 2013 ء کو دھاندلی زدہ قراردیا تھا اور کہا تھا کہ ایک سوچے سمجھے انتخابی منصوبے کے تحت مسلم لیگ ق کو پنجاب سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب میں انتخابی دھاندلیوں سے متعلق عمران خان اور چوہدری پرویزالٰہی کے موقف میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں تھا۔


اس طرح طاہر القادری الیکشن 2013 ء کو دھاندلی زدہ ہی نہیں، خلاف آئین بھی قرار دیتے تھے۔ ان کی تجویز یہ تھی کہ نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا کا اعلان، وہ اور عمران خان مشترکہ پریس کانفرنس میں کریں، لیکن عمران خان نے نہ صرف یہ کہ طاہر القادری کی یہ تجویز حقارت سے رد کر دی، بلکہ چوہدری برادران سے براہ راست رابطے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ چوہدری برادران نے یہ کوشش اپنے طور پر کی کہ طاہر القادری اور عمران خان اکٹھے لانگ مارچ اور دھرنا کے لیے روانہ ہوں کہ اس طرح ان کی راہ میں حکومت کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکتی تھی۔

ورنہ عمران خان نے تو 14 اگست کو عین اس وقت بھی طاہر القادری اور ان کے کارکنوں کی مدد کے لیے پہنچنے سے انکار کر دیا تھا، جب وہ ماڈل ٹاون میں محصور ہو چکے تھے اور بظاہر ان کا انقلاب مارچ کے لیے روانہ ہونا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ حالانکہ بعد میں یہی کارکن تھے، جو31 اگست کو پولیس آپریشن کے دوران تحریک انصاف کے کارکنوں کے بکھر جانے پر عمران خان کے کنٹینر کی حفاظت کر تے رہے تھے۔ تحریک انصاف نے مگر اس کا بدلہ اس طرح چکایا کہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پی ٹی وی بلڈنگ پر حملہ کی مکمل ذمے داری عوامی تحریک کے کارکنوں پر عائد کر دی۔

یوں، باوجود انتخابی دھاندلیوں پر یکساں موقف کے، عمران خان، طاہر القادری اور چوہدری برادران کو بھی ساتھ لے کر نہ چل سکے۔ اندیشہ ان کو یہ تھا کہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے سے نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا کا فائدہ ان کے طاہرالقادری اور چوہدری برادران کو بھی پہنچ جائے گا اور ان کی 'وزارت عظمیٰ خطرے میں پڑ جائے گی۔ نواز شریف حکومت کے خلاف پنجاب میں چوہدری برادران اور طاہر القادری سے مل کر نہ چلنا، دھرنا تحریک میں عمران خان کی دوسری غلطی تھی۔

عمران خان نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ن لیگ کے اپوزیشن ہونے کا دعویٰ اس بنا پر مسترد کر دیا تھا، بلکہ اسے مذاق بنا کے رکھ دیا تھا کہ ن لیگ کے پاس صوبہ پنجاب کی حکومت ہے۔ عمران خان کا استدلال یہ تھا کہ کیسے ممکن ہے، ایک پارٹی ایک ہی وقت میں حکومت بھی ہو اور اپوزیشن میں بھی۔ لیکن، 2013ء کے بعد عمران خان نے بعینہ نواز شریف کی حکمت عملی اختیار کی، یعنی حکومت میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی، خیبر پختون خوا میں حکومت اور اسلام آباد میں اپوزیشن۔ ان کا یہ اندرونی تضاد شاہراہ دستور پر دھرنا کے دوران اس وقت مزید نمایاں ہو کر سامنے آیا، جب انھوں نے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان تو کر دیا، لیکن خیبر پختون خوا حکومت توڑنے، یا خیبر پختون خوا اسمبلی تحلیل کرنے کی ''غلطی'' نہیں کی۔اسمبلیوں سے تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ عملاً مذاق بن کے رہ گیا ہے ۔

تحریک انصاف کے ارکان کہتے ہیں کہ علیحدہ علیحدہ اسپیکر قومی اسمبلی، اسپیکر پنجاب اسمبلی سے نہیں ملیں گے، ادھر اسپیکر کہتے ہیں کہ وہ علیحدگی میں مل کر ہی یہ تصدیق کر سکیں گے کہ آیا استعفے رضاکارانہ طور پر دیے گئے ہیں یا جبری طور پر لیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے مستعفی ارکان کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حاضر ہو کر سابق صدر جاوید ہاشمی کی طرح استعفوں کی تصدیق کرانے کا راستہ موجود ہے، لیکن یہ راستہ بھی اختیار نہیں کیا جا رہا۔ لطف یہ ہے کہ استعفے جمع کرا دینے کے باوجود تحریک انصاف کے متعدد ارکان نہ صرف یہ کہ ماہوار تنخواہیں وصول کر رہے ہیں بلکہ دیگر مراعات سے بھی بہرہ مند ہو رہے ہیں۔

پرویز خٹک، جو چند روز پہلے تک دھرنا میں 'گو نواز گو' پر خٹک ڈانس کرتے پائے جاتے تھے، اب انھی نواز شریف کی زیر صدارت سرکاری اجلاسوں میں دوبارہ سے شرکت کر رہے ہیں۔ ادھر عمران خان سراج الحق کے پاس جا پہنچے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ نواز شریف حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ کہاں وہ دن تھے کہ سراج الحق، عمران خان کے پیچھے بھاگ رہے تھے، کہاں یہ دن ہیں کہ عمران خان کو سراج الحق کے پاس چل کے جانا پڑ رہا ہے۔ وفاقی حکومت کے خلاف تحریک چلانا اور خیبرپختون خوا میں حکومت کرنا، یہ دہری پالیسی عمرانی دھرنا کی ناکامی میں ایک اہم عامل ثابت ہوئی ہے۔

قصہ کوتاہ یہ کہ نواز شریف حکومت کے خلاف عمرانی دھرنا اگر ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا ہے، یا کل کلاں طاہرالقادری کے دھرنا کی طرح بالکل تحلیل ہو جاتا ہے، تو اس کی وجہ عمران خان کی سولو فلائیٹ کی اسٹرٹیجی کے سوا کچھ اور نہیں ہو گی۔ عمران خان اگر اپنے دھرنا کو نتیجہ خیز بنانے میں کچھ بھی سنجیدہ ہیں تو ان کو سولو فلائیٹ کی اسٹرٹیجی فی الفور ترک کر کے حکومت کے اتحاد سے باہر اپوزیشن کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو متحد کرنا ہو گا۔ اپوزیشن کی سیاست میں تنہا پرواز کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو جائے، انجام اس کا مایوسی اور اداسی ہی ہوتا ہے ۔ شاعر نے کہا تھا ؎

کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
Load Next Story