علما کا اتحاد و مذہبی رواداری

ہمیں تاریخ کے میر جعفر و میر صادق جیسے کرداروں کو پہچاننا ہوگا جو ہمارے اندر ہی فساد و فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔


حشمت اللہ صدیقی November 11, 2014

NIDDERAU, GERMANY: محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی اسلامی سال نو کی ابتدا ہوچکی ہے، اس کی حرمت و تقدس پر آغاز اسلام سے ہی امت کا ہمیشہ اتفاق و اجماع رہا ہے، یہ مہینہ ہمیں اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں و سازشوں کے خلاف دی گئی عظیم شہادتوں کی یاد دلاتا ہے جو اسلامی تاریخ کا سنہرا باب ہے، اسلام کے خلاف سازشوں کا یہ سلسلہ اولین دور سے ہی جاری ہے ان سازشوں میں اسلام دشمن عناصر کا سب سے کامیاب حربہ فرقہ واریت، عصبیت، باہمی نااتفاقی، افتراق و انتشار رہا ہے جس کے ذریعے امت کی وحدت و اجتماعیت کو پارہ پارہ کرکے اسلامی سلطنتوں کو تباہ و برباد کیا گیا المیہ یہ ہے کہ ان سازشوں کی تکمیل کے لیے آلہ کار بھی نام نہاد مسلمان ہی بنے۔

سقوط اندلس و غرناطہ، سقوط بغداد، سلطنت عثمانیہ، مغلیہ سلطنت اور سقوط مشرقی پاکستان کے بعد عالمی سطح پر آج بھی شام، عراق، افغانستان، پاکستان و دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی کھیل جاری ہے کہیں مذہبی فرقوں کا جھگڑا پیدا کیا جا رہا ہے، کہیں لسانی و مذہبی دہشت گردی کو ہوا دی جارہی ہے، دہشت گردی کو اسلامی ممالک میں برآمد کرکے اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، وطن عزیز کی سرزمین بھی آج انھی سازشوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔

اس کا چہرہ بھی فرقہ واریت، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، لسانی و علاقائی تعصبات کے ذریعے داغدار کیا جا رہا ہے حالانکہ اس ملک کے بانی قائد اعظم نے ایک صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ شیعہ ہیں یا سنی، یہ کہہ کر فرقہ و مسلک کی جڑ کاٹ دی تھی کہ کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیعہ تھے یا سنی؟ وہ صرف مسلمان تھے اور میں بھی مسلمان ہوں۔ ہمیں قائد کے اس دو ٹوک جواب سے سبق ملتا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ امت کے اجتماعی مفاد میں مسلک و فقہ سے خود کو بلند رکھیں اور مسلک و فقہ کی بنیاد پر آپس میں لڑانے والوں سے ہوشیار رہیں جو اس کی آڑ میں مسلم ممالک خصوصاً پاکستان کے خلاف خوفناک سازشوں میں مصروف ہیں، اگر ان سازشوں کے قلع قمع کے لیے بروقت اقدام نہ کیا گیا تو وطن عزیز کا بھی ماضی کی اسلامی سلطنتوں جیسا (خدانخواستہ) حال نہ ہوجائے کہ:

تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں

ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں بھسم ہونے سے ہر قیمت پر محفوظ رکھنے کے لیے میدان عمل میں آنا چاہیے اور ان چہروں و خفیہ قوتوں کے آلہ کاروں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو خاص محرم الحرام کے حرمت والے مہینے کو مسلمانوں میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے بیرونی آقاؤں کے ناپاک ایجنڈہ کی تکمیل کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔ ہمیں تاریخ کے میر جعفر و میر صادق جیسے کرداروں کو پہچاننا ہوگا جو ہمارے اندر ہی فساد و فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ہر زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی کے لیے دشمنوں کی سازشوں کے آلہ کار بنتے ہیں، یہ ہمارے اندر نفاق، فرقہ واریت و تعصبات کا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

ہمیں اسلام نے پہلے ہی ایسے عناصر سے محفوظ رہنے کے لیے ان کے شیطانی حربوں اور اس کے خطرناک نتائج سے خبردار کر رکھا ہے اور قرآن پاک میں واضح کردیا گیا ہے کہ (ترجمہ) ''خبردار تفرقہ (جھگڑا) نہ پیدا کرو، ورنہ تمہاری قوت جاتی رہے گی'' کامیابی و کامرانی کا عظیم نکتہ باہمی اتحاد و اتفاق کو بتاتے ہوئے مزید کہا کہ (ترجمہ) ''اللہ کی رسی (دین) کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور تفرقہ نہ ڈالو۔'' اس کی وصیت خاتم النبین محسن انسانیت پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ حج میں ان الفاظ میں دی کہ ''تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن (عرفہ) رواں مہینے (ذی الحج) اور موجودہ شہر (مکہ) کی حرمت ہے اور تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب (قرآن پاک)'' اسی مفہوم کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے خوبصورت شعر میں پیش کیا ہے کہ:

حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلماں بھی ایک

امت کے اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ علما کا باہمی اتحاد ہو جس کے ذریعے ہی فرقہ وارانہ مسائل و فقہی تنازعات حل ہوسکتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ ہمیں قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہاں اسلامی نظام و قوانین کے نفاذ کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علما کرام کے متفقہ 22 نکات کی شکل میں ملتا ہے جو ان علما نے اسلامی قوانین کے نفاذ میں حائل فرقہ وارانہ و فقہی اختلافات کے خاتمے کے لیے متفقہ نکات ترتیب دیے تھے جو آج بھی ہمارے لیے قابل قدر دستاویز و رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے جس کی روشنی میں ہم دینی جماعتوں میں اتحاد و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ممکن بنا سکتے ہیں لیکن ہمارے علما کرام و دینی جماعتوں نے ''قرارداد مقاصد'' کی منظوری کے بعد نفاذ اسلام کی مہم و تحریک کو پس پشت ڈال دیا اور مروجہ جمہوریت کو اپنا قبلہ و کعبہ بنالیا اور انتخابی سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنا بیٹھے معاشرے کی دینی تربیت و باہمی اتحاد کو وہ اہمیت نہ دی گئی ۔

جس کا نفاذ اسلام کے لیے ضروری تقاضا تھا جس کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں فرقہ واریت بڑھتی جا رہی ہے ہر سال محرم الحرام کی آمد پر پورے ملک کی انتظامی مشنری امن و امان کے قیام کے لیے وقف ہوتی ہے خوف بے یقینی کی فضا پیدا ہوتی ہے، اتحاد بین المسلمین کی آوازیں بلند ہوتی ہیں، حکومتی سطح پر مختلف مکاتب فکر کے علما کے اجلاس بلائے جاتے ہیں، امن، رواداری وفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اپیلیں ہوتی ہیں کمیٹیاں و ضابطہ اخلاق بنائے جاتے ہیں لیکن یہ سب اقدامات محض محرم الحرام میں قیام امن تک محدود ہوتے ہیں، ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت، بے حیائی و فحاشی، کرپشن، لسانی و مذہبی تعصبات کی اصل وجہ ہمارے علما کرام و دینی جماعتوں کا اپنے بنیادی فریضے کی ادائیگی کے بجائے مسلک و فقہ کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بناکر محراب و منبر کے بجائے اسمبلیوں میں مروجہ مغربی جمہوری سسٹم کی افادیت کو اسلام سے جوڑنے کی کوشش کی اور نفاذ اسلام و اتحاد امت کی منزل کو محض ایک نعرے تک محدود کردیا۔

ہر دینی جماعت ملک میں خلفا راشدینؓ کے نظام کی بات اپنے منشور میں کرتی ہے لیکن عملی طور پر وہ اقتدار و حکومتی مراعات کے حصول میں مصروف ہے اور اس جمہوری سسٹم کو بچانے کے لیے اپنی صلاحیتیں وقف کرتی ہے جس میں نفاذ اسلام محض خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے اور اس سسٹم کے تحت امیر امیر ترین اور غریب غریب ترین ہوتا جا رہا ہے، عوامی مسائل و معاشرتی اصلاح و اتحاد بین المسلمین جیسے فریضہ کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

آج ملک کو درپیش فرقہ واریت و انتہا پسندی سے نکالنے کے لیے ضرورت ہے کہ علما و دینی جماعتیں اپنا مذہبی کردار ادا کریں، معاشرے میں مذہبی یگانگت و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ''قرارداد مقاصد'' اور ''متفقہ 22 نکات'' کی بنیاد پر آئین پاکستان میں موجود اسلامی دفعات کے عملی نفاذ کے لیے تحریک کا آغاز کریں تاکہ ملک صحیح معنوں میں ہر قسم کے مذہبی، لسانی و علاقائی تعصبات سے پاک ہوکر ایک فلاحی اسلامی مملکت بن سکے جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں