اولین ابدی و دائمی نافذالعمل دستور
انسانی حقوق کاتعین اسلام نےخود کردیا ہےاورنبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےواضح احکامات اس ضمن میں عطافرمائے۔
KARACHI:
انسانی حقوق کا تعین اسلام نے خود کردیا ہے اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح احکامات اس ضمن میں عطا فرمائے، انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمدؐ کے ''خطبۂ حجۃالوداع'' کی طرف دیکھیے، اس میں انسانیت کے لیے تمام انسانی حقوق آئینی دفعات اور اس کے نافذالعمل بنانے کے حتمی، ابدی و تاریخی اعلان کے ساتھ فراہم کردیے ہیں اور اتنی واضح تعلیمات اور ہدایات دی گئی ہیں کہ جن کی من مانی تشریح اور خود ساختہ مفہوم اخذ کرنے کے لیے بھی کسی قسم کے تکلفات کی گنجائش نہیں رہتی۔ پیغمبر اسلامؐ کے انسانی حقوق کے حوالے سے کیے گئے تمام اقدامات، اعلانات اور ہدایات کو آپؐ کی حیات طیبہ میں ہی آپؐ کے قائم کردہ مدنی معاشرہ میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے زریں اصول پر عملاً نافذ العمل اور آئینی شکل میں اسلامی دستور اور نظام حیات کا جزولازم بنا دیا گیا تھا، بالخصوص عہد نبویؐ کے مدنی معاشرہ، عہد خلافت راشدہؓ کے فلاحی معاشرہ (11ھ تا 40ھ 632ء تا 661ء) اور بعد کے اسی نہج پر قائم اسلامی ادوار میں جس طرح نافذ العمل بنایا گیا، اسلامی تاریخ کے سنہرے اوراق اس کے گواہ ہیں۔
10ھ بمطابق 632ء میں حج کے موقع پر نبی کریمؐ نے میدان عرفات میں جہاں عرب کے گوشے گوشے سے جانثاران نبوت، صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین شرف ہم رکابی اور زیارت نبویؐ کے جذبہ لافانی کے تحت امنڈ پڑے تھے۔ تاحد نظر انسانوں کا ایک موجیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا تھا۔ انسانی تاریخ کے ان بے مثل پروانوں اور بے نظیر فداکاروں سے جن کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ تیس ہزار مقدس نفوس پر مشتمل تھی، خاتم الانبیاؐ نے نہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں یہ عظیم الشان اور تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس کی قدر و منزلت حقوق انسانی کے حوالے سے صرف تاریخ اسلام ہی میں نہیں بلکہ تاریخ عالم میں بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے اور جو کل انسانیت کے لیے مشعل راہ، چراغ راہ اور مینار نور ہے۔
ذیل میں ''خطبہ حجۃالوداع'' کے حقوق انسانی سے متعلق چند نکات ہدیہ قارئین ہیں۔
(1) جان، مال، عزت و آبرو اور اولاد کے تحفظ کا۔ (2) امانت کی ادائیگی، قرض کی وصولیابی اور جائیداد کے تحفظ کا حق۔ (3) سود کے خاتمے کا تاریخی اعلان، انسانیت پر احسان عظیم۔ (4) پرامن زندگی اور بقائے باہمی کا حق۔ (5) Harmonius Co-existence کا حق۔ (6) ملکیت، عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق۔ انسانی جان کے تحفظ اور قصاص و دیت (Relating of Retaliation and Blood Money میں۔ (7) مساوات کا قانونی حق۔ (8) انسانی مساوات کا حق اور انسانی تفاخر و طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا تاریخی اعلان۔ عورتوں کے حقوق کا تاریخی اعلان۔ (9) غلاموں کے حقوق کا انقلابی اور عملی اعلان۔ (10) عالمگیر مساوات انسانی اور مواخات (Confrateunity) کا حق۔ (11) انسانیت کے منشور اعظم ''خطبہ حجۃالوداع'' کے تحفظ اور اس کے نافذ العمل بنانے کا اعلان۔
رحمۃاللعالمینؐ کا ''خطبہ حجۃالوداع'' بلاخوف و تردید حقوق انسانی کا اولین اور ابدی منشور ہے جو نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد پر تھا اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار، یہ حقوق انسانی کے اولین علمبردار محسن انسانیتؐ کا انسانیت کے نام آخری اور دائمی پیغام تھا، جس میں انسانی حقوق کے بنیادی خطوط کی رہنمائی کرتے ہوئے انسانی حقوق کا وہ مثالی اور ابدی منشور عطا کیا گیا، جس پر انسانیت جتنا فخر کرے کم ہے، جتنا ناز کرے بجا ہے۔ فصاحت و بلاغت کی معراج، انسانیت کی شان، انسانی حقوق کا دائمی نشان یہ عظیم الشان تاریخ ساز خطبہ انسانیت کی عظمت، جلالت شان اور تاریخی اہمیت کے باعث ''حجۃ الاسلام''، ''حجۃالبلاغ''، ''حجۃالتمام'' اور ''حجۃالکمال'' کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
چونکہ لوگ دینی احکام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے کم واقفیت رکھتے ہیں اس لیے دوسری اقوام سے مرعوب رہتے ہیں اور ان کی ہر درآمد شدہ فکر اور نظریہ ہمیں صحیح بھی لگنے لگتا ہے۔ اب غور فرمائیں کہ اقوام متحدہ نے جو انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا ہے اس کی بیشتر دفعات اور خود (Universal Declaration of Human Rights) ''خطبہ حجۃالوداع'' کا چربہ ہے، جو ہمیں محسن انسانیت نے چودہ صدی قبل عطا فرمادیا تھا۔
انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے نام منشور اعظم ''حجۃالوداع632ء'' جس کے متعلق یہ کہنا بجا ہے کہ یہ انسانی حقوق کا اولین، جامع ترین، مثالی، ہمہ گیر اور دائمی نافذ العمل منشور ہے۔ جو نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد تھا اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار۔
یہ حقوق انسان کے اولین علمبردار، انسانیت کے تاجدار، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنی نوع انسان کے نام انسانی حقوق و فرائض کا آخری اور دائمی پیغام تھا جو تاریخ میں انسانی حقوق کے تمام منشوروں اور دستاویزات حقوق پر تاریخی اعتبار سے اولیت کا شرف حاصل ہے اور جو ابدی فوقیت اور عملی حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ ''خطبہ حجۃالوداع'' کو بلاخوف تردید تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے پہلا منشور انسانی حقوق "Declaration of the Right of Man" اور ظلمت کدہ عالم سے انسان دشمنی، بدامنی، ناانصافی، جبر و تشدد اور استحصال و استبداد کے خاتمے پر مبنی فلاحی نظام کو نئے عالمی نظام (New World Order) ہونے کا شرف حاصل ہے۔
انسانی حقوق کے مغربی علم برداروں کے قول و فعل کا تضاد ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کے گوشے گوشے میں آج ہر جگہ حریت کی قدر و منزلت پامال اور شرف انسانیت کی مٹی پلید ہو رہی ہے، انسانیت کے ان نام نہاد علمبرداروں نے انسانی دوستی، ہمدردی اور انصاف کے نام پر جو کردار ادا کیا، اسے انسانیت کے نام پر جنگ عظیم اول و دوئم، جنگ خلیج، بوسنیا، روانڈا، صومالیہ، فلسطین و لبنان، عراق اور افغانستان نیز دیگر خطوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان ممالک میں انھوں نے انسانیت کے خلاف ایسے سنگین جرائم سے تاریخ رقم کی، جس کی مثال تاریخ عالم کے تاریک سے تاریک دور میں بھی ملنا محال ہے، یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو قومیں عہد حاضر میں حقوق انسانی کے پرفریب اور بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں وہی انسانیت کا خون چوسنے میں پیش پیش ہیں۔
آج اسلام و اسلامی دنیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کو انسانی حقوق کے حوالہ سے ہدف تنقید بنانے والے درحقیقت تاریخی صداقت اور ایک ناقابل تردید ابدی حقیقت کو جھٹلا کر انسانیت کے خلاف اپنے سیاہ کارناموں اور تاریخ مظالم کے سفاکانہ جرائم سے توجہ ہٹا کر اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ''خطبہ حجۃالوداع'' کی صورت میں انسانی حقوق کا منشور اعظم اس تاریخی دور میں عطا فرمایا جو آج کی نام نہاد مہذب دنیا کا ترقی یافتہ جمہوریت سے زیادہ بہتر دور تھا، اس میں فکر و فریب، دھوکہ دہی اور فریب نہ تھا، وہ ایسا زمانہ تھا جب عہد حاضر کی ترقی یافتہ اقوام تہذیب و تمدن سے بہت دور تھیں، جس میں مغربی دنیا انسانی حقوق تو درکار انسانیت کے نام سے بھی ناواقف اور انسانیت و انسانیت نوازی سے حد درجہ دور تھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دور میں انسان کو انسانیت نوازی کا عملی درس دیا، انھیں حقوق و فرائض سے آگاہ کیا، انسانی حقوق کے منشور اعظم ''خطبہ حجۃالوداع'' کے اس مثالی، ہمہ گیر اور ابدی منشور کو عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مدنی معاشرہ میں نافذ العمل بناکر اسلامی دستور حیات کا لازمی عنصر اور جزو لاینفک بنا دیا۔ اور اس طرح ایک تاریخ ساز مثالی فلاحی معاشرہ کی بنیاد قائم فرمائی جس کے تفویض تابندہ کی بدولت صدیوں اور مغربی دنیا تہذیب و تمدن کی دولت سے ہمکنار اور مہذب ہونے کی اہل قرار پائی۔ لہٰذا انسانی حقوق پر مبنی یہ ایسا ابدی منشور اور چارٹر ہے جسے بلاتفریق رنگ و نسل، قوم و ملت رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے دائمی دستور العمل اور منشور حقوق ہے جس پر انسانیت جتنا بھی فخر و ناز کرے کم ہے۔
انسانی حقوق کا تعین اسلام نے خود کردیا ہے اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح احکامات اس ضمن میں عطا فرمائے، انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمدؐ کے ''خطبۂ حجۃالوداع'' کی طرف دیکھیے، اس میں انسانیت کے لیے تمام انسانی حقوق آئینی دفعات اور اس کے نافذالعمل بنانے کے حتمی، ابدی و تاریخی اعلان کے ساتھ فراہم کردیے ہیں اور اتنی واضح تعلیمات اور ہدایات دی گئی ہیں کہ جن کی من مانی تشریح اور خود ساختہ مفہوم اخذ کرنے کے لیے بھی کسی قسم کے تکلفات کی گنجائش نہیں رہتی۔ پیغمبر اسلامؐ کے انسانی حقوق کے حوالے سے کیے گئے تمام اقدامات، اعلانات اور ہدایات کو آپؐ کی حیات طیبہ میں ہی آپؐ کے قائم کردہ مدنی معاشرہ میں عدل و انصاف اور انسانی مساوات کے زریں اصول پر عملاً نافذ العمل اور آئینی شکل میں اسلامی دستور اور نظام حیات کا جزولازم بنا دیا گیا تھا، بالخصوص عہد نبویؐ کے مدنی معاشرہ، عہد خلافت راشدہؓ کے فلاحی معاشرہ (11ھ تا 40ھ 632ء تا 661ء) اور بعد کے اسی نہج پر قائم اسلامی ادوار میں جس طرح نافذ العمل بنایا گیا، اسلامی تاریخ کے سنہرے اوراق اس کے گواہ ہیں۔
10ھ بمطابق 632ء میں حج کے موقع پر نبی کریمؐ نے میدان عرفات میں جہاں عرب کے گوشے گوشے سے جانثاران نبوت، صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین شرف ہم رکابی اور زیارت نبویؐ کے جذبہ لافانی کے تحت امنڈ پڑے تھے۔ تاحد نظر انسانوں کا ایک موجیں مارتا ہوا سمندر نظر آتا تھا۔ انسانی تاریخ کے ان بے مثل پروانوں اور بے نظیر فداکاروں سے جن کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ تیس ہزار مقدس نفوس پر مشتمل تھی، خاتم الانبیاؐ نے نہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں یہ عظیم الشان اور تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس کی قدر و منزلت حقوق انسانی کے حوالے سے صرف تاریخ اسلام ہی میں نہیں بلکہ تاریخ عالم میں بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے اور جو کل انسانیت کے لیے مشعل راہ، چراغ راہ اور مینار نور ہے۔
ذیل میں ''خطبہ حجۃالوداع'' کے حقوق انسانی سے متعلق چند نکات ہدیہ قارئین ہیں۔
(1) جان، مال، عزت و آبرو اور اولاد کے تحفظ کا۔ (2) امانت کی ادائیگی، قرض کی وصولیابی اور جائیداد کے تحفظ کا حق۔ (3) سود کے خاتمے کا تاریخی اعلان، انسانیت پر احسان عظیم۔ (4) پرامن زندگی اور بقائے باہمی کا حق۔ (5) Harmonius Co-existence کا حق۔ (6) ملکیت، عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق۔ انسانی جان کے تحفظ اور قصاص و دیت (Relating of Retaliation and Blood Money میں۔ (7) مساوات کا قانونی حق۔ (8) انسانی مساوات کا حق اور انسانی تفاخر و طبقاتی تقسیم کے خاتمے کا تاریخی اعلان۔ عورتوں کے حقوق کا تاریخی اعلان۔ (9) غلاموں کے حقوق کا انقلابی اور عملی اعلان۔ (10) عالمگیر مساوات انسانی اور مواخات (Confrateunity) کا حق۔ (11) انسانیت کے منشور اعظم ''خطبہ حجۃالوداع'' کے تحفظ اور اس کے نافذ العمل بنانے کا اعلان۔
رحمۃاللعالمینؐ کا ''خطبہ حجۃالوداع'' بلاخوف و تردید حقوق انسانی کا اولین اور ابدی منشور ہے جو نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد پر تھا اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار، یہ حقوق انسانی کے اولین علمبردار محسن انسانیتؐ کا انسانیت کے نام آخری اور دائمی پیغام تھا، جس میں انسانی حقوق کے بنیادی خطوط کی رہنمائی کرتے ہوئے انسانی حقوق کا وہ مثالی اور ابدی منشور عطا کیا گیا، جس پر انسانیت جتنا فخر کرے کم ہے، جتنا ناز کرے بجا ہے۔ فصاحت و بلاغت کی معراج، انسانیت کی شان، انسانی حقوق کا دائمی نشان یہ عظیم الشان تاریخ ساز خطبہ انسانیت کی عظمت، جلالت شان اور تاریخی اہمیت کے باعث ''حجۃ الاسلام''، ''حجۃالبلاغ''، ''حجۃالتمام'' اور ''حجۃالکمال'' کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
چونکہ لوگ دینی احکام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے کم واقفیت رکھتے ہیں اس لیے دوسری اقوام سے مرعوب رہتے ہیں اور ان کی ہر درآمد شدہ فکر اور نظریہ ہمیں صحیح بھی لگنے لگتا ہے۔ اب غور فرمائیں کہ اقوام متحدہ نے جو انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا ہے اس کی بیشتر دفعات اور خود (Universal Declaration of Human Rights) ''خطبہ حجۃالوداع'' کا چربہ ہے، جو ہمیں محسن انسانیت نے چودہ صدی قبل عطا فرمادیا تھا۔
انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے نام منشور اعظم ''حجۃالوداع632ء'' جس کے متعلق یہ کہنا بجا ہے کہ یہ انسانی حقوق کا اولین، جامع ترین، مثالی، ہمہ گیر اور دائمی نافذ العمل منشور ہے۔ جو نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد تھا اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار۔
یہ حقوق انسان کے اولین علمبردار، انسانیت کے تاجدار، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بنی نوع انسان کے نام انسانی حقوق و فرائض کا آخری اور دائمی پیغام تھا جو تاریخ میں انسانی حقوق کے تمام منشوروں اور دستاویزات حقوق پر تاریخی اعتبار سے اولیت کا شرف حاصل ہے اور جو ابدی فوقیت اور عملی حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ ''خطبہ حجۃالوداع'' کو بلاخوف تردید تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے پہلا منشور انسانی حقوق "Declaration of the Right of Man" اور ظلمت کدہ عالم سے انسان دشمنی، بدامنی، ناانصافی، جبر و تشدد اور استحصال و استبداد کے خاتمے پر مبنی فلاحی نظام کو نئے عالمی نظام (New World Order) ہونے کا شرف حاصل ہے۔
انسانی حقوق کے مغربی علم برداروں کے قول و فعل کا تضاد ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کے گوشے گوشے میں آج ہر جگہ حریت کی قدر و منزلت پامال اور شرف انسانیت کی مٹی پلید ہو رہی ہے، انسانیت کے ان نام نہاد علمبرداروں نے انسانی دوستی، ہمدردی اور انصاف کے نام پر جو کردار ادا کیا، اسے انسانیت کے نام پر جنگ عظیم اول و دوئم، جنگ خلیج، بوسنیا، روانڈا، صومالیہ، فلسطین و لبنان، عراق اور افغانستان نیز دیگر خطوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان ممالک میں انھوں نے انسانیت کے خلاف ایسے سنگین جرائم سے تاریخ رقم کی، جس کی مثال تاریخ عالم کے تاریک سے تاریک دور میں بھی ملنا محال ہے، یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو قومیں عہد حاضر میں حقوق انسانی کے پرفریب اور بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں وہی انسانیت کا خون چوسنے میں پیش پیش ہیں۔
آج اسلام و اسلامی دنیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کو انسانی حقوق کے حوالہ سے ہدف تنقید بنانے والے درحقیقت تاریخی صداقت اور ایک ناقابل تردید ابدی حقیقت کو جھٹلا کر انسانیت کے خلاف اپنے سیاہ کارناموں اور تاریخ مظالم کے سفاکانہ جرائم سے توجہ ہٹا کر اس پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ''خطبہ حجۃالوداع'' کی صورت میں انسانی حقوق کا منشور اعظم اس تاریخی دور میں عطا فرمایا جو آج کی نام نہاد مہذب دنیا کا ترقی یافتہ جمہوریت سے زیادہ بہتر دور تھا، اس میں فکر و فریب، دھوکہ دہی اور فریب نہ تھا، وہ ایسا زمانہ تھا جب عہد حاضر کی ترقی یافتہ اقوام تہذیب و تمدن سے بہت دور تھیں، جس میں مغربی دنیا انسانی حقوق تو درکار انسانیت کے نام سے بھی ناواقف اور انسانیت و انسانیت نوازی سے حد درجہ دور تھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دور میں انسان کو انسانیت نوازی کا عملی درس دیا، انھیں حقوق و فرائض سے آگاہ کیا، انسانی حقوق کے منشور اعظم ''خطبہ حجۃالوداع'' کے اس مثالی، ہمہ گیر اور ابدی منشور کو عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مدنی معاشرہ میں نافذ العمل بناکر اسلامی دستور حیات کا لازمی عنصر اور جزو لاینفک بنا دیا۔ اور اس طرح ایک تاریخ ساز مثالی فلاحی معاشرہ کی بنیاد قائم فرمائی جس کے تفویض تابندہ کی بدولت صدیوں اور مغربی دنیا تہذیب و تمدن کی دولت سے ہمکنار اور مہذب ہونے کی اہل قرار پائی۔ لہٰذا انسانی حقوق پر مبنی یہ ایسا ابدی منشور اور چارٹر ہے جسے بلاتفریق رنگ و نسل، قوم و ملت رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے دائمی دستور العمل اور منشور حقوق ہے جس پر انسانیت جتنا بھی فخر و ناز کرے کم ہے۔