GO کہنا سکھا دیا

علم کا رشتہ فلاح انسانیت سے استوار ہونے کی بجائے ذاتی مفاد کے حصول تک محدود ہوکے رہ گیا۔


غلام جیلانی خان November 11, 2014

میں ٹیکسی اسٹینڈ پہ اپنے ایک دوست کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھا ہوا گپ شپ میں مصروف تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ کوئی پچھلی نشست کا دروازہ کھول کر باآہستگی تمام نشست پہ براجمان ہوچکا ہے۔ مڑ کے دیکھنے پہ تھوڑی سی حیرت بھی ہوئی کہ محترم میاں علم دین بڑے طمطراق سے رونق افروز تھے۔

دوسروں کی طرح ان کو بھی میرا ذاتی گاڑی بیچ کر ٹیکسی، رکشوں پہ تکیہ کرنے کا چلن ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔ لاکھ سمجھانے اور مجبوریاں بیان کرنے کے باوجود ان کی رائے تبدیل کرنے میں ناکام رہا تھا کہ میں نے بہت بڑی بے وقوفی کی ہے۔ مگر آج جب کہ ان کی اولاد نے انھیں ایک زیرو میٹر گاڑی کا مالک بنادیا تھا، وہ ٹیکسی میں نظر آرہے تھے۔ معلوم ہوا بھابھی صاحبہ ڈرائیور کے ساتھ سفارتی دورے پر نکلی ہوئی ہیں اور کوئی ایسی مجبوری آن پڑی ہے کہ واپسی میں دیر ہوجائے گی سو پوتے کو اسکول سے اٹھانے کی ذمے داری علم دین صاحب کے کاندھوں پہ آپڑی تھی۔

ہم نے اسکول کا پتہ پوچھا اور احمد کو اشارہ کیا اور جانب اسکول روانہ ہوگئے۔ راستے بھر گاڑی کی شان میں علم دین صاحب کی قصیدہ گوئی جاری رہی۔ دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہوکے رہ گئی ہے۔ سی این جی کی راشن بندی کی وجہ سے ہر دوسرے تیسرے منہ اندھیرے اٹھ کر لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو پوری پوری رات بھی نذر ہوجاتی ہے ۔ راستے بھر ڈرائیور گاڑی میں پیدا ہونے والی نئی نئی آوازوں کی طرف توجہ دلانا اپنا فرض سمجھتا ہے اور ان کی طرف فوری توجہ نہ دینے کی صورت میں اس کے بھیانک نتائج سے بھی آگاہ کرتا رہتا ہے۔ ابھی گھر میں ٹک کر بیٹھنے بھی نہیں پاتے کہ گھر سے باہر پارک کی گئی گاڑی کا سکیورٹی الارم چیخ و پکار مچادیتا ہے۔

ہانپتے کانپتے باہر پہنچو تو مختلف کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ کبھی گڈو، پپو شرارتاً اسے ہاتھ لگاتے ہوئے گزرگئے ہیں۔ کبھی شبیر کی ماری ہوئی شاٹ سیدھی گاڑی میں لگی ہے کبھی بلی نے کسی دیوار یا چھت پر سے گاڑی کی چھت پر لینڈ کیا ہے اور کبھی کبھی تو تند و تیز ہوائیں اپنا کرشمہ دکھا جاتی ہیں۔ غرض شروع شروع میں گاڑی کی وجہ سے وہ جتنے خوش دکھائی دیتے تھے آج بیزاری غالب نظر آتی تھی۔

ہم بھی سمجھ رہے تھے کہ معاملہ ابھی نیا نیا ہے آہستہ آہستہ عادی ہوجائیں گے۔ باتوں باتوں میں میرے آج یوم آزادی منانے کے ارادوں کا علم دین کو علم تو ہو ہی چکا تھا اور کچھ ہمیں بھی تگڑے سے لنچ کے آثار نظر آنے شروع ہوگئے تھے۔ سو تھوڑی سی رد و قدح کے بعد آج کا دن ان کے نام کردینے کی ان کی استدعا کو ہم نے شرف قبولیت بخشنے میں کوئی حرج نہ سمجھا۔ ورزش کرنے کے بہانے جس پارک میں ہم وہاں کی رونقوں سے دل بہلانے چلے جایا کرتے تھے وہاں کی رونقیں بحال ہونے میں ابھی خاصا وقت درکار تھا پھر بھی علم دین کے بے حد اصرار پر نشست کا آغاز وہیں سے ہوا۔ علم دین تو گویا ادھار کھائے بیٹھے تھے۔

صحیح طرح سے بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ سوال داغ دیا۔ یار آخر کب تک ہم اٹھارہ کروڑ ان چند ہزار لوگوں کی جوتیاں سیدھی کرتے رہیں گے۔ آخر کب تک ہم لوگ اپنے ہی میں سے کوئی نجات دہندہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے۔ کیا قدرت کی طرف سے ان فاقہ مست، جاہل، کم پڑھے لکھے لوگوں میں کسی سچے ایماندار پر خلوص معاملہ فہم اور با شعور ہستی کی آمد پہ کوئی پابندی عائد ہے؟ علم دین میرے سامنے سوالیہ نشان بنے کھڑے ہوئے تھے۔ اگرچہ ہم خود بھی لاجواب ہوگئے تھے مگر اپنی بقراطیت کا بھرم بھی رکھنا تھا۔

عرض کی محترم روز اول سے ہی ہم پہ جدیدیت کا کچھ ایسا بھوت سوار ہوا کہ تعلیمی نظام کے قبلے کو درست کرنے کا کسی کو خیال ہی نہ آیا۔ سو علم کا رشتہ فلاح انسانیت سے استوار ہونے کی بجائے ذاتی مفاد کے حصول تک محدود ہوکے رہ گیا۔ علوم شرقیہ ہوں یا غربیہ دیگر تمام مضامین اختیاری ہوتے ہیں مگر پیسے کمانے کا فن لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتاہے اور آج کے دور میں پیسہ جتنا بھی کمایا جائے کم ہے کی سوچ رکھنے والے انسان کو عقلمند ترین باہمت اور آئیڈیل تصور کیاجاتاہے لوگوں کو امید سی بندھ جاتی ہے کہ اس کی بچی کچھی ہڈیوں سے ان کی بھی چاندی ہوجائے گی۔ رہ گئی رضا کارانہ تگ و دو تو خلل ہے دماغ کا ۔اچھے انسان کا مطلب پیسہ والا ہونے کے سوا کچھ نہیں۔

تو علم دین صاحب جس قسم کی معاشرتی و معاشی تبدیلی کی آپ امید لگائے بیٹھے ہیں کیا خیال ہے آپ کا میری اور آپ کی بقایا مختصر سی زندگی میں پوری ہونے کے کوئی امکانات ہیں۔ تمہیں یاد ہوگا نصف صدی قبل ہم لوگ ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کو ہدف تنقید بنایا کرتے تھے کہ مملکت اسلامی میں بنیادی یا کسی بھی قسم کی جمہوریت ہی کیوں خلافت کیوں نہیں۔ اس زمانے میں ایک جید اسلامک اسکالر اور ایک محقق بھی حیات تھے۔ خانہ کعبہ کے متولی بھی ان کی دینی تحقیق و آرا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر جنرل ایوب خان ان کو سولی پہ لٹکادینے کے درپے تھے۔ عوام سدا کی گائے۔ خود کچھ کرنے کی کبھی زحمت ہی نہ کی منتظر رہے کہ پردہ قدرت سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ طوطی مشرق چیختا چیختا منوں متی تلے جا سویا کہ:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

قائداعظم جو اپنی تمام تر توانائیاں ایک آزاد مملکت کے قیام پر صرف کرچکے تھے یاد دلاتے رہے کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت ہوگی مگر کسی کو اتنی فرصت نہ تھی کہ اس سلسلے میں ان کی مدد کو آتا یہاں تو ہر کوئی انگریزوں کے جانے کے بعد انگریز بننے پر تلا بیٹھا تھا۔ کسی کو کیا پڑی تھی کہ ایک بالکل نیا قانون اور نیا آئین مرتب کرنے کے جھمیلوں میں پڑتا۔ سب کچھ تو انگریز بنا بنا کر دے گیا تھا، بس اقتدار کے مزے لوٹنے تھے سو آج تک لوٹ رہے ہیں۔ درمیانوں کے حواسوں پہ مغربی تہذیب کی چکا چوند چھائی ہوئی تھی سو وہ دن اور آج کا دن وہ حواسوں میں نہیں ہیں۔ رہ گئے عوام تو ان کے نصیب میں در بدر کی لکھ دی گئی ہے کبھی بیرونی تو کبھی اندرونی مہم جوئی کی وجہ سے قدرتی آفات کو بھی ان کے راستے پر لگادیا جاتا ہے کہ ان کے ڈھیٹ پن اور بے زبانی پر سب کو پورا بھروسہ ہے ۔

قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں کہنا سیکھا تو بڑی واہ واہ ہوئی زندگی کے مستقل عذاب نے گو (Go) کہنا سکھادیا تو بڑی لے دے ہورہی ہے۔ علم دین کی حالت دیدنی تھی۔ منہ پھاڑے ٹک ٹک ہمیں گھورے جا رہے تھے۔ میرے خاموش ہونے پر اپنا دوسرا سوال بھول کر اور کچھ نہ سوجھا تو ہمیں ہائی ٹی کی دعوت دے ڈالی۔ پارک کی رونقیں بحال ہونا شروع ہوگئی تھیں۔

رنگ و نور کی محفل سے اٹھ کر جانے کو دل تو نہ چاہتا تھا مگر ہائی ٹی کی آفر بھی روز روز نہیں ہوا کرتی سو دل پر جبر کرکے پارک سے باہر نکل آئے۔ یہ اور بات ہے کہ اس بار علم دین بھی ہاتھ کرگئے تھے۔ بجائے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے ایک نئے تعمیر ہونے والے پروجیکٹ کی تعارفی تقریب میں خود بھی ہائی ٹی سے لطف اندوز ہوئے اور ہمیں بھی لطف اندوز کرواتے رہے اور میں بیٹھا اپنی جھینپ مٹاتا رہا اور خوش بھی ہوتا رہا جھینپنے کی وجہ بتانا ضروری نہیں سمجھتا البتہ خوشی اس بات کی تھی کہ ماشاء اﷲ علم دین بھی بالغ ہوگئے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں