ملک میں ہر سال ایک لاکھ بچے نمونیا سے ہلاک ہونے لگے

پاکستان میں سالانہ 45لاکھ بچوں میں سے 60 فیصد بچے مختلف بیماریوں کے باعث گھروں میں ہی دم توڑجاتے ہیں۔


Staff Reporter November 11, 2014
نمونیاکی پہلی ویکسین بچے کی پیدائش کے پہلے6ہفتے دوسری 10اورتیسری 14ہفتے کرائی جاتی ہے۔ فوٹو : ایکسپریس

لاہور: پاکستان پیڈیاٹرکس ایسوسی ایشن کے صدرپروفیسرڈاکٹراقبال میمن نے کہاہے کہ نمونیاکے مرض میں22لاکھ بیکٹیریاکے ساتھ وائرس بھی ہوتے ہیں،ملک میں ہرسال ایک لاکھ بچے نمونیاسے انتقال کرجاتے ہیں ۔

جن میں سے33فیصداموات سندھ میں ہوتی ہیں، پاکستان میں ہر4بچوں میں سے ایک نمونیا کا شکار ہوتا ہے، پاکستان میں سالانہ 45لاکھ بچوں میں سے 60 فیصد بچے مختلف بیماریوں کے باعث گھروں میں ہی دم توڑجاتے ہیں،اموات پر قابو پانے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری ہے، جب بچہ کراہناشروع کرے تووالدین کوچاہیے فوری توجہ دیں،سانس لینے میں سٹی کانکلنا، بچے کانڈھال ہونا، بخار،نزلہ کھانسی کے ساتھ جھٹکے لگنا اور پسلی چلنا شدید نمونیے کی علامات ہیں، نمونیا سے پیچیدگی کی صورت میں بچے کو گردن توڑ بخار بھی ہو سکتاہے ،نمونیاکی پہلی ویکسین بچے کی پیدائش کے پہلے6ہفتے دوسری 10اورتیسری 14ہفتے کرائی جاتی ہے۔

جس کے بعدبچہ نمونیاکے مرض سے محفوظ ہوجاتا ہے ،پروفیسر اقبال میمن نے مزیدکہاکہ ترقی پذیرملکوں میں ہرسال 5سال سے کم عمر کے بچوں کے نمونیامیں مبتلا ہونے کے150ملین کیسزسامنے آتے ہیں جوپوری دنیامیں سامنے آنے والے کیسزکا 95فیصد سے بھی زیادہ ہیں، بعض صورتوں میں خسرہ اور کالی کھانسی جیسی بیماریاں پیچیدہ ہونے کے بعد نمونیا کا باعث بن سکتی ہیں،پروفیسر اقبال میمن نے مزیدکہا کہ ترقی پذیرملکوں میں ہرسال 5سال سے کم عمر کے بچوں کے نمونیامیں مبتلا ہونے کے150ملین کیسزسامنے آتے ہیں جوپوری دنیامیںسامنے آنے والے کیسزکا 95فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔

بعض صورتوں میں خسرہ اور کالی کھانسی جیسی بیماریاں پیچیدہ ہونے کے بعد نمونیا کا باعث بن سکتی ہیں،کم غذائیت کاشکاربچے اپنے کمزورمدافعتی نظام کی وجہ سے خطرے کی زدمیں ہیں،ہمارے یہاں بیماریوںکاحل پہلے گھرمیں تلاش کیاجاتاہے اورمعاملہ بگڑنے پر سب سے آخرمیںبچے کو اسپتال لایاجاتاہے جس کے نتیجے میں پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |