پاکستان ایک نظر میں لمیٹڈ کمپنی
ظلم تب تک جاری رہیگا جب تک اس ملک کا عام آدمی فرعونیت کے سامنے کھڑا نہیں ہو جاتا۔
KARACHI:
حکمران جماعت پر آج کل یہ الزام تواتر سے لگایا جا رہا ہے کہ یہ وطن عزیز کو ایک لمیٹڈ کمپنی کے طور پہ چلا رہے ہیں اور اس کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان کا کم و بیش پورا خاندان اس وقت کسی نہ کسی عہدے پر ہے۔
کسی بھی کمپنی کی کامیابی کی ضمانت اس میں کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ کسی بھی کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ کمپنی کو صف اول کی کمپنیوں میں شامل کرنے کے لیے ہر شعبے میں ماہر افراد کا تقرر کرے اس سلسلے میں افرادی قوت کے شعبے کو بھی ہر طرح کے دباؤ سے آزاد رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ نوجوان اور قابل دماغ کمپنی کا اثاثہ بنائے جائیں۔ شاید آپ کو میری باتیں سمجھنے میں دقت ہو رہی ہو گی لہذا آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔
سعودی عرب میں ایک سٹیل مل ہے جس کا نام ہل میٹلز (Hill Metals) ہے۔ اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر کا اس بزنس میں خاندانی تجربہ بھی ہے کیوں کہ ان کے داد انے یہ کام 1939 میں شروع کیا تھا۔ پھر 2002 میں العزیزیہ کے نام سے ایک سٹیل کمپنی قائم کی گئی۔پھر 2005 میں مذکورہ کمپنی یعنی ہل میٹلز کا قیام عمل میں آیا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کمپنی ترقی کے زینے طے کرتی گئی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں عہدوں کے لیے میرٹ پہ ہونا شرط تھی۔ اس کے علاوہ اس کمپنی میں ہر ممکن حد تک کوشش کی گئی کہ نوجوان قیادت رکھی جائے جو کمپنی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے علاوہ خریداروں کے ساتھ بہتر تعلقات پر بھی بہت توجہ دی گئی جس کی وجہ سے اس کمپنی کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ 2007 میں اس کمپنی میں نئے پلانٹ لگائے گئے جو اس کی ترقی کا ثبوت تھا۔ 2012 میں رولنگ مل پلانٹس کا اضافہ کیا گیا۔
اگر آپ اس کمپنی کی پروفائل دیکھیں تو اس میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کمپنی کا خاصہ خود احتسابی ہے اس کے علاوہ ذیلی خوبیوں میں معیار کو یقینی بنانا ، ملازمین کا تحفظ، ماحولیاتی تحفظ،ملازمین کا معاشی تحفظ، ملازمین کی فلاح و بہبود،شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر کے بقول 2015 پلان پر بھی عمل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کمپنی کی پیداواری صلاحیت دو گنا ہو جائے گی۔ اور جو کمپنی اس وقت سعودی عرب کی اہم کمپنیوں میں شامل ہوتی ہے دنیا کی بہترین کمپنیوں سے مقابلے کی سطح پر آ جائے گی ۔
جیسے اس وقت میں اس کمپنی کی پروفائل کا مطالعہ رشک کے ساتھ کر رہا ہوں ویسے ہی شاید دیگر بہت سے قارئین بھی ان لفظوں کو پڑھنے کے ساتھ اس کمپنی کے مالکان کو داد دے رہے ہوں گے ۔اور داد دینی بھی چاہیے کیوں کہ اس کمپنی کے مالکان بھی کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہی ہیں۔ اس کمپنی کی تاریخ میں جس شخصیت کا نام 1939 کے سال میں درج ہے وہ مرحوم میاں محمد شریف صاحب کا ہے۔ شاید آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔
اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر حسین نواز شریف ہیں۔ اور یہ کمپنی اس وقت سعودی عرب میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ اس کمپنی کی ویب سائٹ پر آپ کو میاں محمد نواز شریف ، وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ، کے بیٹے کا نام ، حسین۔این۔شریف لکھا نظر آئے گا۔ شاید جگہ کی کمی تھی۔ بہر حال اس کمپنی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس میں اقرباء پروری نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس میں میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کمپنی ایک کامیاب ادارہ بن چکی ہے۔ اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر تو حسین نواز خود ہیں ہی لیکن آپ کو چیف ایگزیکٹو آفیسر، ڈائیریکٹر آپریشنز،چیف مارکیٹنگ آفیسر، چیف فنانس آفیسر وغیرہ کے عہدوں پر بھی آ پ کو نوجوان چہرے دکھائی دیں گے۔ اور سب سے خاص بات کے ان میں سے اکثر عہدوں پر پاکستانی لوگ ہی فائز ہیں۔ یعنی قابل پاکستانی۔وجہ صرف یہ ہے کہ یہ میاں خاندان کی ذاتی کمپنی ہے جسے وہ کسی بھی صورت نقصان میں جاتا نہیں دیکھ سکتے ۔
کاش ہمارے حکمران اس ملک کو بھی اپنی کوئی لمیٹڈ کمپنی سمجھ کے ہی چلاتے ۔ کیوں کہ اب تک اس ملک کو ایک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر تو چلایا ہی نہیں گیا اگر ایسا ہوتا تو ہمیں آج مختلف عہدوں پر خاندان کے چہرے نظر نہ آتے ۔ لہذا یہ دلیل تو بالکل ناقص ہے کہ اس وقت حکمران اس ملک کو لمیٹڈ کمپنی کے طور پر چلا رہے ہیں۔ اگر وہ اس کو ایسا سمجھ کے چلا رہے ہوتے تو اس وقت ملک کے اہم عہدوں پر اس شعبے کے ماہر افراد بیٹھے ہوتے۔
لیکن صد افسوس! کہ اس کو نہ تو ایک آزاد مملکت کے طور پر ترقی دی گئی اور نہ ہی اس کو ایک لمیٹیڈ کمپنی کے طور پر پروان چڑھایا گیا۔ بلکہ اس کہ ایک ایسی جاگیر سمجھا گیا جس کو دن بدن بس نچوڑا گیا اس کو ترقی دینے کے نہیں سوچا گیا۔ جب مکمل نچوڑ لیا گیا تو تازہ رس کے لیے تو IMF، WB، ADB، وغیرہ جیسے مالیاتی اداروں سے رجوع کر لیا گیا۔ اس ملک پہ جب بھی کوئی حکمران بنا اس نے یہی سوچ کر حکمرانی کی کہ جتنا سمیٹنا ہے ابھی سمیٹنا ہے۔ اور اقتدار کے دن ختم ہوتے ہی اس دھرتی کے سینے پر ایستادہ محلات ان کے منتظر ہوتے تھے۔ اور بد قسمتی سے آج تک یہی صورت حال باقی ہے۔ یہ صورت تب تک باقی رہے گی جب اس ملک کا عام آدمی فرعونیت کے سامنے کھڑا نہیں ہو جاتا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
حکمران جماعت پر آج کل یہ الزام تواتر سے لگایا جا رہا ہے کہ یہ وطن عزیز کو ایک لمیٹڈ کمپنی کے طور پہ چلا رہے ہیں اور اس کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان کا کم و بیش پورا خاندان اس وقت کسی نہ کسی عہدے پر ہے۔
کسی بھی کمپنی کی کامیابی کی ضمانت اس میں کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ کسی بھی کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ کمپنی کو صف اول کی کمپنیوں میں شامل کرنے کے لیے ہر شعبے میں ماہر افراد کا تقرر کرے اس سلسلے میں افرادی قوت کے شعبے کو بھی ہر طرح کے دباؤ سے آزاد رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ نوجوان اور قابل دماغ کمپنی کا اثاثہ بنائے جائیں۔ شاید آپ کو میری باتیں سمجھنے میں دقت ہو رہی ہو گی لہذا آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔
سعودی عرب میں ایک سٹیل مل ہے جس کا نام ہل میٹلز (Hill Metals) ہے۔ اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر کا اس بزنس میں خاندانی تجربہ بھی ہے کیوں کہ ان کے داد انے یہ کام 1939 میں شروع کیا تھا۔ پھر 2002 میں العزیزیہ کے نام سے ایک سٹیل کمپنی قائم کی گئی۔پھر 2005 میں مذکورہ کمپنی یعنی ہل میٹلز کا قیام عمل میں آیا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کمپنی ترقی کے زینے طے کرتی گئی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں عہدوں کے لیے میرٹ پہ ہونا شرط تھی۔ اس کے علاوہ اس کمپنی میں ہر ممکن حد تک کوشش کی گئی کہ نوجوان قیادت رکھی جائے جو کمپنی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے علاوہ خریداروں کے ساتھ بہتر تعلقات پر بھی بہت توجہ دی گئی جس کی وجہ سے اس کمپنی کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ 2007 میں اس کمپنی میں نئے پلانٹ لگائے گئے جو اس کی ترقی کا ثبوت تھا۔ 2012 میں رولنگ مل پلانٹس کا اضافہ کیا گیا۔
اگر آپ اس کمپنی کی پروفائل دیکھیں تو اس میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کمپنی کا خاصہ خود احتسابی ہے اس کے علاوہ ذیلی خوبیوں میں معیار کو یقینی بنانا ، ملازمین کا تحفظ، ماحولیاتی تحفظ،ملازمین کا معاشی تحفظ، ملازمین کی فلاح و بہبود،شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر کے بقول 2015 پلان پر بھی عمل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کمپنی کی پیداواری صلاحیت دو گنا ہو جائے گی۔ اور جو کمپنی اس وقت سعودی عرب کی اہم کمپنیوں میں شامل ہوتی ہے دنیا کی بہترین کمپنیوں سے مقابلے کی سطح پر آ جائے گی ۔
جیسے اس وقت میں اس کمپنی کی پروفائل کا مطالعہ رشک کے ساتھ کر رہا ہوں ویسے ہی شاید دیگر بہت سے قارئین بھی ان لفظوں کو پڑھنے کے ساتھ اس کمپنی کے مالکان کو داد دے رہے ہوں گے ۔اور داد دینی بھی چاہیے کیوں کہ اس کمپنی کے مالکان بھی کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہی ہیں۔ اس کمپنی کی تاریخ میں جس شخصیت کا نام 1939 کے سال میں درج ہے وہ مرحوم میاں محمد شریف صاحب کا ہے۔ شاید آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔
اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر حسین نواز شریف ہیں۔ اور یہ کمپنی اس وقت سعودی عرب میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ اس کمپنی کی ویب سائٹ پر آپ کو میاں محمد نواز شریف ، وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ، کے بیٹے کا نام ، حسین۔این۔شریف لکھا نظر آئے گا۔ شاید جگہ کی کمی تھی۔ بہر حال اس کمپنی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس میں اقرباء پروری نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس میں میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کمپنی ایک کامیاب ادارہ بن چکی ہے۔ اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر تو حسین نواز خود ہیں ہی لیکن آپ کو چیف ایگزیکٹو آفیسر، ڈائیریکٹر آپریشنز،چیف مارکیٹنگ آفیسر، چیف فنانس آفیسر وغیرہ کے عہدوں پر بھی آ پ کو نوجوان چہرے دکھائی دیں گے۔ اور سب سے خاص بات کے ان میں سے اکثر عہدوں پر پاکستانی لوگ ہی فائز ہیں۔ یعنی قابل پاکستانی۔وجہ صرف یہ ہے کہ یہ میاں خاندان کی ذاتی کمپنی ہے جسے وہ کسی بھی صورت نقصان میں جاتا نہیں دیکھ سکتے ۔
کاش ہمارے حکمران اس ملک کو بھی اپنی کوئی لمیٹڈ کمپنی سمجھ کے ہی چلاتے ۔ کیوں کہ اب تک اس ملک کو ایک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر تو چلایا ہی نہیں گیا اگر ایسا ہوتا تو ہمیں آج مختلف عہدوں پر خاندان کے چہرے نظر نہ آتے ۔ لہذا یہ دلیل تو بالکل ناقص ہے کہ اس وقت حکمران اس ملک کو لمیٹڈ کمپنی کے طور پر چلا رہے ہیں۔ اگر وہ اس کو ایسا سمجھ کے چلا رہے ہوتے تو اس وقت ملک کے اہم عہدوں پر اس شعبے کے ماہر افراد بیٹھے ہوتے۔
لیکن صد افسوس! کہ اس کو نہ تو ایک آزاد مملکت کے طور پر ترقی دی گئی اور نہ ہی اس کو ایک لمیٹیڈ کمپنی کے طور پر پروان چڑھایا گیا۔ بلکہ اس کہ ایک ایسی جاگیر سمجھا گیا جس کو دن بدن بس نچوڑا گیا اس کو ترقی دینے کے نہیں سوچا گیا۔ جب مکمل نچوڑ لیا گیا تو تازہ رس کے لیے تو IMF، WB، ADB، وغیرہ جیسے مالیاتی اداروں سے رجوع کر لیا گیا۔ اس ملک پہ جب بھی کوئی حکمران بنا اس نے یہی سوچ کر حکمرانی کی کہ جتنا سمیٹنا ہے ابھی سمیٹنا ہے۔ اور اقتدار کے دن ختم ہوتے ہی اس دھرتی کے سینے پر ایستادہ محلات ان کے منتظر ہوتے تھے۔ اور بد قسمتی سے آج تک یہی صورت حال باقی ہے۔ یہ صورت تب تک باقی رہے گی جب اس ملک کا عام آدمی فرعونیت کے سامنے کھڑا نہیں ہو جاتا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔