بات کچھ اِدھر اُدھر کی اپنوں کی تلاش کب ختم ہوگی

ننھیال والے یہ سمجھتے رہے کہ لاجواپنے گھرپہنچ گئی ہوگئی اورگھروالے یہ سمجھتے تھے کہ وہ ننھیال والوں کے پاس ہے۔

ننھیال والے یہ سمجھتے رہے کہ لاجواپنے گھرپہنچ گئی ہوگئی اورگھروالے یہ سمجھتے تھے کہ وہ ننھیال والوں کے پاس ہے۔ فوٹو آصف محمود

اس کے ہاتھ میں ایک پھٹی پرانی بلیک اینڈ وائٹ تصویرتھی ،یہ بارہ چودہ سال کی ایک لڑکی کی تصویرتھی ۔یہ لاجو ہے،میری بوا(پھوپھو)ہے، جب پنجاب کی تقسیم ہوئی تویہ اپنے ننھیال ایمن آبادمیں تھیں۔گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہورکے لان میں بیٹھی وہ خاتون مجھے بتارہی تھیں۔اس خاتون کانام امیتاکورہے،ان کی اپنی عمربھی پینتالیس سال کے لگ بھگ ہوگی۔ وہ بتارہی تھیں کہ ان کے باپو لاہور کے سرحدی علاقہ پڈانہ میں رہتے تھے ۔ امیتا نے کہا کہ اس کے باپوبتایا کرتے تھے گاؤں میں سب سے بڑی حویلی ان کی تھی جس کے آثارآج بھی موجود ہیں،ان کے داداجی گاؤں کے نمبردارتھے، تقسیم کے وقت ہنگاموں کی آگ ان کے گاؤں تک نہیں پہنچی تھی اس لئے سب مطمئن تھے۔

پھر چند ہفتوں بعد ہنگاموں کا سلسلہ ٹھنڈا پڑگیا، اس کے باجود مختلف جگہوں سے خبریں آتی رہیں کہ فلاں علاقے میں سکھوں پرحملے ہوئے ہیں ،فلاں علاقے میں مسلمانوں کوکاٹ دیا گیا ہے،یہ خبریں سن کے میرے داداجی کافی پریشان رہتے ،ان ہی دنوں میری بواجی اپنے ننھیا ل چلی گئیں ،اس دورمیں کوئی ٹیلی فون یا فوری پیغام رسانی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ، لہذا ایک سکھ فیملی کا پاکستانی علاقے میں سفرکرنا نہایت مشکل ہوتا تھا۔سب کو بواجی کی فکرلگی رہتی ،گاؤں میں یہ دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں نفرت کی چنگاری یہاں بھی نہ پھوٹ پڑے،کیونکہ گاؤں کے بعض لوگوں کا لہجہ اوررویہ تبدیل ہوتا جارہا تھا۔

تقسیم کے تقریبا دوماہ بعد میرے داداجی نے فیصلہ کرلیا کہ ہم بھی ہندوستان چلے جائیں کیونکہ خاندان کے کئی لوگ وہاں جاچکے تھے ۔سب گھروالوں کو بواجی کی واپسی کا انتظارتھا مگروہ نہیں آئیں اورایک دن مایوس ہوکرمیرے داداجی ،باپو اور خاندان کے دیگرلوگ ہندوستان چلے گئے ،اب ہم لوگ نوشہرہ گاؤں میں رہتے ہیں جو پاکستانی سرحد کے بالکل قریب ہے۔میرے باپوکوامید تھی کہ ان کی لاجوبھی وہیں پہنچ چکی ہوگی ،ایمن آباد سے خاندان کے کئی لوگ یہاں پہنچے چکے تھے مگرلاجونہیں تھی۔ امیتا نے مجھے بتایا کہ اس کے باپو6 بہن بھائی تھے،چاربھائی اور دوبہنیں، لاجو سب سے چھوٹی اورگھرکی راج دلاری تھی۔ میری باپو روزانہ گاؤں سے باہرجا کر لاجو کی راہ تکتے ہیں ۔ ننھیال والے یہ سمجھتے رہے کہ لاجواپنے گھرپہنچ گئی ہوگئی اورگھروالے یہ سمجھتے تھے کہ وہ ننھیال والوں کے پاس ہے۔


امیتا نے بتایا اس کے باپواپنی بہن سے بہت پیارکرتے تھے، وہ کئی باراسے ڈھونڈنے پاکستان آئے مگران کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ میرے باپواپنی لاجوسے ملنے کا خواہش من میں لئے واہے گوروکے پاس چلے گئے ،انہوں نے مجھے کہا تھا کہ امیتا پترمیری لاجو کو ضرور ڈھونڈنا،اورمیں اب دوسری باراپنے باپو کی خواہش پوری کرنے یہاں آئی ہوں ۔یہ کہتے ہوئے وہ خاتون روپڑیں ۔کہنے لگی پتر بتاؤ میں کہاں ڈھونڈو اپنی لاجو کو ؟میں اس گاؤں بھی جاچکی ہوں ،اپنی حویلی کے کھنڈرات بھی دیکھے، گاؤں کے چند بزرگوں سے بھی ملی ۔ان لوگوں کو جب معلوم پڑا کہ میں سردارمان سنگھ کی پوتی ہوں توسب نے میرے سرپر ہاتھ پھیرا،میری عزت کی۔ گاؤں کے بزرگوں نے بتایا کہ میرے داداجی بہت شریف آدمی تھے انہیں یہاں کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن وہ ہمارے اصرار کے باوجود یہاں سے چلے گئے تھے ،یہاں بھی کسی نے لاجو کو نہیں دیکھا تھا۔ میں ایمن آباد بھی جاچکی ہوں وہاں بھی کوئی لاجو کونہیں جانتا۔ اکثرلوگ قصے سناتے ہیں کہ یہاں رہ جانے والی سکھ لڑکیوں سے مسلمانوں نے شادیاں کرلیں اوران کے نام بھی بدل گئے ،ایسا ہی ہندوستان میں ہوا،وہاں جو مسلمان لڑکیاں سکھوں اورہندوں کے ہتھے چڑھیں وہ ہمیشہ کے لئے وہیں کی ہوکررہ گئیں۔ ناجانے ہماری لاجو اب کس نام سے اب کس جگہ رہتی ہوگی۔

میں نے انہیں بتایا کہ ماں جی ہوسکتا ہے کہ ''لاجو''اب دنیا میں باقی نہ رہی ہو ،بہت سی لڑکیاں ان ہنگاموں میں ماری بھی توگئی تھیں ناں ۔اوراگرزندہ بھی بچ گئی ہوتی تواب اتنے برسوں بعد کیا زندہ ہوں گی ؟ یہ بھی توسکتا ہے کہ وہ زندہ ہو، مسلمان ہوگئی ہواوراب اس وجہ سے سامنے نہیں آسکتیں کہ اب عمرکے آخری حصے میں وہ اپنی اولادکیلئے مشکل پیداکردیں گی ،کیا اس کے بچوں کو ہمارامعاشرہ معاف کردیگا کہ ان کی ماں ایک سکھ تھی۔ وہ ٹھنڈی سانس لے کربولی جب تک میرے دل کی دھڑکن چل رہی ہے اورمجھے پاکستان آنے کی اجازت ملتی رہے گی میں لاجو کی تلاش جاری رکھوں گی۔ شاید دونوں ملکوں میں ہم جیسی عمرکے لوگوں کی یہ آخری پیڑی ہوگی جسے اپنوں کی تلاش ہے اورہماری زندگیوں کے ساتھ ہی شاید یہ تلاش بھی ختم ہوجائے گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story