تھر کا بحران حقیقت کیا ہے
تھر میں قحط کے آثار سامنے آ گئے۔ اس وقت تک 470 افراد جن میں 300 بچے بھی شامل ہیں، جاں بحق ہوچکے ہیں،
MIRPUR:
تھر میں قحط کے آثار سامنے آ گئے۔ اس وقت تک 470 افراد جن میں 300 بچے بھی شامل ہیں، جاں بحق ہوچکے ہیں، جب کہ قحط سالی نے 10 ہزار جانوروں کو بھی نگل لیا ہے۔ سندھ حکومت کی نااہلی کا اقرار سندھ کے سینئر وزیر منظور وسان کی رپورٹ میں ہوا۔
منظور وسان نے پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر یہ رپورٹ تیار کی۔ بلاول ہاؤس نے اس رپورٹ کے مندر جات کو مسترد کر دیا ہے، یوں وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ بظاہر سرخرو ہو گئے مگر وسان رپورٹ میں پیش کیے گئے حقائق نے ذرایع ابلاغ میں تھر کے بارے میں شایع اور نشر ہونے والی رپورٹوں کی تصدیق کر دی ہے۔ اس رپورٹ نے پیپلز پارٹی میں گروپنگ کی صورتحال کو واضح کر دیا ہے۔ لگتا ہے کہ آصف علی زرداری صورتحال کی سنگینی کو محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
سندھ کے اینٹی کرپشن کے وزیر منظور وسان کی اس رپورٹ میں بہت سے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مٹھی کے ڈپٹی کمشنر کو حیدرآباد، صوبائی اور وفاقی اداروں کی جانب سے منرل واٹر کی 21 ہزار بوتلیں فراہم کی گئی تھیں مگر صرف 4 ہزار بوتلیں پیاسے تھری باشندوں میں تقسیم ہوئیں، باقی گودام میں محفوظ رہیں۔ ان بوتلوں کے استعمال کی میعاد ختم ہو گئی اور بچے، بوڑھے، عورتیں اور نوجوان پیاسے ہی رہ گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تھر کے باشندوں کا دارومدار غلہ و پانی پر ہے، محکمہ لائف اسٹاک کے پاس 6.5 ملین جانوروں کا ریکارڈ موجود ہے۔ قحط کی بنا پر غلہ کی کمی کی بنا پر جانوروں میں قوت مدافعت کم ہو گئی۔ صرف 7 لاکھ جانوروں کو ٹیکے لگائے گئے اور ادویات دی گئیں، باقی ادویات اور ٹیکے کہاں گئے، سرکاری ریکارڈ اس بارے میں مکمل طور پر خاموش ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جاپان کی حکومت نے تھر کے لیے جدید سہولتوں سے لیس موبائل ڈسپنسریاں فراہم کی تھیں۔ محکمہ یہ جدید ڈسپنسریاں فعال نہیں کرسکا۔ ان کے ساتھ دو ایئر کنڈیشنڈ گاڑیاں بھی دی گئی تھیں تاکہ ڈاکٹر صاحبان ان ڈسپنسریوں کے ساتھ دور دراز علاقوں میں جا کر مریضوں کا علاج کریں مگر ایک کار صوبائی وزیر کے فارم ہاؤس اور ایک مٹھی کے ایک افسر کے استعمال میں ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قحط سالی سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے گندم کی 3 لاکھ 800 بوریاں متعلقہ افسران کے حوالے کی گئی تھیں مگر اناج کی یہ بوریاں غریبوں میں تقسیم نہیں ہوئیں۔ ان بوریوں کو بااثر سیاسی رہنما، ان کے کارندے اور سرکاری افسران اپنے گھروں کو لے گئے۔ غریبوں کو تقسیم کی جانے والی بوریوں سے مٹی نکلی۔
منظور وسان پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن ہیں، ان کی وابستگی مشکل ترین حالات میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی۔ انھوں نے دیانتداری سے تھر میں قحط سالی کے اثرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ کو واضح کردیا ہے۔ تھر کے بحران کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی کی اچھی طرز حکومت سے محرومی اور بدعنوانی کو ادارہ جاتی حیثیت دینے کی وجہ سے ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی حکومت کی کارکردگی وفاق اور باقی صوبوں کے معاملے میں مایوس کن ہے۔ سندھ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ سرکاری محکمے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے پیسے وصول کرنے میں مصروف ہیں۔
ترقیاتی منصوبوں پر خاطرخواہ رقم خرچ کی جاتی ہے مگر ناقص منصوبہ بندی، انتظامی کنٹرول نہ ہونے اور بدعنوانی کی بنا پر منصوبے وقت پر مکمل نہیں ہوتے۔ حکومت سندھ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں انتظامی بدحالی کی ایک بنیادی وجہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا مکمل طور پر بااختیار نہ ہونا بھی ہے۔ سندھ حکومت کے معاملات میں 2008ء سے 2013ء تک ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس سے مداخلت ہوتی رہی اور 2 سے 3 وزراء کو وزیر اعلیٰ کے اختیارات حاصل رہے جب کہ گزشتہ 5 برسوں کے دوران وزیر اعلیٰ اتنے کمزور ثابت ہوئے کہ محکمہ تعلیم میں تعینات اپنی ایماندار اور متحرک بیٹی کو بھی سیکریٹری تعلیم کے عہدے پر برقرار نہیں رکھ سکے۔
محض وزیر اعلیٰ ہی کمزور نہیں ہوئے بلکہ اس وقت محکمہ تعلیم کے چپڑاسی سے ڈائریکٹر تک کی ہر اسامی فروخت ہوتی رہی۔ محکمہ تعلیم نے 13 ہزار افراد کو ورلڈ بینک کے طے کردہ قوائد کو نظرانداز کرتے ہوئے اساتذہ کی حیثیت سے بھرتی کر لیا۔ اب یہ 13 ہزار افراد دھرنے دے کر، ہڑتالیں کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کی نیک نامی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی وزیر اعلیٰ مکمل طور پر خودمختار نہیں ہوئے۔ اب پھر تین بااثر شخصیات وزیراعلیٰ کے اختیارات استعمال کر رہی ہیں۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال قائم علی شاہ کی وزیر اعلیٰ کی میعاد میں توسیع کی وجہ سے ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص کارکردگی کی ایک اہم وجہ اچھی طرزِ حکومت کو اہمیت نہ دینا بھی ہے۔
پبلک ایڈمنسٹریشن کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اچھی طرزِ حکومت بدعنوانی کے خاتمے سے منسلک ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں بدعنوانی کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ پر تو بدعنوانی کا ذاتی طور پر کوئی الزام نہیں ہے مگر ان کے وزراء پر اس طرح کے الزامات کی بھرمار ہے۔ کسی بھی محکمے میں تقرری اور تبادلے کے لیے رقم کی فراہمی تو معمول کی بات ہے۔
ذرایع ابلاغ میں ایسی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ ہر محکمے میں تقرر اور تبادلے کے لیے لی جانے والے رقوم کی تقسیم میں اعلیٰ ترین شخصیات کا بھی حصہ ہوتا ہے اور جو افسران اعلانیہ رشوت لیتے ہیں وہ بعض اوقات لوگوں کو اپنی یہ مجبوری بیان کرتے ہیں۔ ایک اور وجہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا نہ ہونا ہے۔ ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ غربت کے خاتمے اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم کیا جائے تا کہ یونین کونسل بھی انتظامی اور مالیاتی طور پر بااختیار ہو کر لوگوں کے مسائل ان کے گھروں پر حل کر سکے۔ اس ضمن میں تھر کی صورتحال کا ذکر زیادہ ضروری ہے۔
اگر سندھ میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام قائم ہو تو یونین کونسل سے لے کر ڈسٹرکٹ کونسل تک منتخب نمایندے قحط اور خشک سالی شروع ہوتے ہی امدادی کارروائیوں کے لیے فعال ہو جائیں گے، غذائی اجناس اور ادویات کی گھر گھر فراہمی آسان ہو جائے گی۔ اسی طرح انسانوں اور جانوروں کو طبی سہولتوں کی فراہمی کا معاملہ بھی آسان ہو جائے گا۔ یوں بیوروکریسی کو بدعنوانی کے مواقع کم ملیں گے۔ حکومت کو نچلی سطح تک امدادی کاموں کے لیے آسانی ہو گی۔ اب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو امدادی کاموں کے لیے ڈویژن کی سطح کی بیوروکریسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یوں بدعنوانی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے منظور وسان رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے اور بلاول ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بلاول خود صورتحال کی نگرانی کر رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس حقیقت کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ تھر کے عوام کی مدد کے لیے دائیں بازو کی انتہاپسند تنظیمیں متحرک ہو گئی ہیں۔ یہ تنظیمیں صرف امدادی کام ہی نہیں کرتیں بلکہ لوگوں میں مخصوص مائنڈ سیٹ کو تقویت دینے کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں۔ تھر میں آبادی کا ایک حصہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے، اگر انتہاپسند تنظیموں نے تھر میں جڑیں پکڑ لیں تو نئے تضادات ابھر آئیں گے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی اور سندھ کے عوام کو ہو گا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اچھی طرز حکومت کو اپنی بنیادی پالیسی بنائے تو سندھ کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔