پہلے غربت کا علاج کیجیے

گاڑیاں بھی اپنی جیب سے لیں گے اور اپنے بچوں کی فیسیں بھی خود ادا کریں گے۔


احمد خان November 11, 2014

ملک میں مہنگائی کا عفریت بے لگام ہو چکا ہے، غربت ہے کہ تیزی سے اپنے پر پھیلا رہی ہے اور نچلے متوسط طبقے کو بھی اپنے دائرہ کار میں لے رہی ہے، خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، اور ارباب اختیار ہیں کہ لایعنی قسم کے فیصلوں اور لاحاصل اسکیموں کے لالی پاپ سے عوام کو ٹرخائے جا رہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا مژدہ سنایا جاتا ہے تو ساتھ ہی گیس و بجلی کے نرخوں میں بڑھوتری کا تیر بھی چلایا جاتا ہے۔

عوام حیراں ہیں کہ یہ کون سا کھیل ہے جو ان کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات بھی اب تک عوام کی پہنچ سے دور ہیں، مہنگائی ہے کہ وہیں پر اٹکی ہوئی ہے، ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوئی، جہاں پٹرول پر محض چند پیسے بڑھنے پر کرائے روپوں کے حساب سے بڑھا دیے جاتے تھے، کئی روپے کم ہونے پر بھی ٹرانسپورٹ مافیا کی جانب سے کرائے میں برائے نام کمی کی گئی ہے اور اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ لیپ ٹاپ کی حکومتی مشہوری فی الحال چل سو چل ہے، اب اپنی گاڑی اپنا کام کا سندیسہ قوم کو سنایا جانے لگا ہے۔ لیپ ٹاپ اسکیم کے حق میں بے شمار دلائل دیے جا سکتے ہیں لیکن یہ کہنے میں بھی کوئی دو آرا نہیں کہ یہ پیٹ بھرے معاشرے کا منصوبہ ہے۔

جس ملک میں پرائمری اسکولز میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کے والدین کے لیے بیس روپے کی فیس دینا سوہان روح ہو، جس معاشرے میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کو اپنی ہونہار اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلانا ''تلخ خواب'' بنا دیا گیا ہو، جس معاشرے کے والدین کے پاس اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانا مشکل اور انھیں زہر دے کر مارنا آسان ہو، اس معاشرے میں لیپ ٹاپ اسکیموں سے کیا حکومتی نیک نامی کا فال اپنے نام باآسانی نکالا جا سکتا ہے؟ لیپ ٹاپ اسکیم سے کئی درجے زیادہ اہم یہ ہے کہ طلبا و طالبات کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کی ریاستی اور حکومتی ذمے داری زمینی حقائق اور معاشرتی ضروریات کے تحت پوری کرنے کی خلوص دل سے سعی کی جائے۔ ایسے لاتعداد طلبا و طالبات جو ذہانت، فطانت اور قابلیت کے ہنر سے آراستہ ہونے کے باوجود خط غربت کا شکار ہو کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے، قرعہ اندازی کے دم چھلے کے بغیر ہر ایک علم کے پیاسے کی نقد آور مدد حکومتی سطح پر کی جائے۔

کیا حکومت کے ہنرکار جانتے ہیں محض غربت کے ناسورکے ہاتھوں ملک کے کتنے قابل سپوت اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں؟ کیا حکومتی ناک کان اس امر سے آگاہ ہیں کہ غربت نے تعلیم کے زیور سے روٹی کے حصول کو زیادہ اہمیت کے درجے پر لاکھڑا کر دیا ہے؟ کیا لیپ ٹاپ اسکیم سے ملک کی اکثریتی آبادی میں خوش حالی کی ہوا چل سکتی ہے؟ کیا لیپ ٹاپ سے پاکستانی شہریوں کے گھروں میں بسیرا کیے ہوئے فاقوں کو چلتا کیا جا سکتا ہے؟

اب حکومتی دماغوں نے عوام کی خوش حالی کے لیے ایک بار پھر ''گاڑیاں'' دینے کی اسکیم کی مشہوری شروع کر دی ہے۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لینے میں حرج نہیں کہ دی جانے والی گاڑیوں میں کوئی گھپلا نہیں ہو گا۔ حکومت کی جانب سے ہر مرحلے پر شفافیت کے ''ریکارڈ'' قائم کر دیے جاتے ہیں، اس اسکیم میں تمام تر شفافیت کے تحت گاڑیاں دیے جانے کے بعد بھی کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ عوام کی اکثریت کی زندگیوں میں اس اسکیم سے معاشی خوش حالی کا دور دورہ ہو جائے گا؟

حضور! ایسے مخصوص قسم کے تشہری منصوبوں سے عوام کی ابتر زندگیوں میں خوش گوار تبدیلی ممکن نہیں۔ حکومت وقت اگر عوام کو واقعتاً آسانی کا پہناوا پہنانے کی آرزو مند ہے، اس کے لیے حکومت کو بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کرنی ہو گی، حکومت کو مہنگائی کے جن کو شیشے کی بوتل میں بند کرنے کے بجائے لوہے کے صندوق میں بند کرنا ہو گا جہاں سے وہ واپس نہ آ سکے، عام آدمی پر روزگار کے دروازے کھولنے ہوں گے۔ حکومت کو ایسے معاشی اقدامات کرنے ہوں گے جس سے فی کس آمدنی میں اضافہ ہو، حکومت کے اعداد و شمار کے ماہر وزیر خزانہ کو عوام پر تھوپے گئے ٹیکسوں کے بوجھ میں کمی کرنے کا حکم نامہ جاری کرنا ہو گا۔ بظاہر کرنے کے یہ کام حکومتی دماغوں کی نظر میں سادہ اور بے وقعت ہیں، لیکن انھی حکومتی اقدامات میں عوام کی حقیقی خوش حالی اور بھلائی کا راز مضمر ہے۔

حکومت وہی بھلی کہلاتی ہے جس کے عہد میں عوام کی معاشی پرواز میں بلندی آتی ہے۔ رعایا ان حکمرانوں کے وداع پر کبھی آنسو نہیں بہایا کرتی جو ان کے اور ان کے اہل و عیال کے منہ سے نوالہ چھین کر انھیں سیب کھانے کا مشورہ دیں۔ نہ جانے حکومت کے ''صلاح کار'' حکومتی بڑوں کو عوام کے فلاح کے منصوبوں کی شروعات کی صلاح دینے کے بجائے انھیں مغلیہ طرز کے منصوبوں میں نجات کی خوش خبریاں کیوں دیتے ہیں؟ اور حکمران بھی اتنے سادہ ہیں کہ ایسے بے مقصد منصوبوں میں ہی اپنی جائے مقبولیت کا ساماں ڈھونڈتے ہیں۔ مکرر عرض ہے عوام کی معاشی حالت میں مثبت تبدیلی لائیے، پھر اس ملک کے باسی لیپ ٹاپ بھی خود لیں گے،

گاڑیاں بھی اپنی جیب سے لیں گے اور اپنے بچوں کی فیسیں بھی خود ادا کریں گے۔ سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ جب تک مجموعی لحاظ سے عوام کی معاشی حالت کے سدھار کے لیے حکومتی سطح پر کوئی ٹھوس، جامع اور قابل عمل پالیسی اختیار نہیں کی جائے گی، اس قسم کے منصوبوں اور حکومتی اقدامات سے چند فیصد عوام کی اشک شوئی کی امید تو کی جا سکتی ہے لیکن عوام کی اکثریت اسی طرح معاشی گرداب میں پھنسی رہے گی۔ اور یہ تو معیشت کے سیانے اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک عوام کی زندگیوں میں خوش گوار انقلاب نہیں آتا اس وقت تک ملک کی ترقی خواب ہی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں