نئے صوبوں کا معاملہ
1955ء میں ون یونٹ کے قیام کے بعد پاکستان میں ایک لمبے عرصے تک صرف دو صوبے ہوا کرتے تھے
لاہور:
1955ء میں ون یونٹ کے قیام کے بعد پاکستان میں ایک لمبے عرصے تک صرف دو صوبے ہوا کرتے تھے، ایک مشرقی پاکستان اور ایک مغربی پاکستان۔ آبادی کے لحاظ سے اگرچہ مشرقی پاکستان ایک بڑا صوبہ تھا لیکن طاقت اور حکمرانی کے اعتبار سے سارا منبع مغربی پاکستان کے حصے میں آیا۔
ابتدا میں ملک کا دارالخلافہ کراچی تھا جسے 1960ء میں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ۔ ملک کی بڑی آبادی کے صوبے کی اہمیت کو نظرانداز کر کے مغربی پاکستان کو فیڈرل کیپٹل ٹیریٹری کا درجہ دے کر مشرقی پاکستان میں احساس محرومیت کی بنیاد رکھ دی گئی۔
اب حکمرانوں کی ساری توجہ کا مرکز صرف مغربی پاکستان ہی رہا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ملکی فیصلوں میں شامل تک نہیں کیا گیا۔ استحصالی قوتوں نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ ان کی اِن حرکتوں سے مشرقی پاکستان کے لوگوں میں اشتعال اور نفرتوں کی آگ کس تیزی کے ساتھ بھڑکے گی کہ جس کے نتیجے میں بالآخر آزادی کے صرف پچیس سال بعد ہی ہمارا وطن دولخت ہو گیا۔ اس علیحدگی کے دیگر پس پردہ عوامل اور سازشیں خواہ کچھ بھی ہوں لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغربی پاکستان میں مقتدر حلقوں نے اپنے بنگالی بھائیوں سے کبھی انصاف نہیں کیا۔ انھیں ملکی ترقی میں وہ جائز حصہ تک نہیں دیا گیا جس کا انھیں حق حاصل تھا۔ نتیجتاً کچھ لوگوں کے غلط اور نامناسب فیصلوں کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑا ۔
بعدازاں اس بچے کچے مغربی حصے کو ایک نئے پاکستان کا نام دے کر مایوسیوں اور ناامیدیوں میں ڈوبی ہوئی قوم کو کچھ دلاسہ اور حوصلہ دیا گیا ۔ مغربی پاکستان کو پہلے ہی جنرل یحییٰ خان نے 1970ء میں ون یونٹ کا خاتمہ کر کے چار اکائیوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اب یہ چار صوبے علاقائی اور لسانی شناخت کی بنیادوں پر قائم کر دیے گئے تھے جہاں محبتوں کے بجائے نفرتوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔ یہاں بھی طاقتور طبقے نے کمزور طبقے کی بیخ کنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
جس کا جب اور جہاں بس چلا اس نے وہیں اپنا کام کر دکھایا۔ صوبہ بلوچستان کو ایک بار پھر حسب سابق نظر انداز کر دیا گیا، بلکہ وہاں بار بار گورنر راج نافذ کر کے اور فوجی آپریشن کر کے علیحدگی پسند رجحانات کی خوب آبیاری اور پرورش کی گئی۔ بلوچوں کو ان کے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں دے کر نفرتوں اور دشمنیوں کو مزید پروان چڑھایا گیا۔ ورنہ وہاں نفرت کہاں تھی، وہاں تو پروفیسر کرار حسین جیسے دانشور کو خود خواہش ظاہر کر کے جامعہ بلوچستان کا وائس چانسلر بنایا گیا تھا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں بھی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی اور ترقی کی رفتار کو باقی پنجاب کی نسبت کم رکھ کر وہاں احساس محرومی جیسے جذبات کی تخم ریزی کی گئی۔
صوبہ سندھ میں بھی دیہی اور شہری علاقوں کی تقسیم نے اندرون سندھ کے حالات تو نہیں بدلے البتہ شہری علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے ساتھ امتیازی اور تعصبانہ سلوک نے لسانی شناخت کی لکیریں اور بھی گہری کر دیں ۔ 1973ء میں کوٹہ سسٹم رائج کر کے شہروں کے پڑھے لکھے لوگوں کو ان کے جائز حق سے محروم کر دیا گیا۔ اندرون سندھ کی جن محرومیوں کو بنیاد بنا کر وہاں کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا وہ محرومیاں تو آج 40 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ختم نہ ہو پائیں۔ سندھ کے ترقیاتی بجٹ میں سے ایک بہت بڑی رقم رورل ایریا کی ترقی و خوشحالی کے لیے وقف کی جاتی رہی ہے لیکن وہاں کے لوگوں کے حالات جوں کے توں ہی رہے۔
دراصل اس رقم کا ایک بڑا حصہ مالی بدعنوانی اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، غریب عوام تک تو یہ پہنچ ہی نہیں پاتا۔ وہاں کا غریب ہاری، کسان اور مزدور آج بھی وہی بیچارگی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے جو وہ اس کوٹہ سسٹم سے پہلے گزار رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم نافذ کرنے والوں کو دیہی علاقوں میں بسنے والے نادار اور بے بس صرف سندھ صوبے ہی میں دکھائی دیے، ملک کے باقی تین صوبوں کے رورل علاقوں میں بسنے والے تو جیسے آسودگی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہاں اس کوٹہ سسٹم کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
بنیادی سہولتوں کا فقدان تو ہر صوبے کے گاؤں دیہاتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کی حالت تو انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کے ساتھ چالیس سال تک جو رویہ اختیار کیا گیا، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر جو فصل بوئی گئی وہ اب شاید پھل پھول کر تیار ہو چکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے سابقہ دور میں پنجاب میں تو ایک نئے صوبے کی تشکیل کے لیے بڑی پرزور مہم چلائی تھی، کیونکہ اس مہم سے انھیں کسی سیاسی نقصان پہنچنے کا کوئی خطرہ اور اندیشہ نہ تھا۔ اس وقت انھیں شاید یہ معلوم نہ تھا کہ جس مہم کا وہ آغاز کر رہے ہیں وہ صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ متحدہ نے بھی اس وقت ایک اتحادی کی حیثیت سے خاموشی ہی میں اپنی خیریت جانی اور سندھ میں کسی نئے صوبے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، بلکہ ہزارہ، سرائیکی اور جنوبی پنجاب کے مطالبے کی آواز میں اپنی آواز بھی پرزور انداز میں شامل کی۔
اب ان کی جانب سے اچانک مزید صوبے بنانے کی باتیں تعجب خیز بھی ہے اور حیران کن بھی۔ صرف چند ماہ میں سندھ کے حالات میں ایسی کون سی تبدیلی رونما ہو گئی کہ یہ مطالبہ بڑی مہم جویانہ انداز میں کیا جانے لگا۔ ادھر پیپلز پارٹی کے اکابرین نے بھی نئے صوبوں کو سندھ دشمنی سے تعبیر کر کے اس کی بڑی شدت سے مخالفت شروع کر دی۔ ایڈمنسٹریٹیو یا انتظامی سطح پر نئے صوبے بنانے کا مطالبہ کوئی اتنا غیر مناسب بھی نہیں ہے کہ مارنے یا مر جانے کی باتیں کی جائیں۔ ویسے بھی جب انتظامی سطح پر نئے اضلاع بنائے جا سکتے ہیں تو نئے صوبے کیوں نہیں۔
دراصل پیپلز پارٹی والوں کے لیے یہ مطالبہ ہضم کرنا اس لیے دشوار ہو رہا ہے کیونکہ یہ مطالبہ سندھ کے ان حلقوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے جن میں اکثریت کا تعلق اردو بولنے والوں سے ہے یا پھر وہ جو ہجرت کر کے ہندوستان سے سندھ میں آ بسے۔ کہنے کو تو وہ لوگ بھی اب سندھی ہی ہیں مگر انھیں گزشتہ 65 برسوں سے وہ درجہ نہیں دیا گیا جو یہاں کے مقامی لوگوں کو حاصل ہے۔ نئے صوبے بنانے کا مطالبہ اگر یہاں کے مقامی لوگوں کی طرف سے کیا جاتا تو شاید پیپلز پارٹی یا قوم پرست پارٹیوں میں سے کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ مگر چونکہ یہ مطالبہ مہاجروں کی جانب سے کیا جا رہا ہے تو اس لیے انتہائی ناپسندیدہ اور ناقابل غور ہے۔
سندھ کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی مہاجر ہجرت کر کے آ بسے، لیکن وہاں انھیں غیر مقامی کہہ کر کبھی جانا پہچانا نہیں جاتا ہے۔ نئے پنجابیوں اور پرانے پنجابیوں کی کوئی اصطلاح وہاں بولی نہیں جاتی، کوئی فرق اور امتیاز وہاں برتا نہیں جاتا۔ کراچی اور حیدرآباد میں اردو بولنے والوں سے ویسے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خود کو مہاجر کہنا چھوڑ دیں لیکن دوسری جانب انھیں غیر مقامی کی شناخت دے کر اسی دائرہ فکر میں رہنے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے۔
کراچی بین الاقوامی شہرت کا حامل ایک بہت بڑا شہر ہے۔ یہ جتنا بڑا ہے اس کے مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔ یہاں پر شہریوں کو صاف پانی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں کی گئی۔ سرکلر ریلوے ایک عرصے سے بند ہے، اسے بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ فزیبیلٹی رپورٹ ہمیشہ تیار کی جاتی ہے مگر عملدرآمد ندارد۔ فنڈز ضرور تفویض کیے جاتے ہیں لیکن کہاں خرچ ہوتے ہیں کسی کو نہیں پتہ۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور بسوں کی حالت بھی ناقابل دید ہے۔ گرین بسوں کے نام پر سیکڑوں بسیں سڑکوں پہ لائی گئیں مگر دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث جلد ہی کباڑخانوں کی زینت بن گئیں۔
شہری اب چنگ چی نامی سواری میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ آرام دہ اور باعزت ٹرانسپورٹ سسٹم کا منصوبہ یہاں کے حکمرانوں کے ذہنوں میں سماتا ہی نہیں۔ اس شہر میں اگر کبھی کوئی قابلِ ذکر کا م ہوا ہے تو وہ مصطفیٰ کمال کے دور میں ہی ہوا، وہ بھی پرویز مشرف کے تعاون اور مالی مدد سے۔ اب شہر میں نہ بلدیاتی ادارے ہیں اور نہ کوئی ضلعی نظام حکومت، شہر دن بدن مسائل و مصائب میں گھرتا جا رہا ہے۔ قتل و غارت جاری ہے، کوئی پرسان حال نہیں۔
اگر سندھ کی حدود میں رہتے ہوئے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنا دیے جائیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ کوئی علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں ہے۔ کراچی کی ترقی سندھ کی ترقی ہی ہے۔ ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ معاملات ہاتھوں سے نکل جائیں، کوئی قابل عمل حکمت عملی تیار کر لی جائے اور انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے کی تشکیل کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ یہ صرف صوبہ سندھ ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سارے پاکستان کی ضرورت ہے ۔
1955ء میں ون یونٹ کے قیام کے بعد پاکستان میں ایک لمبے عرصے تک صرف دو صوبے ہوا کرتے تھے، ایک مشرقی پاکستان اور ایک مغربی پاکستان۔ آبادی کے لحاظ سے اگرچہ مشرقی پاکستان ایک بڑا صوبہ تھا لیکن طاقت اور حکمرانی کے اعتبار سے سارا منبع مغربی پاکستان کے حصے میں آیا۔
ابتدا میں ملک کا دارالخلافہ کراچی تھا جسے 1960ء میں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ۔ ملک کی بڑی آبادی کے صوبے کی اہمیت کو نظرانداز کر کے مغربی پاکستان کو فیڈرل کیپٹل ٹیریٹری کا درجہ دے کر مشرقی پاکستان میں احساس محرومیت کی بنیاد رکھ دی گئی۔
اب حکمرانوں کی ساری توجہ کا مرکز صرف مغربی پاکستان ہی رہا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ملکی فیصلوں میں شامل تک نہیں کیا گیا۔ استحصالی قوتوں نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ ان کی اِن حرکتوں سے مشرقی پاکستان کے لوگوں میں اشتعال اور نفرتوں کی آگ کس تیزی کے ساتھ بھڑکے گی کہ جس کے نتیجے میں بالآخر آزادی کے صرف پچیس سال بعد ہی ہمارا وطن دولخت ہو گیا۔ اس علیحدگی کے دیگر پس پردہ عوامل اور سازشیں خواہ کچھ بھی ہوں لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغربی پاکستان میں مقتدر حلقوں نے اپنے بنگالی بھائیوں سے کبھی انصاف نہیں کیا۔ انھیں ملکی ترقی میں وہ جائز حصہ تک نہیں دیا گیا جس کا انھیں حق حاصل تھا۔ نتیجتاً کچھ لوگوں کے غلط اور نامناسب فیصلوں کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑا ۔
بعدازاں اس بچے کچے مغربی حصے کو ایک نئے پاکستان کا نام دے کر مایوسیوں اور ناامیدیوں میں ڈوبی ہوئی قوم کو کچھ دلاسہ اور حوصلہ دیا گیا ۔ مغربی پاکستان کو پہلے ہی جنرل یحییٰ خان نے 1970ء میں ون یونٹ کا خاتمہ کر کے چار اکائیوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اب یہ چار صوبے علاقائی اور لسانی شناخت کی بنیادوں پر قائم کر دیے گئے تھے جہاں محبتوں کے بجائے نفرتوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔ یہاں بھی طاقتور طبقے نے کمزور طبقے کی بیخ کنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
جس کا جب اور جہاں بس چلا اس نے وہیں اپنا کام کر دکھایا۔ صوبہ بلوچستان کو ایک بار پھر حسب سابق نظر انداز کر دیا گیا، بلکہ وہاں بار بار گورنر راج نافذ کر کے اور فوجی آپریشن کر کے علیحدگی پسند رجحانات کی خوب آبیاری اور پرورش کی گئی۔ بلوچوں کو ان کے پیاروں کی مسخ شدہ لاشیں دے کر نفرتوں اور دشمنیوں کو مزید پروان چڑھایا گیا۔ ورنہ وہاں نفرت کہاں تھی، وہاں تو پروفیسر کرار حسین جیسے دانشور کو خود خواہش ظاہر کر کے جامعہ بلوچستان کا وائس چانسلر بنایا گیا تھا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں بھی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی اور ترقی کی رفتار کو باقی پنجاب کی نسبت کم رکھ کر وہاں احساس محرومی جیسے جذبات کی تخم ریزی کی گئی۔
صوبہ سندھ میں بھی دیہی اور شہری علاقوں کی تقسیم نے اندرون سندھ کے حالات تو نہیں بدلے البتہ شہری علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے ساتھ امتیازی اور تعصبانہ سلوک نے لسانی شناخت کی لکیریں اور بھی گہری کر دیں ۔ 1973ء میں کوٹہ سسٹم رائج کر کے شہروں کے پڑھے لکھے لوگوں کو ان کے جائز حق سے محروم کر دیا گیا۔ اندرون سندھ کی جن محرومیوں کو بنیاد بنا کر وہاں کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا وہ محرومیاں تو آج 40 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ختم نہ ہو پائیں۔ سندھ کے ترقیاتی بجٹ میں سے ایک بہت بڑی رقم رورل ایریا کی ترقی و خوشحالی کے لیے وقف کی جاتی رہی ہے لیکن وہاں کے لوگوں کے حالات جوں کے توں ہی رہے۔
دراصل اس رقم کا ایک بڑا حصہ مالی بدعنوانی اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، غریب عوام تک تو یہ پہنچ ہی نہیں پاتا۔ وہاں کا غریب ہاری، کسان اور مزدور آج بھی وہی بیچارگی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے جو وہ اس کوٹہ سسٹم سے پہلے گزار رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم نافذ کرنے والوں کو دیہی علاقوں میں بسنے والے نادار اور بے بس صرف سندھ صوبے ہی میں دکھائی دیے، ملک کے باقی تین صوبوں کے رورل علاقوں میں بسنے والے تو جیسے آسودگی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہاں اس کوٹہ سسٹم کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
بنیادی سہولتوں کا فقدان تو ہر صوبے کے گاؤں دیہاتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کی حالت تو انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کے ساتھ چالیس سال تک جو رویہ اختیار کیا گیا، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر جو فصل بوئی گئی وہ اب شاید پھل پھول کر تیار ہو چکی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے سابقہ دور میں پنجاب میں تو ایک نئے صوبے کی تشکیل کے لیے بڑی پرزور مہم چلائی تھی، کیونکہ اس مہم سے انھیں کسی سیاسی نقصان پہنچنے کا کوئی خطرہ اور اندیشہ نہ تھا۔ اس وقت انھیں شاید یہ معلوم نہ تھا کہ جس مہم کا وہ آغاز کر رہے ہیں وہ صرف پنجاب تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ متحدہ نے بھی اس وقت ایک اتحادی کی حیثیت سے خاموشی ہی میں اپنی خیریت جانی اور سندھ میں کسی نئے صوبے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، بلکہ ہزارہ، سرائیکی اور جنوبی پنجاب کے مطالبے کی آواز میں اپنی آواز بھی پرزور انداز میں شامل کی۔
اب ان کی جانب سے اچانک مزید صوبے بنانے کی باتیں تعجب خیز بھی ہے اور حیران کن بھی۔ صرف چند ماہ میں سندھ کے حالات میں ایسی کون سی تبدیلی رونما ہو گئی کہ یہ مطالبہ بڑی مہم جویانہ انداز میں کیا جانے لگا۔ ادھر پیپلز پارٹی کے اکابرین نے بھی نئے صوبوں کو سندھ دشمنی سے تعبیر کر کے اس کی بڑی شدت سے مخالفت شروع کر دی۔ ایڈمنسٹریٹیو یا انتظامی سطح پر نئے صوبے بنانے کا مطالبہ کوئی اتنا غیر مناسب بھی نہیں ہے کہ مارنے یا مر جانے کی باتیں کی جائیں۔ ویسے بھی جب انتظامی سطح پر نئے اضلاع بنائے جا سکتے ہیں تو نئے صوبے کیوں نہیں۔
دراصل پیپلز پارٹی والوں کے لیے یہ مطالبہ ہضم کرنا اس لیے دشوار ہو رہا ہے کیونکہ یہ مطالبہ سندھ کے ان حلقوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے جن میں اکثریت کا تعلق اردو بولنے والوں سے ہے یا پھر وہ جو ہجرت کر کے ہندوستان سے سندھ میں آ بسے۔ کہنے کو تو وہ لوگ بھی اب سندھی ہی ہیں مگر انھیں گزشتہ 65 برسوں سے وہ درجہ نہیں دیا گیا جو یہاں کے مقامی لوگوں کو حاصل ہے۔ نئے صوبے بنانے کا مطالبہ اگر یہاں کے مقامی لوگوں کی طرف سے کیا جاتا تو شاید پیپلز پارٹی یا قوم پرست پارٹیوں میں سے کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ مگر چونکہ یہ مطالبہ مہاجروں کی جانب سے کیا جا رہا ہے تو اس لیے انتہائی ناپسندیدہ اور ناقابل غور ہے۔
سندھ کے علاوہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی مہاجر ہجرت کر کے آ بسے، لیکن وہاں انھیں غیر مقامی کہہ کر کبھی جانا پہچانا نہیں جاتا ہے۔ نئے پنجابیوں اور پرانے پنجابیوں کی کوئی اصطلاح وہاں بولی نہیں جاتی، کوئی فرق اور امتیاز وہاں برتا نہیں جاتا۔ کراچی اور حیدرآباد میں اردو بولنے والوں سے ویسے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خود کو مہاجر کہنا چھوڑ دیں لیکن دوسری جانب انھیں غیر مقامی کی شناخت دے کر اسی دائرہ فکر میں رہنے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے۔
کراچی بین الاقوامی شہرت کا حامل ایک بہت بڑا شہر ہے۔ یہ جتنا بڑا ہے اس کے مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔ یہاں پر شہریوں کو صاف پانی اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں کی گئی۔ سرکلر ریلوے ایک عرصے سے بند ہے، اسے بحال کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ فزیبیلٹی رپورٹ ہمیشہ تیار کی جاتی ہے مگر عملدرآمد ندارد۔ فنڈز ضرور تفویض کیے جاتے ہیں لیکن کہاں خرچ ہوتے ہیں کسی کو نہیں پتہ۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور بسوں کی حالت بھی ناقابل دید ہے۔ گرین بسوں کے نام پر سیکڑوں بسیں سڑکوں پہ لائی گئیں مگر دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث جلد ہی کباڑخانوں کی زینت بن گئیں۔
شہری اب چنگ چی نامی سواری میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ آرام دہ اور باعزت ٹرانسپورٹ سسٹم کا منصوبہ یہاں کے حکمرانوں کے ذہنوں میں سماتا ہی نہیں۔ اس شہر میں اگر کبھی کوئی قابلِ ذکر کا م ہوا ہے تو وہ مصطفیٰ کمال کے دور میں ہی ہوا، وہ بھی پرویز مشرف کے تعاون اور مالی مدد سے۔ اب شہر میں نہ بلدیاتی ادارے ہیں اور نہ کوئی ضلعی نظام حکومت، شہر دن بدن مسائل و مصائب میں گھرتا جا رہا ہے۔ قتل و غارت جاری ہے، کوئی پرسان حال نہیں۔
اگر سندھ کی حدود میں رہتے ہوئے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنا دیے جائیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ کوئی علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں ہے۔ کراچی کی ترقی سندھ کی ترقی ہی ہے۔ ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ معاملات ہاتھوں سے نکل جائیں، کوئی قابل عمل حکمت عملی تیار کر لی جائے اور انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے کی تشکیل کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ یہ صرف صوبہ سندھ ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سارے پاکستان کی ضرورت ہے ۔