بیمار خیالات سے نجات
شاہ لوئی چلا گیا، لیکن اس کی موت سے پہلے فرانس ایک حیرت انگیز تبدیلی سے دوچار ہو چکا تھا
شاہ لوئی چلا گیا، لیکن اس کی موت سے پہلے فرانس ایک حیرت انگیز تبدیلی سے دوچار ہو چکا تھا۔ فرانس کے عوام کا خون انقلاب کی آگ بھڑکا گیا۔ ان کی شریانیں غیظ و غضب سے بھر گئیں۔ فرانسیسی عوام نے یورپ کی تمام قوموں کو پیغام دیا کہ وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، وہ انھیں ہر عوام دشمن حکومت کا دشمن اور اپنا دوست پائیں گے۔ فرانس آزادی کا متوالا بن گیا اور آزادی کی قربان گاہ پر جان دینا اس کے ہر شہری کا خوشگوار مقصد بن گیا۔
وہ بادشاہ کی طویل عمری کے فضول گیت گانے کے بجائے مادر وطن کی مقدس محبت اور آزادی، محبوب ترین آزادی کے گیت گاتے تھے۔ پورے فرانس میں خوفنا ک قحط تھا۔ اسلحہ تو کیا، کھانے کو اناج، پہننے کو کپڑا اور جوتے تک نہ تھے۔ بہت سی جگہوں پر شہریوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوج کے لیے قربانی دیتے ہوئے اپنے جوتے اسے دے دیں۔ محب وطن عوام بڑی مشکل سے حاصل ہونے والا اناج اٹھا کر فوج کو دے دیتے اور خود کئی کئی روز فاقے سے رہتے۔ چمڑے کی چیزیں، باورچی خانے کے برتن، بالٹیاں، ٹوکریاں اور کئی طرح کی چیزیں فوج کو درکار تھیں۔
پیرس کی گلیوں میں لوگ یہ چیزیں اٹھائے فوج کے منتظر رہتے۔ عام لوگوں نے اسلحہ بنانے میں مدد دینا شروع کر دیا۔ قحط بہت شدید تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ فرانس، آزادی پسند فرانس، خوبصورت فرانس اگر چیتھڑوں میں ملبوس تھا تو کیا ہوا، اس کے سر پر تاج تھا۔ وہ اس تاج کو درپیش خطروں کا خاتمہ چاہتے تھے، وہ سرحدوں پر امڈتے ہوئے دشمنوں کو روکنا چاہتے تھے۔ چنانچہ فرانس کے نوجوان مادر وطن کو دشمنوں سے بچانے کے لیے سرحدوں کی طرف دوڑ پڑے۔ انھیں اپنی بھوک پیاس کی پرواہ نہیں تھی، انھیں فتح چاہیے تھی اور فرانس کا تحفظ مطلوب تھا۔
کارلائل کاکہنا ہے کہ ''بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ سبھی لوگوں کا نظریہ ایک ہو، لوگ تو صرف ان چیزوں پر ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں، جو کھائی جا سکیں یا استعمال ہو سکیں لیکن جب ان کا نظریہ اور ایمان ایک ہو جائے تو پھر ان کی تاریخ جوش و جذبے سے لبریز اور امر ہو جاتی ہے۔'' فرانس کے مردوں اور عورتوں کا یہ ایمان انھیں انقلابی بنا گیا۔ انھوں نے ان یادگار دنوں میں جو تاریخ مرتب کی، جو قربانیاں دیں، وہ ابھی تک ہمیں ولولہ بخشتی ہیں۔
ہم اگر ماضی بعید اور قریب کے سفر پر نکلیں اور یادوں کو اچھی طرح سے کھنگالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا ملک نہیں جسے کسی مرحلے پر ابتلا کا منہ دیکھنا نہ پڑا ہو۔ ہم دنیا میں واحد قوم نہیں جو انتشار، بدامنی، جہالت، تشدد، انتہاپسندی، شورش، بدحالی کی لپیٹ میں ہے، ہم سے پہلے امریکا، سوویت یونین، آئس لینڈ، اسپین، چین، برطانیہ، ہنگری، فن لینڈ، پولینڈ، کوریا، بھارت، فرانس، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، جاپان، سعودی عرب، میکسیکو، ارجنٹائن اور بہت سے دیگر ممالک بھی شورشوں، لسانی و فرقہ وارانہ فسادات، انتہاپسندی اور بدحالی کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔
امریکا کی خانہ جنگی میں ریاستوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 7 لاکھ 50 ہزار فو جی ہلاک ہوئے، جس میں انفرااسٹرکچر، فیکٹریاں، کانیں، ذرایع آمدورفت اور غذائی فراہمی کے ذرایع تباہ ہوگئے، لیکن انھوں نے اور دیگر قوموں نے ہمت نہیں ہاری، اپنے حوصلے پست نہیں کیے اور اپنے بدترین حالات کو شکست دے دی۔ مملکت روم کے حکمران اور عظیم فلسفی مارکس ادری لی نے کہا تھا ہماری زندگی ہمارے خیالات سے بنتی ہے، ہمارا ذہنی رحجان ہی ہماری قسمت کا تعین کرتا ہے، اگر ہمارے خیالات افسردہ اور پژمردہ ہیں تو ہم پر بھی افسردگی اور پژمردگی محیط ہو جائے گی، بزدلانہ خیالات ہمیں بزدل اور ڈرپوک بنا دیں گے اور بیمار خیالات ہمیں بیمار بنا دیں گے، اگر ہم ناکامی کے متعلق سوچیں گے تو ہم یقیناً ناکام رہیں گے، اگر ہم اپنے آپ پر ترس کھاتے رہیں گے تو ہر کوئی ہم سے گریز کرے گا، ہم سے دور بھاگے گا۔ پیل کے الفاظ میں آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سو چتے ہیں۔ ہمارا ذہنی رویہ ہماری جسمانی قوتوں پر ناقابل حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔
جب غیر فانی شاعر ملٹن اندھا ہوا تھا تو اس نے بھی یہ ہی حقیقت معلوم کی تھی ''ذہن خود ہی اپنا مقام ہے خود ہی بنا سکتا ہے جنت سے جہنم اور جہنم سے جنت''۔ نپولین اور ہیلن کیلر ملٹن کے اس شعر کی مکمل تفسیریں ہیں۔ نپولین کو دنیا کی ہر چیز عظمت، طاقت، دولت عہدے حاصل تھی، جن کی انسان عموماً خواہش کیا کرتا ہے، پھر بھی اس نے جزیرہ سینٹ ہیلینا میں کہا تھا میری زندگی میں مسرت کے مسلسل چھ دن بھی ایک ساتھ نہیں آئے۔ لیکن اندھی، گونگی اور بہری ہیلن کیلر کہا کرتی تھی میں نے زندگی کو بہت حسین پایا ہے، تمہارے اپنے سوا تمہیں کوئی بھی خوشی نہیں پہنچا سکتا۔ عظیم فلسفی اپکیٹیٹس کہتا ہے۔ ہمیں اپنے جسم سے ورم، پھوڑے اور رسولیاں دور کرنے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکر و کوشش کرنی چاہیے۔
فرانسیسی فلسفی مانتیں نے یہ الفاظ اپنی زندگی کا موٹو قرار دیے تھے ''انسان کو کسی حادثے سے اس قدر ضرر نہیں پہنچتا جس قدر اس رائے سے جو وہ اس حادثے کے متعلق قائم کرتا ہے''۔ ولیم جیمز جس کا آج تک عملی نفسیات میں کوئی حریف پیدا نہیں ہو سکا وہ ہمیں بتاتا ہے کہ محض ارادہ کر کے ہم فی الفور جذبات کو نہیں بدل سکتے بلکہ اس سے ہم اپنے افعال میں تغیر پیدا کر سکتے ہیں اور جب ہمارے افعال بدل جائیں گے تو ہمارے احساسات میں خودبخود تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔ جیمز لین ایلن اپنی کتاب انسان کیسے سوچتا ہے، میں لکھتا ہے ''جب کوئی شخص دوسرے لوگوں اور چیزوں کے متعلق اپنے خیالات بدلتا ہے، وہ دیکھے گا کہ دوسرے لوگوں اور چیزوں کے رویے میں خودبخود تبدیلی پیدا ہو گئی ہے۔''
انسان میں ان چیزوں کو اپنی طرف کھینچنے کی قدرت نہیں ہے، جنھیں وہ چاہتا ہے بلکہ انھیں جو کہ وہ خود ہے، وہ دیوتا جو ہماری خواہشوں اور آزوؤں کو تکمیل کا روپ دیتے ہیں خود ہم ہی ہیں۔ ایک انسان محض اپنے خیالات کو بلند کر کے ابھار کر آگے بڑھ سکتا ہے، ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے اور کامیابی کی کشی میں سوار ہو سکتا ہے۔ اگر وہ اپنے خیالات کو ابھارنے سے انکار کرے گا تو وہ صرف حقیر، کمزور، ادنیٰ اور شکستہ حال رہے گا۔
یہ صحیح ہے کہ ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں لیکن کسی محاذ پر پسپا نہیں ہوئے۔ پاکستانی قوم میں بھی تعجب خیز خوبی منفی کو مثبت میں بدل دینے کی خوبی ہے اور انھوں نے ہر محاذ پر یہ ثابت بھی کیا ہے کہ ہمارا شمار دنیا کی بہادر قوموں میں ہوتا ہے۔ دنیا کی دیگر قوموں کی طرح آج ہم پر بھی مشکل وقت آیا ہوا ہے، یہ ہماری آخری منزل ہرگز نہیں، ہم بھی جلد ہی کامیابی، خوشحالی، اور امن کی کشی میں سوار ہو جائیں گے بس ہمیں اپنا ذہنی رویہ تبدیل کر نا ہو گا۔ ہمیں اپنے فرسودہ، افسردہ، پژمردہ، بزدلانہ اور بیمار خیالات سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ اپنی سوچ یکسر تبدیل کرنا ہو گی۔
اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنا ہوں گے۔ دہشت گردی، غربت، جہالت، بیماریاں، بدامنی، انتہاپسندی ہرگز ہمارا مقدر اور نصیب نہیں ہے۔ اس بات پر ہمیں اعتماد ہونا چاہیے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ہم اعتماد کے سہارے چلتے ہیں بینائی کے سہارے نہیں۔ انگریزی کہاوت ہے جب ارادہ بن جائے تو راستہ مل جاتا ہے۔ ایمرسن کہتا ہے جو آدمی ارادہ کر سکتا ہے اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ پاکستان کے عوام کو بس اعتماد، ارادہ، ہمت، حوصلہ کرنا ہو گا اور فرانس کے لوگوں کی طرح قربانیوں کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا، پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ہم ایک جمہوری، خوشحالی، ترقی یافتہ اور پرامن قوم میں تبدیل ہو جائیں گے۔