ہم تو تھک گئے ہیں
آج کل کچھ جگہوں پر ہونے والی بحث میں پاکستان کو میکسیکو کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے،
جب منہ کو خون لگا ہو تو پھر پانی اچھا نہیں لگتا، اور اگر کبھی مجبوراً پانی پینا ہی پڑ جائے تو اس کا رنگ بھی سرخ کر دیا جاتا ہے۔ آج کل کچھ جگہوں پر ہونے والی بحث میں پاکستان کو میکسیکو کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، خصوصاً کوٹ رادھا کشن میں ہونے والے ہولناک واقعے اور میکسیکو میں 43 لوگوں کے زندہ جلانے کو۔ پاکستان اور میکسیکو میں کئی باتیں یکساں ہیں اور دونوں ''کافی کلب'' میں بھی ساتھ ہیں، جس میں سے ایک اہم بات امریکا ہے۔ امریکا اپنے سامنے کسی کو پھلنے پھولنے نہیں دے سکتا اور خاص طور پر اپنے کسی پڑوسی کو تو وہ ایک قدم بھی نہیں چلنے دیتا۔
براعظم امریکا میں امریکا ریاست نے جو کچھ کیا ہے اسے تاریخ میں کبھی بھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح ہمارے یہاں پہلے برداشت کو ختم کروا کر امریکا نے ہمیں نام نہاد جنگوں کی طرف دھکیلا، ہمارے معاشرے سے ایک دوسرے کا احترام ختم کر کے نفرتوں کے وہ انگارے جلائے کہ کوٹ رادھا کشن میں عیسائی جوڑے کو جلایا جانا صرف اس کا جز ہے اور کُل وہ ہے جو ہم کراچی سے لے کر خیبر اور لاہور سے لے کر کوئٹہ تک ہر روز دیکھ رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح کئی لوگ ٹھوس بنیادوں پر یہ کہتے ہیں کہ جس طرح انکل سام ہمارے یہاں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر لایا بالکل اسی طرح میکسیکو میں پھیلی منشیات بھی وہ ہی لایا۔
اب جس طرح نام نہاد طور پر پاکستان میں برداشت پیدا کرنے کے لیے وہ فنڈنگ کر رہا ہے اسی طرح ظاہری طور پر وہ میکسیکو سے منشیات ختم کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح اس نے ملٹری سے لے کر سول حکومت کی مدد کا ٹھیکہ پاکستان میں اٹھایا ہے، اسی طرح میکسیکو کی سابقہ حکومت کو دل کھول کر پیسہ دیا گیا۔ پاکستان کو یہ سوچ کر کہ یہاں سے دہشت گردی نہ پھیلے اور میکسیکو کو اس لیے کہ منشیات اور خونی کھیل امریکا میں نہ کھیلا جائے، مگر ان دونوں جگہوں پر اصل مقصد صرف اور صرف اپنے کنٹرول کو مضبوط سے مضبوط کرنا ہے۔ اگر میکسیکو کی کہانی کو پاکستان پر نام بدل کر دیکھا جائے تو کوئی فرق نظر نہیں آئے گا، صرف ایک انفرادی کہانی سے ساری صورتحال آپ کی سمجھ میں آ جائے گی۔
میکسیکو کا جنوبی شہر ''اگیوالا'' ہے جہاں 'جوز لوئس ابرکا' کا خاندان ایک عرصے سے ٹوپیاں بیچتا تھا اور ابرکا بھی اپنے وراثتی کام کے ساتھ وابستہ ہو گیا مگر اس کے خیالات اور خواب بہت بڑے تھے۔ دوسری طرف میکسیکو مافیا کے قبضے میں جا چکا تھا۔ پورے ملک پر طاقتور مافیا کا کنٹرول تھا، جو اب کسی نہ کسی طور پر پڑوسی امریکا کی بات نہیں مانتے تھے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی ایسا شخص حکمران بنے جو امریکا کی خواہشات پر پوری طرح عمل کرے اور پھر ایسا شخص مل گیا۔ کلڈارون نے وہی کیا جو اسے امریکا نے کہا، اس نے کئی ایسے گروپوں کے خلاف کارروائی کی جس سے لوگوں سے زیادہ امریکا خوش نہیں تھا۔
اسی لیے میکسیکو میں اکثر اس کے لیے کہا جاتا تھا کہ میکسیکو امریکا کی کالونی بن گئی ہے۔ جو کبھی کبھی پاکستان میں رہنے والے بھی کہتے ہیں۔ ہزاروں لوگوں کو قتل کیا گیا۔ اسی دوران اگیوالا میں ایک خاندان نے اپنا اثر بنانا شروع کیا۔ Pineda پینیڈا کے تین لڑکے میکسیکو کے بڑے گروپ کو چلانے لگے اور امریکا کی کئی ریاستوں میں ہیروئن سے لے کر ہر طرح کی ناجائز سپلائی وہ اسی جگہ سے چلاتے، جن کے بہت اچھے تعلقات ابرکا سے تھے۔ اور پینڈا خاندان کا بڑھتا اثر و رسوخ اور پیسہ دیکھ کر ابرکا کا جھکاؤ بہت زیادہ بڑھ گیا۔
بھائی اپنے کاموں میں انتہائی مصروف رہتے لیکن ان کی بہن ماریالوس بھی ان کے کاموں میں حصہ ڈالتی رہتی۔ ابرکا نے ماریالوس کی طاقت کو دیکھتے ہوئے اس کو اپنا بنانے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف ماریالوس ایک جذباتی اور غصے کی تیز لڑکی بھی ابرکا کو دل دے بیٹھی۔ تھوڑا سا ڈرپوک ابرکا دولت تو چاہتا تھا مگر اپنے ہاتھ صاف رکھنا چاہتا تھا۔ ماریالوس نے اس کی مدد کی اور وہ سونے کا کاروبار کرنے لگا اور چند سال میں ہی وہ علاقے کے امیر لوگوں میں شمار ہونے لگا۔ دوسری طرف ماریالوس کے بھائیوں کو 2009ء کے پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔ دو بھائیوں کے بعد تیسرا بھائی سولومن سارا کاروبار دیکھنے لگا۔
ماریالوس کی ابرکا سے شادی ہو گئی۔ طاقت میں مزید اضافے کے لیے ابرکا کو ماریا کے بھائی نے پیسے دیے اور اس نے ایک بہت بڑا شاپنگ مال تعمیر کروایا۔ شاندار پلاننگ دیکھیں کہ بھائی منشیات کا اسمگلر، شوہر کالی دولت کو سفید کر رہا تھا اور ماریالوس نے بڑے پیمانے پر سماجی کاموں کا آغاز کیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ماریا کی بات بھائی نہیں ٹالتے تھے اور بھائی ناراض نہ ہو جائے اس لیے شوہر بھی ماریا کی ہر بات مانتا تھا۔
خاندان نے طے کیا کہ اب سیاست میں بھی قدم رکھا جائے۔ مافیا کی طاقت ہمارے پاس ہے، لوگ ہمارے خلاف نہیں جائیں گے۔ دکھانے کے لیے سفید دولت ہے اور سماجی کاموں کے لیے ماریا کا ظاہری چہرہ ہے۔ جون 2012ء میں میکسیکو میں الیکشن ہو رہے تھے۔ خاندانی طور پر ہوئے فیصلے کے مطابق ابرکا نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ میکسیکو میں دو اہم جماعتیں ہیں، ایک PRD اور دوسری PRI، حیرت کی بات ہے کہ دونوں جماعتوں نے اسے ٹکٹ کی آفر کی اور پھر صاحب نے PRD کا ٹکٹ لے لیا۔ سیاست کا کوئی تجربہ نہ ہونے کے باوجود جناب مئیر بن گئے۔
ایسے کرشمے آپ اپنے علاقوں میں اکثر دیکھتے ہوں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ٹکٹیں بانٹی جا رہی تھی اس سے کچھ پہلے ہی PRD اگیوالا کے سب سے اہم کارکن اور سوشل ورکر کو مار دیا گیا، کیونکہ سب سے مضبوط امیدوار وہ ہی تھا۔ ماریا اور اس کے بھائی پولیس کو ایک بھاری ہفتہ دیتے تھے، اس لیے پولیس بس صرف اتنا کرتی تھی کہ منہ دوسری طرف کر لے۔ اب پولیس کے ساتھ ان کا میونسپل کمیٹی میں بھی اثر بڑھ گیا تھا۔ ابرکا نے اپنے تمام قریبی رشتے داروں کو اس میں ڈال دیا۔ ہر طرف اب بس ان کا راج تھا اور سمجھ یہ رہے تھے کہ اب وہ ہی خدا ہے۔
مقامی پالیسی کے باعث طلبا اور اساتذہ نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ ماریا اور ابرکا کو ان سے کوئی تشویش نہیں تھی۔ لیکن ایک جگہ ماریا کو خطاب کرنے جانا تھا۔ طلبا نے یہ پروگرام بنایا کہ میئر جہاں جائے گا اب وہاں اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔ ماریا نے پولیس کو حکم دیا کہ جس بس میں مظاہرین جا رہے ہیں انھیں روک دیا جائے۔ پولیس ایک طرف تو سرکار سے تنخواہ لیتی ہے، جس کے میئر ماریا کے شوہر تھے اور پولیس تین گنا پیسہ جہاں سے لیتی ہے وہ ماریا کا بھائی تھا۔ پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپ ہوئی اور چھ لوگ مارے گئے۔
لیکن پولیس سے بات کنٹرول نہیں ہوئی تو ماریا نے اپنے بھائی کی مدد لی اور پولیس نے ان طلبا کو پکڑ کر گینگ کے حوالے کر دیا۔ گینگ والوں نے صاحب کے حکم کی تعمیل کی اور 43 طلبا کو پہلے قتل کیا اور پھر انھیں کچرے کے ڈھیر میں ڈال دیا، جہاں مزید ٹائر، لکڑی اور تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ ایک رات اور دن یہ آگ لگی رہی اور اس کے بعد اس راکھ کو اٹھا کر پانی میں بہا دیا۔
اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو حیرت مت کیجیے گا کہ جب اگلی صبح ابرکا سے پوچھا گیا کہ 43 طلبا غائب ہیں تو اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہیں، میں تو رات کو اپنی بیوی کے ساتھ ڈانس کر رہا تھا، جس کے بعد میں نے کھانا کھایا اور سو گیا۔ ہمارے یہاں بھی بس ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب شور بڑھا تو وفاقی حکومت جاگ گئی، ابرکا اور ماریا بھاگ گئے، جنھیں 6 ہفتوں بعد گرفتار کیا گیا۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ جب اٹارنی جنرل پریس کانفرنس کرنے کے لیے آئے تو کہنے لگے کہ ''میں اب تھک گیا ہوں''۔
ان کے اس بیان کے ایک گھنٹے بعد میکسیکو میں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پیغام پھیل گیا کہ ''ہم بھی اس نظام سے تھک گئے ہیں'' اور بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے۔ دو سال پہلے آنے والے صدر نے بہت سی امریکی پالیسیاں تبدیل کی ہیں۔ میکسیکو میں اب اس جملے ''میں اب تھک گیا ہوں'' کو لے کر ایک بہت بڑی مہم چل رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے اس کا حال بھی دھرنوں جیسا ہو گا یا پھر میکسیکو کی عوام واقعی اب تھک گئی ہے۔ کیونکہ ہم تو تھک گئے ہیں، بس معاف کر دو اب۔