سفر زندگی اتنا آساں نہیں تھا
رستہ بھی مجھ پر مہرباں نہیں تھا
عجب تشنگی میری ذات کا حصہ رہی
زمین تھی قدموں تلے تو آسماں نہیں تھا
اس رُت نے مجھے اجاڑ کر رکھ دیا
جس موسم کا نام خزاں نہیں تھا
زندگی کے ایک موڑ پر وہ کچھ ہوا
جس کا مجھے کبھی بھی گماں نہیں تھا
مجھے عمر بھر کا روگی بنانے والا
بشر کا روپ دھارے تھا انساں نہیں تھا
قدموں میں لرزش نگاہ میں خوف تھا
کیسے کہ دوں میرا وجود ہراساں نہیں تھا
اس کی نظروں سے اضطراب جھلکا تھا
اور وہ کہتا ہے میرے لئے پریشاں نہیں تھا
منزل میرے سامنے کھڑی تھی فرح
اس رستے سے پلٹ جانا آساں نہیں تھا
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے غزل لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔