پاکستان ایک نظر میں آج میں بہت خوش ہوں
پیاری ڈائری!
آج میں بہت خوش ہوں۔ سنا ہے کل کسی وزیر نے بیان دیا ہے کہ ملک میں روزانہ 600 بچے ہلاک ہوجاتے ہیں لہٰذا تھر کے صرف دو بچوں کی موت پر واویلا کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ ان وزیر کے بیان کے بعد پورے صحرا میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ہم سب کو امید ہے کہ اب بہت جلد حکومت ہمارے مسائل کا نوٹس لے گی اور ہمارے دیرینہ مسائل حل ہوجائیں گے۔
تم تو جانتی ہو کہ جس خطہ زمین سے میرا تعلق ہے اس کا نام تھر ہے۔ یہاں دور دور تک صرف ریت، غربت اور موت دکھتی ہے، جس طرح دوسرے شہروں کے لئے قحط کا ہونا ایک اچنبھے کی بات ہے اسی طرح ہمارے لئے پانی کا آجانا ایک حیرت کی بات ہوتی ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز کو 15 سال ہونے کو آرہے ہیں مگر تھر کے باسی آج بھی پانی کی فراہمی کے لئے بادلوں کے محتاج ہیں۔ حکومت کو ہمارے مصائب اور ہر سال کے قحط کا اندازہ ہے اس لئے اس نے ہمارے لئے 400 کلومیٹر طویل سڑکیں بنا دی ہیں تاکہ جب قحط سالی ہو تو امدادی سامان بانٹتے وقت تصویر کھنچوانے کے لئے آنے میں آسانی رہے۔ مگر خیرپور سے تھر تک پانی کی لائن بچھانے میں چونکہ بہت زیادہ خرچہ آتا ہے اور ہم ایک غریب ملک کے شہری ہیں لہٰذا ابھی ہم پانی جیسی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
انشاءاللہ جب موٹروے بن جائے گی، سندھ فیسٹیول ہماری پہچان بن جائیں گے، ٹیلی وژن کے اشتہارات کے ذریعے حکومت کے کارہائے نمایاں کی تشہیر ہوجائے گی، تب اگر پیسے بچے تو حکومت انشاءاللہ اس بارے میں بھی سوچے گی۔ صحرا کی زندگی میں سب سے اہم چیز امید ہوتی ہے۔ بارش کی امید، گندم میں سے مٹی نہ نکلنے کی امید، سال میں دو مرتبہ ڈاکٹر کے آنے کی امید۔ سو ان سب امیدوں کے ساتھ ساتھ ایک امید اگر یہ بھی لگا لی جائے کہ کبھی نہ کبھی ہمارے صحرا میں بھی پانی پہنچ جائے گا، تو اس میں کوئی ایسی برائی بھی نہیں۔
خیر ان سب باتوں سے تمہیں کیا غرض؟ تم تو ایک ڈائری ہو اور حکومت کی طرح احساسات سے عاری بھی۔ تم سے یہ سب باتیں کرنے کا کیا مقصد؟ مگر میں کیا کروں؟ تم سے نہ کہوں تو کس سے کہوں؟ صحرا میں پانی مدت ہوئے ختم ہوچکا ہے۔ بارشیں اس سال بھی نہیں ہوئی ہیں۔ جو پانی کے جوہڑ بچے ہوئے ہیں ان پر اس وقت انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پی رہے ہیں، کیا کریں؟ جاندار دونوں ہیں۔ اور اس پیاس کی بلا سے دونوں ہی محٖفوظ نہیں۔ اور پانی کی اس کمیابی کی وجہ سے اب صحرا میں لوگ بلاوجہ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ زیادہ بات کرنے سے حلق خشک ہوجاتا ہے اور جب حلق خشک ہوتا ہے تو پیاس نامی ناگن اپنا بڑا سا پھن پھیلائے ہمیں ڈسنے آجاتی ہے۔
پیاری ڈائزی! مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔ مگر میرے اندر ایک گھٹن ہے اور شدید گھٹن ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی تو عاشورہ تھا۔ وہ دن جب ہم تمام مسالک و مذاہب سے بلند ہوکر امام حسین کی پیاس کو یاد کرتے ہیں۔ مجھے لگا تھا کہ جب پیاس کا ذکر ہوگا تو لوگوں کو اپنے پڑوس میں موجود لوگوں کی پیاس کا بھی خیال آئے گا۔ حکومت کچھ کرے نہ کرے، کوئی نہ کوئی مخیر انسان ضرور امام حسین کی یاد میں ایک پانی کی سبیل اس صحرا میں بھی لگانے آئے گا۔ سنا ہے کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں شیعہ اور سنی بھائی مل کر سبیلیں لگاتے ہیں۔ جہاں شربت اور چائے اور انواع و اقسام کے مشروبات سے لوگوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ شربت نہیں تو کم سے کم پانی کی ایک سبیل تو کوئی پیاسوں کی اس بستی کے لئے بھی لیکر آئے گا۔ اب مگر سوچتا ہوں کہ غلطی ہماری ہی ہے۔ اگر ہمارے علاقے کے لوگ بھی پڑھ لکھ جاتے اور کسی اچھے میڈیا ہاؤس میں لگ جاتے تو یہاں بھی میڈیا کے کیمرے آجاتے۔ کیمروں کا انتظار کرنے والے مخیر حضرات کیا پتہ اس ہی بہانے یہاں آن نکلتے؟
خیر یہ سب تو اداس کردینے والی باتیں ہیں اور میں اب مزید اداس نہیں رہنا چاہتا۔ آج میں بہت خوش ہوں۔ سنا ہے کل کسی وزیر نے بیان دیا ہے کہ ملک میں روزانہ 600 بچے ہلاک ہوجاتے ہیں لہٰذا تھر کے صرف دو بچوں کی موت پر واویلا کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ ان وزیر کے بیان کے بعد پورے صحرا میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ ہم سب کو امید ہے کہ اب بہت جلد حکومت ہمارے مسائل کا نوٹس لے گی اور ہمارے دیرینہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ ہم سب نے اپنے گھروں سے ایک ایک بچہ چن کر 598 بچے جمع کرلئے ہیں جنہیں ہم آج رات ذبح کردیں گے۔ ہم سب کو یقین ہے کہ 600 کا ہندسہ عبور کرنے کے بعد ہمارا مسئلہ اس قابل ہوجائے گا کہ اس پر واویلا کیا جاسکے اور حکومت اس پر نوٹس لے۔ ایک دفعہ حکومت نے نوٹس لے لیا تو پھر امید ہے کہ ہمارے سارے مسائل بھی انشاءاللہ حل ہوجائیں گے۔
بچپن میں کہانیوں میں سنتے تھے کہ زمینی خدا خون کی بلی لئے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ان 12 لاکھ پیاسوں کی اذیت مٹانے کے لئے یہ 598 بچوں کی بلی چڑھانا کوئی برا سودا نہیں۔ اب مجھے اجازت دو، رات کیلئے تیاری بھی کرنی ہے۔
والسلام
پیاسا حسین
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔