روبوٹک خلائی لینڈر نے دم دار ستارے کی سطح پراترکرنئی تاریخ رقم کردی
مشن کی بدولت کائنات کے چند اہم رازوں سے پردہ اٹھایا جاسکے گا جو شمسی نظام کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،سائنسدان
خلائی سائنس نے دم دار ستارے کا راز جاننے کے لیے اس کی سطح پر اترنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور یوں اس کامیاب لینڈنگ سے سائنس کی نئی تاریخ رقم ہوگئی جس سے کائنات کے کئی رازوں سے پردہ اٹھنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
یورپی خلائی ایجنسی کے مطابق روبوٹک خلائی لینڈر ''فلائے روبوٹ دم دار ستارے 67 پی یا چوریوموف پر اترنے کے لیے'' مدارمیں خلائی جہاز روسٹا سے الگ ہونے کے بعد کچھ ہی گھنٹوں بعد دم دار ستارے کی سطح پر اتر گیا ہے اور یوں اسکی ناکامی کے تمام خدشات دم توڑ گئے ۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ اس مشن کی بدولت کائنات کے چند اہم پراسرار رازوں سے پردہ اٹھایا جاسکے جو ہمارے شمسی نظام کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اب تک سابقہ مشن میں سے کسی نے بھی دم دار ستارے پر کامیابی سے لینڈگ نہیں کی اس لیے بھی اس کامیابی کو بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔ سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ دم دار ستارے پر لینڈنگ میں جن مشکلات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا وہ وہاں کم کشش ثقل اور 4 کلومیٹر پر موجود برف کے پہاڑتھے۔ اب اس مشن کی تکمیل کے بعد اس آلے سے ایسی تصاویر حاصل ہوں گی جس کی بدولت وہاں موجود برف کے پہاڑوں کے بارے میں جانا جا سکے گا۔
فلائے روبوٹ کو خلائی جہاز روسٹا کے ساتھ جڑے ہوئے دم دار ستارے کی جانب اپنے سفر کی تکمیل میں 10 سال کا عرصہ لگا اور اب وہ اس سے جدا ہوکر دم دار ستارے کی سطح پر پہنچ گیا یہاں سے اس کی واپسی تو ممکن نہیں تاہم اس سے بہت قیمتی معلومات حاصل ہوں گی۔ یہ روبوٹک جہاز نظام شمسی اور دم دار ستارے کی بناوٹ سے متعلق تصاویر ارسال کرے گا۔ اس خلائی روبوٹ کا وزن 220 پاونڈز اور اس کا سائز واشنگ مشین کے برابر ہے۔ اس کے مشن میں سب سے اہم کام دم دار ستارے 67 پی کی تصاویر کا حصول اور دیگر تجربات شامل ہیں۔
پرامید ہونے کے باوجود سائنسدان اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ سطح پر اترتے وقت روبوٹ کئی جمپ لے سکتا ہے جس اس کے فلائی وہیل کمزور پو سکتے ہیں لیکن کامیابی سے لینڈنگ سے سائنسدانوں کے چہرے خوشی سے جگمگا اٹھے ہیں۔ یورپی اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس روبوٹ پر 7 کیمرے نصب کئے گئے ہیں، یہ لینڈر ایک سال تک دم دار ستارے پر تحقیقی کام کرے گا، مشن مینجر فریڈ جینسن کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس مشن کےدوران کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ دم دار ستارے اور زمین کےدرمیان 51 کروڑ کلو میٹر کا فاصلہ ہے اس لیے ریڈیو کمانڈز کو اسپیس کرافٹ تک پہنچنے میں نصف گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔
یورپی خلائی ایجنسی کے مطابق روبوٹک خلائی لینڈر ''فلائے روبوٹ دم دار ستارے 67 پی یا چوریوموف پر اترنے کے لیے'' مدارمیں خلائی جہاز روسٹا سے الگ ہونے کے بعد کچھ ہی گھنٹوں بعد دم دار ستارے کی سطح پر اتر گیا ہے اور یوں اسکی ناکامی کے تمام خدشات دم توڑ گئے ۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ اس مشن کی بدولت کائنات کے چند اہم پراسرار رازوں سے پردہ اٹھایا جاسکے جو ہمارے شمسی نظام کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اب تک سابقہ مشن میں سے کسی نے بھی دم دار ستارے پر کامیابی سے لینڈگ نہیں کی اس لیے بھی اس کامیابی کو بہت اہم قرار دیا جارہا ہے۔ سائنسدانوں کاکہنا ہے کہ دم دار ستارے پر لینڈنگ میں جن مشکلات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑا وہ وہاں کم کشش ثقل اور 4 کلومیٹر پر موجود برف کے پہاڑتھے۔ اب اس مشن کی تکمیل کے بعد اس آلے سے ایسی تصاویر حاصل ہوں گی جس کی بدولت وہاں موجود برف کے پہاڑوں کے بارے میں جانا جا سکے گا۔
فلائے روبوٹ کو خلائی جہاز روسٹا کے ساتھ جڑے ہوئے دم دار ستارے کی جانب اپنے سفر کی تکمیل میں 10 سال کا عرصہ لگا اور اب وہ اس سے جدا ہوکر دم دار ستارے کی سطح پر پہنچ گیا یہاں سے اس کی واپسی تو ممکن نہیں تاہم اس سے بہت قیمتی معلومات حاصل ہوں گی۔ یہ روبوٹک جہاز نظام شمسی اور دم دار ستارے کی بناوٹ سے متعلق تصاویر ارسال کرے گا۔ اس خلائی روبوٹ کا وزن 220 پاونڈز اور اس کا سائز واشنگ مشین کے برابر ہے۔ اس کے مشن میں سب سے اہم کام دم دار ستارے 67 پی کی تصاویر کا حصول اور دیگر تجربات شامل ہیں۔
پرامید ہونے کے باوجود سائنسدان اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے تھے کہ سطح پر اترتے وقت روبوٹ کئی جمپ لے سکتا ہے جس اس کے فلائی وہیل کمزور پو سکتے ہیں لیکن کامیابی سے لینڈنگ سے سائنسدانوں کے چہرے خوشی سے جگمگا اٹھے ہیں۔ یورپی اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس روبوٹ پر 7 کیمرے نصب کئے گئے ہیں، یہ لینڈر ایک سال تک دم دار ستارے پر تحقیقی کام کرے گا، مشن مینجر فریڈ جینسن کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس مشن کےدوران کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ دم دار ستارے اور زمین کےدرمیان 51 کروڑ کلو میٹر کا فاصلہ ہے اس لیے ریڈیو کمانڈز کو اسپیس کرافٹ تک پہنچنے میں نصف گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔