آئینی اخلاقیات کی ناکامی

حکومت کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ سماجی و اقتصادی ناہمواریوں کو انتظامی اورقانون نافذ کرنیوالےاداروں کےذریعے درست کرے۔


اکرام سہگل November 13, 2014

KARACHI: سپریم کورٹ نے حال ہی میں بہت سی پٹیشنوں کو مسترد کر دیا ہے جن میں 2013ء کے انتخابات کے بارے میں مختلف خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ 2013ء کے انتخابات سے کچھ پہلے سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ناقص انتخابی فہرستوں کو درست کیا جائے لیکن وقت کی کمی کے باعث الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کی گئی کہ انتخابات کا عمل مکمل کیا جائے اور جہاں تک ووٹروں کی تصدیق کا تعلق ہے تو اس کام کو صرف کراچی تک محدود رکھا جائے۔

بعدازاں پیدا ہونے والی بے قاعدگیوں نے تشکیک پیدا کی اور الیکشن پر دھاندلی کے الزامات عاید ہوئے جن کا نتیجہ حالیہ احتجاجی تحریک کی شکل میں برآمد ہوا۔ 19 مارچ 2014ء کو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ بلدیاتی انتخابات جو طویل عرصے سے زیر التوا ہیں 18 اگست 2014ء تک مکمل کیے جائیں تاہم صرف بلوچستان نے اس حکم پر عمل کیا۔ سپریم کورٹ کی مہلت کو ختم ہوئے تین مہینے کا وقت گزر چکا ہے لیکن جاگیردارانہ دباؤ نے جمہوریت کے ثمرات کو نچلی سطح تک منتقل ہونے نہیں دیا۔

دھرنوں کے انعقاد سے کچھ پہلے، جو 14 اگست 2014ء کو شروع ہوئے، قومی اسمبلی کے اسپیکر نے سینیٹ کے چیئرمین سے مشاورت کے ساتھ انتخابی اصلاحات کے لیے 33 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیدی جس میں 11 سینیٹرز بھی شامل تھے ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ موجودہ انتخابی عمل کی خامیاں دور کرنے کے لیے سفارشات پیش کریں تا کہ آزادانہ' منصفانہ اور شفاف انتخابات منعقد کروائے جا سکیں۔ گویا ایک لحاظ سے انھوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ ہمارے انتخابی نظام میں خامیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت نویں مرتبہ ہونے والے اجلاس میں بعض اہم لوگوں پر مشتمل ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی۔

جس کو حتمی سفارشات مرتب کرنے کا اختیار دیا گیا۔ ذیلی کمیٹی نے معاملے کو لٹکانے کے بجائے اس عمل کو تیز کر دیا۔ بعض اصلاحات آسان ہیں۔ سینیٹ کے بالواسطہ انتخابات برطانوی ہاؤس آف لارڈز کی نقل ہیں۔ حالانکہ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ بعض حالات میں سینیٹ کی نشستوں کی باقاعدہ بولی لگائی جاتی ہے جو کہ جمہوریت کی توہین کے مترادف ہے۔ ''اکثریتی ووٹ'' اور ''متناسب نمایندگی'' کسی بھی جمہوریت کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ 50 فی صد سے ایک ووٹ زیادہ ہونے سے کسی انتخابی حلقے میں مکمل اکثریت حاصل ہو جاتی ہے۔

اگر کسی امیدوار کے 50 فی صد سے زائد ووٹ نہ ہوں تو دو امیدواروں میں ''رن آف'' الیکشن کا ہونا اور متناسب نمایندگی کسی معاشرے میں یک جہتی پیدا کرنے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے بالخصوص ایسے ملکوں میں جہاں مذاہب اور فرقوں کے علاوہ نسلی نمایندگیاں بھی موجود ہوں۔ کسی مفرد معاشرے کی حدود سے بالاتر سماجی اور سیاسی مسائل ذمے دارانہ اخلاقی حل چاہتے ہیں۔ اگر کسی ملک میں سماجی اور سیاسی ماحول اخلاقیات' اقتصادیات اور فیصلہ سازی کے عمل پر محیط نہ ہوں تو قومی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

یہ حکومت کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ سماجی و اقتصادی ناہمواریوں کو انتظامی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ذریعے درست کرے۔ یہ ادارے اگر اپنے طور پر مال کمانے پر توجہ مرکوز کر دیں تو پھر وہ اصلاحات کے عمل میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بری حکمرانی ریاست پر خطرناک حد تک منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور لوگوں کی سلامتی اور فلاح خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

ایک شفاف اور موثر انتخابی نظام کے بغیر دیانتدار اور اہل لیڈرز کبھی ابھر نہیں سکتے۔قومیں اور افراد اخلاقیات کے بارے میں بڑی بلند و بالا تقاریر کرتے ہیں لیکن ان کا استعمال بہت منتخب بنیادوں پر کرتے ہیں۔ امریکا دیگر خود مختار اقوام پر ڈرون حملے کر کے شدت پسندوں کے ساتھ ان سے کہیں زیادہ تعداد میں غیر متعلقہ شہریوں کی ہلاکت کا موجب بن رہا ہے جسے وہ 9/11 کی دہشت گردانہ کارروائی کے لیے قابل احتساب گردانتا ہے اور اس حوالے سے معصوم اور بے گناہ مرنے والوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا بلکہ ان کی ہلاکت کو ''کولیٹرل ڈیمج'' کی اصطلاح میں ''کیمو فلاج'' کر دیتا ہے۔

اگرچہ اس کی یہ کارروائی قابل مذمت ہے لیکن وہ برائی کو اس کی جڑوں تک نابود کرنے کے لیے اپنے سپریم کورٹ کے جج' جسٹس اولیور وینڈل ہولمز کے اس نظریے سے استفادہ کرتا ہے کہ واضح نظر آنیوالے خطرے کے لیے پہلے سے حملہ کر دینا چاہیے۔ یعنی پیشگی حملہ۔ جس کے لیے سابق صدر بش نے pre emptive strike کی اصطلاح استعمال کی۔

عمران خان یا سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کی بات سننے کے بجائے جو انھوں نے 2013ء کے وسط میں نیشنل مینجمنٹ سینٹر کے طلبہ سے کہی تھی کہ کیا ہم میرٹ اور محنت کا انعام دیتے ہیں؟ کیا قانون کی حکمرانی کا اصول اور آئین کی بالادستی کے نظریے پر سختی سے عمل ہو رہا ہے؟ کیا ملک کے شہری اس نظام پر بھروسہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ انھیں شفاف انداز میں اپنے خوابوں کی تعبیر بتائے گا؟ کیا موجودہ نظام کرپٹ کی حوصلہ شکنی کرنے کی سکت رکھتا ہے؟ کیا ہمارے نظام میں شہریوں کے اور ان کی جائیداد کے حقوق محفوظ ہیں اور کنٹریکٹ کو پورے طور پر نافذ کیا جاتا ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔

جب فوج کو سول اقتدار کی مدد کے لیے طلب کیا گیا تا کہ بے قابو ہجوم کی ممکنہ تشدد پذیری کے سول انتظامیہ کے بس سے باہر ہونے کا اندیشہ نمایاں ہو تو فوج نے آرٹیکل 245 کے تحت اختیارات قبول کر لیے تا کہ قانون کی حکمرانی کو بحال کیا جا سکے۔ نظام مسخ ہو چکا ہے جو کہ تمام شہریوں کو مساوی مواقع فراہم نہیں کرتا کہ وہ جس میدان میں خود کو قسمت آزمانے کا اہل خیال کرتے ہیں کیا انھیں اس کا موقع ملے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں