اور چپ چاپ آنسو بہاتے رہو
خدا کروٹ کروٹ جنت کرے ضیا الحق کو جن کی بدولت آج مذہبی انتہاپسندی کے نام پر لوگ اپنی اپنی دشمنیاں نکال رہے ہیں۔
وہ بھٹہ مزدور کی بیوی تھی، چار بچوں کی ماں تھی، بھٹہ کے مالک سے قرضہ لے کر دونوں میاں بیوی نے اس وقت تک اپنی انسانی آزادی کو غلامی کی زنجیر پہنا دی تھی، جب تک کہ وہ تقریباً ایک لاکھ سے کچھ زائد لیا قرضہ بھٹہ مالک کو ادا نہیں کردیتے۔
پنجاب میں عموماً اینٹوں کے بھٹے پہ کام کرنے والے اور زمینداروں کے کھیتوں میں بیگار کرنے والے غریب مزدور معہ اپنے اپنے پورے خاندان خود کو تاحیات گروی رکھ کر پیٹ کا دوزخ بجھانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی بھی ایسا ہی کرتے تھے کہ اچانک اس بدقسمت عورت شمع کو اطلاع ملی کہ اس کا باپ مرگیا ہے۔ اس نے بھٹہ مالک کے ظالم منشیوں سے باپ کی تدفین کی اجازت مانگی۔ لیکن ہلاکو اور چنگیز خان کی روح کو شرمندہ کردینے والے بھٹہ مالک نے دونوں میاں بیوی کو کوٹھڑی میں بند کروا کے باہر سے تالا ڈال دیا اور مسجد میں جاکر اعلان کروا دیا کہ دونوں میاں بیوی نے مقدس اوراق جلائے ہیں ۔
بس پھر کیا تھا، نہ کسی نہ تحقیق کی کہ سچ کیا ہے، نہ مسجد کے رکھوالوں نے حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی اور وہ جن میں سے شاید ہی کسی نے ترجمے اور تفسیر سے قرآن مجید پڑھا ہوگا، انھوں نے جو کچھ چار معصوم بچوں کے جوان ماں باپ کے ساتھ کیا، وہ سب جانتے ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ مسلسل اور بار بار ہو رہا ہے کیونکہ مذہب کے نام پر دہشت گردی ایک بہت ہی موثر ہتھیار ثابت ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی کبھی زمین، جائیداد ہتھیانے کے لیے کبھی کسی اور مقصد کے لیے مذہبی اقلیتوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خدا کروٹ کروٹ جنت کرے ضیا الحق کو جن کی بدولت آج مذہبی انتہاپسندی کے نام پر لوگ اپنی اپنی دشمنیاں نکال رہے ہیں۔ ہندو، کرسچن اور دیگر اقلیتوں کو جس طرح جلتی ہوئی آگ میں پھینکا جا رہا ہے۔
ان کی زمینوں پہ قبضہ کیا جا رہا ہے، ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرکے ان سے شادیاں کی جا رہی ہیں۔ بصورت دیگر ان کے خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں، وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ سب جانتے ہیں کہ اندرون سندھ کے ہندو باشندے مالی حیثیت میں کافی مستحکم ہیں۔ ان کو ان کے جدی پشتینی گھروں سے بے دخل کرنے اور ان کے کاروبار پہ قبضہ کرنے کے لیے ایک آسان سا طریقہ یہ ہے کہ ان پر توہین رسالت کا الزام لگادیا جائے یا قرآنی مقدس اوراق کی بے حرمتی کا جھوٹا الزام لگا کر انھیں زندہ جلادیا جائے یا ان کی بیٹیوں کو اغوا کرکے اپنی ہوس پوری کی جائے۔ معاملہ سامنے آئے تو پہلے سے متعدد خریدے گئے گواہ بھی تیار رکھے جائیں۔
کیا اس بار کچھ ہوگا؟ عیسائی میاں بیوی کو زندہ جلا دینے والوں کو بھی اسی طرح کی سزا دی جائے گی؟ کیا انھیں بھی زندہ جلتی ہوئی آگ میں پھینکنے کا حکم دیا جائے گا؟ کبھی نہیں؟ چند ہفتے بعد یہ معاملہ بھی دب جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا قتل سب کے سامنے ہونے کے باوجود قاتل آج تک محفوظ ہے۔ جہاں تک مالی امداد وغیرہ کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بھی کہیں ہوا میں تحلیل نہ ہوجائے۔ کسی بڑے سفاکانہ واقعے کے بعد جانوں کی قیمت چند لاکھ میں ادا کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن متاثرین تک صرف وعدے پہنچتے ہیں رقم نہیں۔ جب کہ رقم کوئی ذاتی اکاؤنٹ سے نہیں دیتا۔ البتہ حکومت کے بیرونی دورے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جن پر کروڑوں روپے آنکھ بند کرکے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اپنی اپنی ذاتی انا اور اقتدار کے لیے ہمیشہ تین قوتوں کا گٹھ جوڑ رہا ہے۔ ملا، ملٹری گٹھ جوڑ سے تو سبھی واقف ہیں۔ لیکن نام نہاد روشن خیال حکمراں جماعتوں نے بھی مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دیا۔ طالبان کو اپنے اپنے ذاتی فائدے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے کن کن وزرائے اعظم نے تحفہ دیا، بہت کچھ کرسٹینا لیمب کے لیے گئے انٹرویوز میں درج ہے۔ تعلیمی اداروں سمیت دیگر انتہائی حساس نوعیت کے سرکاری اداروں میں جس طرح مذہبی سیاسی جماعتیں اپنے کارندے بھرتی کرواتی ہیں اور پھر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز تک کو دھمکیاں دے کر مطلوبہ نتائج حاصل کرتی رہی ہیں۔
ان کو صحیح معنوں میں بڑھاوا دیا ضیا الحق نے جو امیرالمومنین بننے کی چاہ میں مارے گئے، لیکن ان کی موت کے بعد انتہاپسندی کے زہریلے ناگ ہر طرف پھنکارنے لگے اور اپنے انڈے بچے دینے لگے۔ صلح جو، روشن خیال اور اعتدال پسند کلیدی عہدوں پر فائز اعلیٰ افسران بھی جانتے ہیں کہ دشمن خود ہمارے درمیان اور ہماری صفوں میں ہی ہے۔واہگہ بارڈر پر حملوں سے لگتا ہے کہ دہشت گرد زیر زمین چلے گئے ہیں۔ کسی بھی عمارت کو دیمک بنیادوں سے لگنا شروع ہوتی ہے۔ محض وقتی طور پر دوا کا اسپرے کرنے سے بنیادوں میں چھپی دیمک ختم نہیں ہوتی۔ دکھاوے کے لیے ہزار کیڑے مار دوا ڈالتے رہیں، لیکن ایک دن پوری عمارت ڈھے جاتی ہے۔ یہی یہاں بھی ہو رہا ہے۔
جس طرح غیر مسلموں کو مختلف حیلے بہانوں سے مذہب کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے ان پر زندگی تنگ کی جا رہی ہے اس سے تو بہتر ہے کہ حکومت، اگر اس کا کوئی وجود ہے تو اپنی نااہلی قبول کرتے ہوئے یہ اعلان کردے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے اور وہ بیرون ملک چلے جائیں۔ اس کے بعد یقیناً اقلیتوں کے لیے زندگی آسان ہوجائے گی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی خیال رہے کہ جواب میں جہاں جہاں پاکستانی مسلمان بستے ہیں ان کی واپسی بھی شروع ہوسکتی ہے اور ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوسکتا ہے جو پاکستان میں ہندو اور کرسچن کمیونٹی کے ساتھ مسلسل ہو رہا ہے۔
افسوس اس بات کا جتنا بھی کیا جائے کم ہے کہ جب بھارت یا اسرائیل میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو ہمارے مذہبی ایجنڈے پہ مامور نام نہاد علمائے کرام فوراً بیان بازی کے میدان میں کود جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کی وہ کبھی مذمت نہیں کرتے؟ کیوں؟ کیا اب موجودہ پاکستان میں صرف وہی لوگ کامیاب نہیں ہیں جنھوں نے یتیموں کی زمینوں پہ قبضہ کیا، حکمرانوں کو جیبوں میں ڈالا، ہیروئن اور افیون کی کاشت کی، پیسہ کمانے کے لیے بھی وہ بغیر محنت کے ہر وہ غیر اخلاقی کام کیا جو راتوں رات امیر بنا دے، لینڈ مافیا، جعلی دوائیں سے لے کر ہر ناجائز کام نہایت باریکی سے کیا۔ لیکن پکڑ میں نہیں آئے۔ کیونکہ لبادہ مذہب کا اوڑھ لیا، اسکول اور اسپتال کے بجائے مسجدیں بنادیں، دستر خوان سجا دیے۔
متعلقہ اداروں کے سربراہوں کو منہ مانگی قیمت پہ خرید لیا اور سخی دانا اور حاتم طائی کا لقب اختیار کرلیا۔ پکڑ میں یوں نہیں آئے کہ کچھ قلم کار نوکر رکھ لیے۔ جنھوں نے انھیں ولی اللہ بنادیا۔ کیا لیڈر، کیا حکمران، کیا مولوی حضرات اور کیا دوسرے اعلی عہدیدار۔ سب ان کے ذاتی دوست۔ لیکن اتنی طاقت کے باوجود ان میں بھی اتنی جرأت نہیں کہ دونوں عیسائی میاں بیوی کے قاتلوں کو سزا دلوانے کا مطالبہ کرسکیں۔ دیکھ لیجیے گا چند دن بعد بھٹہ مالک بے گناہ قرار پائے گا یا کہیں روپوش ہوجائے گا۔ تاوقتیکہ معاملہ دب نہ جائے۔ پاکستان کی بنیادوں کی یہ دیمک کیسے دور ہوگی؟