پولیو کا خاتمہ توانا قوم کی بنیاد آخری حصہ

مہلک امراض سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا سنت نبی ﷺ ہے۔


مجاہد حسین November 13, 2014

پولیو کے خاتمے کے لیے عطیات دینے والے دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس کا کہنا ہے کہ آبادی کے بڑھنے کے خوف سے معصوم بچوں کو مرنے یا معذور ہونے کے لیے چھوڑ دینے کا تصور انتہائی خوفناک ہے۔ پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے بھی پولیو کے حفاظتی قطروں کو شرعی طور پر جائز اور عین سنت نبوی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیو کے قطروں سے متعلق جھوٹے پروپیگنڈے کو علمائے کرام سے جوڑنا عوام کو گمراہ کرنے کی سازش ہے۔

مہلک امراض سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا سنت نبی ﷺ ہے۔ معروف عالم دین اور پاکستان میں رویت ہلال کمیٹی کے مرکزی چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمان نے کہا ہے کہ پولیو ایک خطرناک بیماری ہے اور اس کے نتیجے میں بچے معذور ہو جاتے ہیں، انھیں فعال اور کارآمد شہری بنانے کے لیے پولیو کے قطرے پلانا شرعی طور پر جائز ہے، یہ ایک احتیاطی تدبیر ہے، اس میں ایسا کچھ نہیں جس کی مخالفت کی جا رہی ہے، یہ ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے جو درست نہیں، عوام ایسے کسی بھی جھوٹے پروپیگنڈے پر کان نہ دھریں۔ مفتی نعیم اسے منفی پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں اس کے پیچھے وہی لوگ کارفرما ہیں جن کے ذاتی مفادات ہیں تا کہ قوم ایک اپاہج زندگی گزارتے ہوئے ان کے رحم و کرم پر رہے۔

متحدہ بین المسلمین فورم کے رہنما اور ممتاز عالم علامہ عباس کمیلی کے مطابق پولیو ویکسین کی مخالفت کی باتیں جاہلانہ اور فرسودہ سوچ کی عکاسی کرتی ہیں، لہٰذا بچو ں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کے لیے پولیو کے قطرے پلانا ناگزیر ہے۔ مولانا محمد سلفی نے کہا ہے کہ سچ یہی ہے کہ پولیو کے قطرے پلائے جانے چاہئیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے بیماریوں کے ساتھ ساتھ ان کا علاج بھی اتارا ہے لہٰذا ان سے بچاؤ کی تدبیر سنت نبی ﷺ سے ثابت ہے ۔ معروف عالم دین اور جمعیت علمائے اسلام (س) مولانا سمیع الحق نے پولیو ویکسی نیشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام نے جس طرح اولاد کو والدین کی فرمانبرداری اور خدمت کا حکم دیا ہے۔

اسی طرح والدین کو بھی بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے، تعلیم و تربیت اور بہتر توجہ کا حکم بھی دیا ہے جس میں صحت کی سہولیات کی فراہمی اہم جزو ہے۔ آج دنیا بھر میں صرف پاکستان پولیو وائرس سے متاثرہ ملک بن کر رہ گیا ہے جو عالم میں تنہا ہو کر رہ گیا ہے، لہٰذا صحت کے معاملات کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے اور نہ ہی مغرب کا آلہ کار بنا جائے۔ انھوں نے زور دیا کہ پولیو ویکسی نیشن کو موثر بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ ہم ایک معذور قوم کے بجائے مضبوط اور توانا قوم کی طرح اقوام عالم میں پہچانے جائیں۔

پولیو ویکسین کے حوالے سے ملک میں دوسری بڑی رکاوٹ شکیل آفریدی کی وجہ سے درپیش ہوئی ہے۔ انتہاپسندوں کا موقف ہے کہ انسداد پولیو مہم کے ذریعے سے جاسوسی کی جا رہی ہے کیونکہ شکیل آفریدی کے باعث اسامہ بن لادن پر حملہ کیا گیا۔ حالانکہ عالمی ادارہ صحت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا تعلق انسداد پولیو مہمات سے کبھی رہا ہی نہیں ہے۔ میڈیا کی غلط خبروں کے ذریعے شکیل آفریدی کا مہمات سے تعلق جوڑا گیا جس کی وجہ سے ویکسی نیشن میں مسائل پیدا ہوئے اور پاکستان کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں کئی مقامات پر پولیو ورکرز پر حملے ہوئے جن میں کئی ورکرز زخمی اور کئی ہلاکتیں بھی وقوع پذیر ہوئیں، جس نے حکومت پاکستان کو عالمی ادارہ صحت سمیت یونیسیف کی سرگرمیوں کو محدود کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ملک میں 17 سال سے جاری مہمات کے باوجود پولیو کیسز کا رپورٹ ہونا باعث تشویش ہے۔ ملک کے قبائلی علاقوں سمیت بلوچستان بالخصوص ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد لاکھوں بچے حفاظتی قطرے پینے سے محروم ہوئے ہیں۔ حکومت کی ناقص حکمت عملی اور غفلت کے باعث کراچی کی 24 حساس یوسیز میں پولیو کے نہ پلانے والے خاندانوں اور قطرے نہ پینے والے بچوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں کئی مقامات پر سیکیورٹی خدشات کے باعث مہمات کو 3 دن کے بجائے ایک دن میں تبدیل کیا گیا، جس سے بھر پور نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔

ملک بھر میں بالخصوص کراچی میں پولیو کیسز کے سامنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ جن علاقوں میں پولیو کے قطرے بچوں کو نہیں پلائے جاتے ہیں ان کا ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب سفر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں پولیو وائرس وزیرستان سے آتا ہے کیونکہ کراچی کی پختون آبادیوں میں وہ لوگ ہجرت کر کے آتے ہیں جو وہاں سیکیورٹی خدشات کے باعث ویکسی نیشن نہیں کروا پاتے اور اپنے ساتھ پولیو وائرس لاتے ہیں جو ماحول میں شامل ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ طے ہے کہ انسانی فضلہ وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے اور یہ گھنٹوں میں اعصابی نظام کو ناکارہ بنا کر جسمانی اعضا کو مفلوج کر دیتا ہے۔ بچوں میں معذوری کی صورت میں اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، اس سے قبل اس کا مریض میں ہرگز بھی پتہ نہیں چلتا لہٰذا جب تک سیوریج کے پانی سے پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں کیا جاتا بہتری ممکن نہیں۔

ایک زمینی حقیقت ہے کہ جب آپ کسی کو کوئی بڑا اور اہم کام دیتے ہیں تو اس لیے تمام لوازمات کا انتظام کرنا بھی ضروری ہوتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جائیں۔ پولیو کا ملک بھر سے خاتمہ ایک بہت بڑا اور اہم کام ہے لیکن بدقسمتی سے حکومتی سطح پر اس حوالے سے تاحال موثر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ سب سے اولین کوتاہی یہ ہے کہ رضاکار جو ذمے داری سے گھر گھر جا کر قطرے پلاتے ہیں ان کا معاوضہ ایک عام مزدور سے بھی کم ہے، جس کی ابتدا 150 روپے فی یوم سے ہوئی، جو اب 250 روپے یومیہ ہے۔

یہ معاوضہ کسی بھی طرح سے اس اہم ذمے داری کے مطابق نہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسے دور دراز علاقے بھی ہیں جہاں پہنچنے کے لیے فیول چارجز یا تو ادا نہیں کیے جا رہے یا پھر اس قدر کم دیے جا رہے ہیں جو مہمات کی تکمیل میں ناکامی کا باعث ہیں۔ پولیو ورکرز پر حملے ہوئے، جن میں ہلاکتیں ہوئیں اور کئی زخمی بھی ہوئے لیکن لواحقین کی عدم داد رسی بھی ان مہمات کو بھرپور انداز میں چلنے نہیں دے رہی۔ اب جب کہ پاکستان پر سفری پابندی عائد کی جا چکی ہیں اور بغیر ویکسی نیشن کے سفر کرنا ممنوع ہو گیا ہے ایسے میں وزیر اعظم ذاتی طور پر متوجہ ہو گئے ہیں اور انھوں نے ملک سے پولیو کے خاتمے کے لیے کمیٹی بھی بنا دی ہے۔

گو دیر آید درست آید کے مصداق ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پانی سر سے گزر چکا ہے، کیونکہ پابندیاں اچانک نہیں لگا کرتیں۔ حکومت کو اس بارے میں پہلے سے آگاہی تھی کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ عالمی ادارہ صحت اس حوالے سے کئی بار اشارے دے چکا تھا۔ ماہرین صحت حتیٰ کہ بعض سیاستدان الزام لگا رہے ہیں کہ پولیو پر قابو پانے میں حکمرانوں کی عدم دلچسپی پابندیوں کی وجہ ہے۔ بہرکیف اب پابندیاں لگ چکی ہیں اور صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے، ایسے میں کئی موثر اور مربوط اقداما ت ناگزیر ہو گئے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیکیورٹی مسائل کے باعث ملک میں پولیو کے خاتمے میں تاخیر ہوئی ورنہ پاکستان بھی بھارت کے ساتھ پولیو فری ہو جاتا۔

وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پولیو کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی مشینری، این جی اوز، سیکیورٹی پر مامور ادارے، علمائے کرام، سول سوسائٹی اور سب سے اہم والدین، اس وائرس کے ملک بھر سے خاتمے کے لیے کردار ادا کریں اور پاکستان کو پولیو فری بناتے ہوئے خود کو دنیا میں ایک توانا اور مضبوط قوم کی طرح پیش کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں