بیاد کامریڈ حسن ناصر شہید
ہر انسان کی زندگی کا اپنے ذات کے علاوہ بھی مقصد ہونا چاہیے ورنہ وہ انسان نہیں۔
آج سے 54 سال قبل یہ انتہائی برا دن تھا جب حسن ناصر کو لاہور کے شا ہی قلعہ میں بے دردی سے ایوبی آمریت کے دور میں ان پر وحشیانہ جسمانی تشدد کر کے شہید کر دیا گیا۔ میں اس وقت چھٹی جماعت کا طالب علم تھا اور بوگرہ سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں زیر تعلیم تھا۔ تھا تو اس وقت بھی میں ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین کا کارکن، مگر مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ حسن ناصر کون ہے اور کیسے، کس نے مارا؟ ڈھاکا اور بوگرہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی جلوس نکلے۔ صرف اتنا معلوم تھا کہ کسی کمیونسٹ رہنما کو مغربی پاکستان میں تشدد کر کے شہید کر دیا گیا ہے۔
حسن ناصر شہید برصغیر کے سب سے بڑے جاگیردار نواب محسن الملک کے نواسے تھے۔ ان کے والد علمدار حسین مسلم لیگ کے رہنما تھے جب کہ والدہ زہرہ علمدار حسین کا تعلق کانگریس سے تھا۔ حسن ناصر جب 17 سال کے تھے تو وہ حیدرآباد اسٹوڈنٹس لیگ کے جنر ل سیکریٹری ہوا کرتے تھے، یہ 1945ء کی بات ہے۔ جب وہ 1948ء میں کراچی آئے تو 20 سال کے تھے۔ جب وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن بنے تو اس وقت سی پی کے رہنماؤں میں سید جمال الدین بخاری، کامریڈ شانتا، شرف علی، سائیں عزیز اللہ، سوبھوگیان چندانی، پہومل، طفیل عباس، منہاج برنا، امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر، عزیز سلام بخاری، دادا فیروز منصور، دادا امیر حیدر وغیرہ تھے۔ حسن ناصر نے طلبا، مزدوروں اور کسانوں میں کام شروع کیا۔
انھوں نے کراچی لانڈھی ماچس فیکٹری میں یونین سازی کا کام شروع کیا۔ 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی پر ایوبی آمریت نے پابندی لگا دی۔ حسن ناصر نے متعدد بار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کراچی سینٹرل جیل میں ایک بار کامیاب ہڑتال بھی کروائی اور اپنے مطالبات بھی منوائے۔ حسن ناصر کو گرفتار تو کراچی سے 6 اگست 1960ء میں کیا گیا تھا لیکن شہید لاہور شاہی قلعہ میں کیا گیا۔ شہادت کے وقت وہ 32 سال کے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد چٹاگانگ، ڈھاکا، نواکھالی (ایسٹ پاکستان)، حیدرآباد، دہلی (ہندوستان) اور مغربی پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ 11 اکتوبر 1970ء کو پشاور میں مزدور کسان پارٹی کے زیر اہتمام غریب کسانوں اور کھیت مزدوروں کا ایک عظیم الشان جلوس نکلا۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پشاور کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ سب سے بڑا جلوس تھا۔
جلوس میں نوجوانوں نے حسن ناصر کی تصویر اٹھائی ہوئی تھی۔ نظریے کا یہ سلسلہ کہاں سے کہاں جا ملا، حیدرآباد دکن، کراچی، لاہور اور پشاور، اس کی وجہ یہ ہے کہ حسن ناصر اس بین الاقوامی جذبے کا پاکیزہ مظہر ہے جو آج کی دنیا کی امید ہے اور کل کی خصوصیت۔ حسن ناصر شہید پر 'حسن ناصر کی شہادت' نامی کتاب کا پہلا ایڈیشن 1975ء میں منظور نیازی نے فیصل آباد سے چھپوایا۔ حسن ناصر کو لاہور شاہی قلعہ میں شدید جسمانی اذیت دے کر شہید کرنے کے بعد کامریڈ میجر اسحاق نے حسن ناصر کے قتل کے خلاف ایوبی آمریت کو فریق بنا کر 14 نومبر 1960ء سے 14 دسمبر 1960ء تک لاہور میں مقدمہ لڑا۔
میجر اسحاق، کامریڈ فیض احمد فیض اور دیگر فوجی افسروں کے ساتھ نام نہاد کمیونسٹ بغاوت کے جرم میں فوج سے نکالے جانے کے بعد انھیں سابق مشرقی پاکستان میں اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز کرنے کی پیش کش کی گئی لیکن انھوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا کر وکالت کا پیشہ اختیار کر لیا۔ اس زمانے میں حسن ناصر کا مقدمہ لڑنے کے لیے کوئی آمادہ نہیں تھا، پھر میجر اسحاق نے بڑی جرأت مندی سے ان کا مقدمہ لڑا۔ ماں ہو کر اپنے بچے کے لیے ایسے جرأت مندانہ الفاظ ادا کرنا ناقابل یقین ہے، حسن ناصر کی وا لدہ محترمہ زہرہ علمدار حسین کہتی ہیں ''ہر انسان کی زندگی کا اپنے ذات کے علاوہ بھی مقصد ہونا چاہیے ورنہ وہ انسان نہیں، بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے، میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا، میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی۔
کئی سال سے جی کڑا کیے رکھا۔ بالآخر وہ لمحہ آ گیا جو ٹل نہیں سکتا تھا، میری بات چھوڑیں، البتہ حسن ناصر خوش قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا تو اس کے لیے جان دینے کی سعادت تو پالی۔'' اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کامریڈ فیض احمد فیض نے کہا ''تین برس اور گزر گئے، ایوب خان کی فوجی حکومت قائم ہوئی اور پہلا (بلکہ دوسرا) مارشل لاء نافذ ہوا، ہم لوگ ایک بار پھر جیلوں میں بھردیے گئے اور اس دفعہ لاہور قلعہ کے وحشت ناک زنداں کا منہ دیکھا، چار پانچ مہینے بعد رہائی ہوئی، نکلے ہوئے تھوڑے دن گزرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر مجھے لاہور قلعے کا ایک وارڈن ملا، علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا جو دو دن پہلے فوت ہو گیا ہے، اسی شام یا اگلے دن میجر اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو یہ قیدی ضرور حسن ناصر ہو گا۔''
اس کے بعد جس دلیری سے اسحاق نے اس دردناک سانحے کے سلسلے میں مختلف دروازے کھٹکھٹائے، اس کی تفصیل ان کی کتاب 'حسن ناصر کی شہادت' میں موجود ہے۔ اسحاق کی سیاسی زندگی کا حال سب جانتے ہیں۔ مزدور کسان مسائل میں اور لوگوں نے بھی حصہ لیا لیکن جس خلوص، ثابت قدمی، ایثار اور جانثاری سے اسحاق نے سب سکھ و آرام تج کر اور درویشی کا چولا اوڑھ کر اس مظلوم طبقے میں اپنی ذات کو جذب کیا، اس سے پابلو نرودا کے الفاظ یاد آتے ہیں 'میں تمھاری جھونپڑی کی خاک میں مل کر خاک ہو گیا ہوں، میں تمھاری سیاہ باجرے کی روٹی کا ایک نوالہ اور تمھارے چاک چاک کُرتے کی ایک دھجی بن گیا ہوں''۔
فیض احمد فیض نے حسن ناصر کی شہادت پر اپنی ایک نظم میں کہا:
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
حسن ناصر، فیض احمد فیض، میجر اسحاق، ان سب کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے تھا۔ یہ سب کمیونسٹ سماج کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ایک ایسا سماج جس میں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہو۔ دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ملکیت ہو، انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہ ہو۔ جب تک ریاست کا وجود ہو گا، طبقات بھی موجود ہوں گے۔ اس لیے انقلاب کے بعد ریاست کے خاتمے کے بغیر رد انقلاب تو آ سکتا ہے لیکن کمیونسٹ سماج یا امداد باہمی کا معاشرہ یا عوامی پنچایتی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔
حسن ناصر شہید برصغیر کے سب سے بڑے جاگیردار نواب محسن الملک کے نواسے تھے۔ ان کے والد علمدار حسین مسلم لیگ کے رہنما تھے جب کہ والدہ زہرہ علمدار حسین کا تعلق کانگریس سے تھا۔ حسن ناصر جب 17 سال کے تھے تو وہ حیدرآباد اسٹوڈنٹس لیگ کے جنر ل سیکریٹری ہوا کرتے تھے، یہ 1945ء کی بات ہے۔ جب وہ 1948ء میں کراچی آئے تو 20 سال کے تھے۔ جب وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن بنے تو اس وقت سی پی کے رہنماؤں میں سید جمال الدین بخاری، کامریڈ شانتا، شرف علی، سائیں عزیز اللہ، سوبھوگیان چندانی، پہومل، طفیل عباس، منہاج برنا، امام علی نازش، ڈاکٹر اعزاز نذیر، عزیز سلام بخاری، دادا فیروز منصور، دادا امیر حیدر وغیرہ تھے۔ حسن ناصر نے طلبا، مزدوروں اور کسانوں میں کام شروع کیا۔
انھوں نے کراچی لانڈھی ماچس فیکٹری میں یونین سازی کا کام شروع کیا۔ 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی پر ایوبی آمریت نے پابندی لگا دی۔ حسن ناصر نے متعدد بار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کراچی سینٹرل جیل میں ایک بار کامیاب ہڑتال بھی کروائی اور اپنے مطالبات بھی منوائے۔ حسن ناصر کو گرفتار تو کراچی سے 6 اگست 1960ء میں کیا گیا تھا لیکن شہید لاہور شاہی قلعہ میں کیا گیا۔ شہادت کے وقت وہ 32 سال کے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد چٹاگانگ، ڈھاکا، نواکھالی (ایسٹ پاکستان)، حیدرآباد، دہلی (ہندوستان) اور مغربی پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ 11 اکتوبر 1970ء کو پشاور میں مزدور کسان پارٹی کے زیر اہتمام غریب کسانوں اور کھیت مزدوروں کا ایک عظیم الشان جلوس نکلا۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پشاور کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ سب سے بڑا جلوس تھا۔
جلوس میں نوجوانوں نے حسن ناصر کی تصویر اٹھائی ہوئی تھی۔ نظریے کا یہ سلسلہ کہاں سے کہاں جا ملا، حیدرآباد دکن، کراچی، لاہور اور پشاور، اس کی وجہ یہ ہے کہ حسن ناصر اس بین الاقوامی جذبے کا پاکیزہ مظہر ہے جو آج کی دنیا کی امید ہے اور کل کی خصوصیت۔ حسن ناصر شہید پر 'حسن ناصر کی شہادت' نامی کتاب کا پہلا ایڈیشن 1975ء میں منظور نیازی نے فیصل آباد سے چھپوایا۔ حسن ناصر کو لاہور شاہی قلعہ میں شدید جسمانی اذیت دے کر شہید کرنے کے بعد کامریڈ میجر اسحاق نے حسن ناصر کے قتل کے خلاف ایوبی آمریت کو فریق بنا کر 14 نومبر 1960ء سے 14 دسمبر 1960ء تک لاہور میں مقدمہ لڑا۔
میجر اسحاق، کامریڈ فیض احمد فیض اور دیگر فوجی افسروں کے ساتھ نام نہاد کمیونسٹ بغاوت کے جرم میں فوج سے نکالے جانے کے بعد انھیں سابق مشرقی پاکستان میں اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز کرنے کی پیش کش کی گئی لیکن انھوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا کر وکالت کا پیشہ اختیار کر لیا۔ اس زمانے میں حسن ناصر کا مقدمہ لڑنے کے لیے کوئی آمادہ نہیں تھا، پھر میجر اسحاق نے بڑی جرأت مندی سے ان کا مقدمہ لڑا۔ ماں ہو کر اپنے بچے کے لیے ایسے جرأت مندانہ الفاظ ادا کرنا ناقابل یقین ہے، حسن ناصر کی وا لدہ محترمہ زہرہ علمدار حسین کہتی ہیں ''ہر انسان کی زندگی کا اپنے ذات کے علاوہ بھی مقصد ہونا چاہیے ورنہ وہ انسان نہیں، بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے، میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا، میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی۔
کئی سال سے جی کڑا کیے رکھا۔ بالآخر وہ لمحہ آ گیا جو ٹل نہیں سکتا تھا، میری بات چھوڑیں، البتہ حسن ناصر خوش قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکا تو اس کے لیے جان دینے کی سعادت تو پالی۔'' اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کامریڈ فیض احمد فیض نے کہا ''تین برس اور گزر گئے، ایوب خان کی فوجی حکومت قائم ہوئی اور پہلا (بلکہ دوسرا) مارشل لاء نافذ ہوا، ہم لوگ ایک بار پھر جیلوں میں بھردیے گئے اور اس دفعہ لاہور قلعہ کے وحشت ناک زنداں کا منہ دیکھا، چار پانچ مہینے بعد رہائی ہوئی، نکلے ہوئے تھوڑے دن گزرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر مجھے لاہور قلعے کا ایک وارڈن ملا، علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا جو دو دن پہلے فوت ہو گیا ہے، اسی شام یا اگلے دن میجر اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو یہ قیدی ضرور حسن ناصر ہو گا۔''
اس کے بعد جس دلیری سے اسحاق نے اس دردناک سانحے کے سلسلے میں مختلف دروازے کھٹکھٹائے، اس کی تفصیل ان کی کتاب 'حسن ناصر کی شہادت' میں موجود ہے۔ اسحاق کی سیاسی زندگی کا حال سب جانتے ہیں۔ مزدور کسان مسائل میں اور لوگوں نے بھی حصہ لیا لیکن جس خلوص، ثابت قدمی، ایثار اور جانثاری سے اسحاق نے سب سکھ و آرام تج کر اور درویشی کا چولا اوڑھ کر اس مظلوم طبقے میں اپنی ذات کو جذب کیا، اس سے پابلو نرودا کے الفاظ یاد آتے ہیں 'میں تمھاری جھونپڑی کی خاک میں مل کر خاک ہو گیا ہوں، میں تمھاری سیاہ باجرے کی روٹی کا ایک نوالہ اور تمھارے چاک چاک کُرتے کی ایک دھجی بن گیا ہوں''۔
فیض احمد فیض نے حسن ناصر کی شہادت پر اپنی ایک نظم میں کہا:
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
حسن ناصر، فیض احمد فیض، میجر اسحاق، ان سب کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے تھا۔ یہ سب کمیونسٹ سماج کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ایک ایسا سماج جس میں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہو۔ دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ملکیت ہو، انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہ ہو۔ جب تک ریاست کا وجود ہو گا، طبقات بھی موجود ہوں گے۔ اس لیے انقلاب کے بعد ریاست کے خاتمے کے بغیر رد انقلاب تو آ سکتا ہے لیکن کمیونسٹ سماج یا امداد باہمی کا معاشرہ یا عوامی پنچایتی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔