ایک مظلوم ہدایت نامہ
پاکستان کوانتشارکا شکار پاؤ توعام پاکستانی کا گریبان پکڑو کہ بگاڑ یہ ان ہی کےکرموں کا پھل۔ حکم رانوں کوکیوں کوستے ہو؟
مان لو صاحب کہ تھر کی بدبختی کے ذمے دار خود تھری ہیں۔
سندھ کی بدامنی، سندھ کے باسیوں کی غفلت کا نتیجہ۔ پاکستان کو انتشار کا شکار پاؤ، تو عام پاکستانی کا گریبان پکڑو کہ بگاڑ یہ ان ہی کے کرموں کا پھل۔ حکم رانوں کو کیوں کوستے ہو؟ کیا ان بے چاروں نے تمھارا ٹھیکا لے رکھا ہے؟ اور اگر لیا بھی ہے، تو اسے ان کی شرافت پر محمول کرو۔ ذرا ہار پھول ڈالو، آرتی اتارو۔ کیسے نیک بخت ہیں۔ تمھاری کتنی پروا ہے انھیں۔ یہ مذمتی بیانات، دعوے، وعدے؛ سب تیرے لیے ہیں پیارے۔ عجیب آدمی ہو، اتنے سے پیٹ نہیں بھرتا۔ انھیں ہی متواتر تکے جا رہے ہو۔ جانے بھی دو یارو، صاحب مسند کے سر ہزار بکھیڑتے ہوتے ہیں۔
اب تھر میں کہرام مچا، تو کیا نیا ہوا۔ ہر برس وہاں موت کا میلہ لگتا ہے۔ بھوک کو وہاں کا ایک باسی جانو۔ قحط سالی سے ان کی گاڑھی چھنتی ہے۔ تم تک سانحے کی خبر اب پہنچی۔ آگ بگولا ہونے سے اجتناب برتو۔ غصہ صحت کے لیے مضر۔ سائیں قائم علی شاہ پر تنقید سے باز آؤ۔ منصب کا نہیں، تو ان کی عمر ہی کا لحاظ کرو۔ کیا والدین نے یہی تربیت دی ہے کہ بزرگوں کو چٹکلوں کا موضوع بنا لو۔
اور یہ جو ہر وقت اپنے حقوق مانگتے پھرتے ہو، اس مشق کو بھی ترک کر دو۔ مانگنا شرفاء میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور خبردار، عقاب کے مانند جھپٹنا بالکل نہیں۔ یہ تو بدمعاشوں کا وتیرہ ہے۔ یہ خودی یہ شاہین ادھر نہیں چلنے کے۔ صبر کرو کہ یہی تمھارا نصیب۔ درد کبھی شدت اختیار کر جائے، تو کچھ گریہ کر لو۔ پر خبردار جو حکم رانوں کو کچھ کہا۔ وہ بھلے مانس اپنے من سے اقتدار میں تھوڑی آئے ہیں۔ تم ہی ڈھول بجاتے گھروں سے نکلے۔
نعرے لگائے، گیت گائے، ووٹ ڈالے، اور ان بے چاروں کو تخت پر لا پٹخا۔ پر تمھاری زیادتیاں ان نیک بختوں نے بھلا دیں۔ دیکھو ذرا، تمھارے بے ڈھب احتجاج، احمقانہ مطالبات کے باوجود سائیں کیسے خود کو شانت رکھے ہوئے ہیں۔ زرداری صاحب نے بھی مسکراہٹ سنبھال رکھی ہے۔ تھر کی ہلاکتون اور بد انتظامی پر اظہار وجوہ کا نوٹس واپس لے لیا ۔ میاں صاحب گو مسکراتے نہیں، پر یہ نہ سمجھنا کہ تمھاری یاوہ گوئی کو انھوں نے دل میں رکھا ہے۔ درگزر سے کام لیا۔ مطمئن اور مسرور ہیں۔ اب تو قادری اور عمران سے بھی جان چھوٹی۔ غل غپاڑے کا دور تمام ہوا۔ آنے والے دنوں میں کسی انقلاب کی بیل منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دیتی۔ اب چین ہے، اور چِین ہے، جو اپنا یار ہے، اس پر جاں نثار ہے۔
تو اب شور مچانا بند کرو۔ ذرا اپنے گریبان میں جھانکو۔ اپنی اداؤں پر غور کرو۔ اگر آج حکم رانوں سے نالاں ہو، تو ووٹ بھی تم ہی نے ڈالے۔ مار کٹائی بھی تم نے کی۔ اور مولوی حضرات کے اثرورسوخ پر گریہ کیوں؟ انھیں بااثر تم ہی نے تو بنایا۔ بے چاروں نے تو وہی کیا، جو تم نے چاہا۔ پہلے تم نے خوب حلوہ کھلایا۔ پھر ان کا نام لے کر کہرام مچایا۔ دنگے کیے۔ بستیاں اجاڑیں۔ فرقہ واریت بڑھی ہے، تو یہ مگرمچھ کے آنسو بہانا بند کرو۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہو؛ کیا تم دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے کو مسلمان جانتے ہو۔ کیا یہ یقین کیے نہیں بیٹھے کہ جہنم اس کا آخری ٹھکانا؟ خوب جانتا ہوں کہ تمھارا جواب ہاں میں ہے۔ اور خبردار جو دوبارہ گردن ہلائی۔ یہ خود احتسابی ہے میاں، تمھارا نکاح نہیں۔
اور یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جو نشانے پر رکھ لیا ہے، یہ کم ازکم تمھیں زیب نہیں دیتا۔تم ہی نے پولیس والوں کورشوت کی لت لگائی۔ وہ لاکھ منع کریں، تم ان کی جیبوں میں نوٹ ٹھونس ہی دیتے ہو۔ اگر تمھارا لڑکا جواکھیلتے پکڑا جائے، تو رشوت کا ٹوکرا لیے پہنچ جاتے ہو۔ کوئی حقیقی مجرم ہاتھ آجائے، تو احتجاج کرتے سڑکوں پر نکل آتے ہو۔ اب وہ مظلوم بھی کیا کریں۔ تمھاری خوشی کے لیے خود کو بگاڑتے چلے گئے۔
اور یہ بجلی، گیس، پانی کے بحران کا راگ الاپنا بند کرو۔ شریفوں کو مت ستاؤ۔ سوچو ذرا، تمھارے باپ دادا نے ان سہولیات کے بنا کسی خوش گوار زندگی گزاری۔ خود ہی کہو، کبھی ان درویشوں نے شکوہ کیا، ٹائر جلائے، بجلی پانی کے محکموں پر پتھراؤ کیا؟ پھر تم کیوں کرتے ہو۔ یہ احتجاجی عادت کہاں سے پائی۔ اپنے بزرگوں کے بتائے راستے پر چلو۔ اسی میں بھلائی۔
صاحبو، انسان وہی اچھا، جو ہر معاملے میں اچھائی دیکھے۔ کوئی نہ کوئی مثبت پہلو ڈھونڈ نکالے۔ اب جو قتل وغارت گری ہو رہی ہے، تو سوچو، آبادی بھی تو گھٹ رہی ہے۔ دھرتی کا کچھ بوجھ کم ہو جائے تو کیا برا۔ قبرستان بھر گئے ہیں، تو جان لو کہ زمین کی زرخیزی بڑھنے کو ہے کہ مردہ اجسام ہی آرگینک مادوں میں ڈھلتے ہیں۔ تھر کو بھول جاؤ، اس پر جشن مناؤ کہ تم اپنے گھر میں ہو۔ اور سلامت ہو۔
اب جو اقلیتی برادری والے ادھر عذاب بھوگ رہے ہیں، تو اس کے پیچھے بھی کوئی حکمت ہوگی۔ کچھ دماغ لڑاؤ، ممکن ہے، کوئی سرا ہاتھ آ جائے۔ اور غور نہ بھی کرو، تو کسے پروا۔ یہاں اقلیتی برادری کی فکر کس دیوانے کو لاحق۔ تمھارے لیے تو ان کا ہونا نہ ہونا برابر۔انھیں بھٹا ملے یا قبر۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ اقلیتی برادری کے حقوق کی باتیں کتابوں میں بھلی لگتی ہیں۔ عملی دنیا میں ان کی کیا وقعت؟
تو یہ تم ظالموں کے لیے، جو خود کو عوام کہنے پر بضد ہیں، ایک عملی ہدایت نامہ ہے۔ روز پڑھو۔ عمل کرو۔ اور راقم الحروف کو دعاؤں میں یاد رکھو۔ تو عزیزو، سمجھ لو، اب تم حکم رانوں کو نہیں کوسو گے۔ ہاں، جب غصہ آئے، جی گھبرائے، ساون میں کسی کی یاد ستائے، تو آئینہ دیکھو۔ سامنے والے کو خوب مغلظات بکو۔ آگ کم نہ ہو، تو آئینہ توڑ ڈالو۔ غصہ برقرار رہے، تو کرچیوں سے نسیں کاٹ لو۔ ویسے بھی، ایسے جینے سے مرنا بھلا۔ آخر میں بھائی جون ایلیا کا یہ شعر ؎
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے