تجارت کہیے کہاں کی تعلیم

انسانی معاشرہ علم کے بغیر جنگل کی طرح ہے۔ اگر علم دین نہ ہو تو انسان اپنے خالق سے ناآشنا اور اپنی حقیقت سے غافل رہے۔


محمد فیصل شہزاد November 13, 2014

اسلام علم کو بڑا مقام دیتا ہے اور علم سیکھنے سکھانے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں علم کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ (الزمر)

اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ''جو کسی راستے میں علم سیکھنے کے لیے چلتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔'' قرآن و حدیث میں جہاں علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے، گو اس سے پہلے درجے میں علم دین مراد ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ علوم وفنون جو انسانوں کی فلاح و بہبود یا معاشرے کی خدمت کے لیے استعمال ہوتے ہوں، اگر اللہ کی رضا اور بندوں کے کام آنے کی نیت سے سیکھے جائیں تو ان کا سیکھنا سکھانا بھی بڑا درجہ رکھتا ہے۔ نہ صرف یہ دنیا میں کارآمد ہوتا ہے بلکہ ان علوم کے ذریعے کی گئی مخلصانہ خدمت خلق پر آخرت میں بھی بڑے اجروثواب کی امید ہے۔

انسانی معاشرہ علم کے بغیر جنگل کی طرح ہے۔ اگر علم دین نہ ہو تو انسان اپنے خالق سے ناآشنا اور اپنی حقیقت سے غافل رہے۔ اسی طرح اگر علمِ دنیا نہ ہو تو ہم معیشت، تجارت، اقتصادیات اور عسکری امور میںکبھی دوسری اقوام کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے میں صدیوں سے تعلیم کو ایک قابل احترام شعبے کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایک طرف فقہاء، محدثین اور مفسرین اور دوسری طرف طبیب،دانشور اور ہیئت دان مسلم خلفاء و سلاطین کے ہاں مقرب ترین طبقات میں شمار ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تعلیم کو تجارت نہیں، دینی و قومی خدمت سمجھا جاتاتھا۔

متعلم بغیر کسی مادی غرض اور سود و زیاں کی تنگنائیوں سے اوپر اٹھ کر طالب علموں کو علم و ادب کے زیور سے آراستہ کرکے ان کو روحانی طور پر قوی اورمہذب بناتا۔ اسی وجہ سے تعلیم کے شعبے کو پچھلے زمانوں میں جو عزت و احترام حاصل رہا، وہ اور کسی شعبے کو کبھی حاصل نہیں رہا۔ تاریخ اسلام سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی ابتدا سے آج سے دو سو سال پہلے تک کبھی تعلیم کے لیے متعلم نے یا علاج کے لیے طبیب نے معاوضے کا سوال نہیں کیا، مگر آج وہ دور آ گیاہے کہ ہمارے عصری تعلیمی ادارے درحقیقت ایک منافع بخش تجارت کرنے والے کارخانے بن چکے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کو لے لیجیے۔ یہ کھمبیوں کی طرح ہر گلی میں اگنے والے نجی اسکول دراصل ایسے منافع بخش بزنس ہیں، جن پر ایک بار سرمایہ کاری کی جاتی ہے، پھر بیٹھ کر نسلیں کھاتی ہیں۔

آج سے پچیس تیس سال پہلے پورے علاقے میں محض ایک اسکول ہوا کرتا تھا، وہ سرکاری تعلیم کا زمانہ تھا، مگر اب تو جس شخص کے پاس کرنے کو کوئی اور کام نہیں، وہ اسکول کھول کر بیٹھ گیا ہے۔ ہم اپنے علاقے ناظم آباد کی بات کریں تو یہاں ایک اوسط سے کم معیار کے انگلش میڈیم اسکول میں بچے کی داخلہ فیس کم از کم پندرہ ہزار اور ماہانہ فیس ڈھائی ہزار ہے، اس کے ساتھ یونیفارم، کتابوں کا مستقل خرچ، ویگن کا کم ازکم ماہانہ ہزار سے پندرہ سو خرچ، پھر سالانہ بنیادوں پر مختلف تقاریب کے نام پر لیے جانے والے ہزاروں روپے الگ... اور جہاں تک ان گلی گلی کھلی دکانوں کے تعلیمی معیار کا حال ہے تو اس کا بخوبی اندازہ یہاں پڑھانے والے اساتذہ کی قابلیت سے لگایا جا سکتا ہے۔

ان اسکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ زیادہ تر وہ فیشن ایبل نوجوان طلبا ہوتے ہیں جو اپنے جیب خرچ کا سامان مہیا کرنے یہاں آتے ہیں یا پھر عموماً وہ فیشن زدہ لڑکیاں ہوتی ہیں جو محض وقت گزاری اور نت نئے فیشن والے کپڑوں کی نمائش کے لیے یہاں آتی ہیں۔ ان کی تنخواہ بھی چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی، نہ انھیں پروا ہوتی ہے، کیوں کہ وہ اپنی قابلیت سے خوب واقف ہوتی ہیں۔

اور یہ تو چھوٹے اسکول ہیں، اسی شہر میں ایسے نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں جن کی فیسیں ناقابل یقین اور ہوشربا ہیں۔ ان اداروں کی ایڈمیشن فیس ساٹھ ستر ہزار سے اور ماہانہ فیس پندرہ ہزار سے اوپر ہے، حتیٰ کہ ایسے اسکول بھی ہیں، جن کی ماہانہ فیسیں تیس ہزار تک بھی ہیں۔ اور پھر ان اسکولوں کی انتظامیہ کی شان بے نیازی کا یہ حال ہے کہ وہاں داخلے کے لیے لازمی شرائط میں سے پہلی شرط والدین کا مالی معیار ہے۔

ایک جگہ پڑھا کہ ان اسکولوں میں یہ تک پوچھا جاتا ہے کہ گھر کیسا اور کہاں ہے؟ گاڑیاں کتنی اور کس ماڈل کی ہیں؟ سال گزشتہ کا انکم ٹیکس چالان، ملازموں کی تعداد، بزنس یا عہدے کی تفصیل وغیرہ سب پوچھا جاتا ہے۔ پھر ایسا نہیں ہے کہ اتنی مہنگی تعلیم بیچنے کے بعد یہاں کوئی عالمی معیار کی تعلیم دی جاتی ہوگی۔ جی نہیں اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں کے اساتذہ کی بھی عموماً سب سے بڑی قابلیت آپ کا خوب صورت نظر آنا اور امریکی لہجے میں انگریزی کا ماہر ہونا ہے۔

ایک اور المیہ ملک عزیز میں بیک وقت پانچ چھ نظام تعلیم کا رائج ہونا ہے۔ ٹاٹ اسکولوں سے ایچی سن تک ایک دردناک کہانی ہے۔ یکساں نظام تعلیم سے محرومی ایک ایسا المیہ ہے جس کی وجہ سے بچے شروع ہی سے مختلف طبقات کے نمایندے بنتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں، یوں طبقاتی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ عصری تعلیم کے مقابلے میں دینی تعلیم کے حوالے سے مدارس کی کارکردگی نسبتاً کافی تسلی بخش ہے۔ مدرسے کا تعلیمی نصاب پورے ملک میں یکساں ہے۔

یہاں اب بھی حقیقی معنوں میں تعلیم مفت ہے۔ کوئی داخلہ فیس ہے نہ ماہانہ فیس۔ اس کے ساتھ ساتھ بیشتر طلبا کو رہائش، کھانے اور علاج معالجے کی اضافی سہولتیں بھی دی جاتی ہیں، وہ بھی بالکل مفت۔ سب جانتے ہیں کہ دینی مدارس کو کوئی سرکاری امداد میسر نہیں۔ محض اہل خیر کے چندوں سے یہ اتنا بڑا نظام چل رہا ہے۔ اگر دینی مدارس بے سروسامانی میں بھی یہ ہمت کر رہے ہیں اور طلبا پر فیسوں کا زائد بوجھ نہیں ڈال رہے تو سرکاری تعلیمی ادارے جو حکومتی سرپرستی میں چلتے ہیں، وہاں معیار تعلیم کی ایسی زبوں حالی کیوں ہے؟

قصہ مختصر تعلیم کے اس دھندے میں تعلیم کا معیار کیا ہے؟ اس کا اندازہ صرف اس سے ہوجاتا ہے کہ ہماری بڑی سے بڑی یونیورسٹی بھی دنیا کے کسی رینک میں شامل نہیں۔ ہماری کیا 2013ء اگست میں جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیز میں سے چار سو چھیانوے نمبر پہ آنے والی ترکی کی استنبول یونیورسٹی کے علاوہ پوری اسلامی دنیا کی کوئی ایک یونیورسٹی بھی شامل نہیں، جب کہ چین کی کئی، بھارت کی دو اور اسرائیل کی تقریباً سب ہی یونیورسٹیز شامل ہیں۔

اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں وہ کام ہی نہیں کر رہیں جو ان کا بنیادی کام ہے۔ یونیورسٹیاں بنیادی طور پر تحقیقی ادارے ہوتی ہیں اور کسی قوم کے مستقبل کی ترجیحات کے لیے کام کرتی ہیں۔ اگر وہاں تحقیق نہیں ہو رہی تو ان اداروں کو عالمی معیار کے اعتبار سے یونیورسٹی کہنا بھی نہیں چاہیے۔

چلیں تحقیق کو چھوڑیے... رسمی نصابی تعلیم کو ہی لے لیجیے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی نوجوانوں کو قدرت نے ذہانت سے نوازا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں سے ایسے نوجوان سامنے نہیں آ رہے جو ملکی سطح پر اپنی ذات سے کچھ فائدہ پہنچا سکیں۔ زیادہ تر ایسے طلبا ہیں جنھوں نے جامعات کو سیاست کا گڑھ بنا لیا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کوئی قاری ارفع کریم کا نام لے، چند اور بھی نام ہیں جو اپنی فطری ذہانت کی وجہ سے عالمی طور پر نمایاں ہوئے، مگر یہ مستثنیات میں سے ہیں۔ ننانوے فیصد طلبا جو ڈگریاں لے کر نکل رہے ہیں، ان کے علمی شعور کا کیا حال ہے؟ یاد رکھیے کسی بھی ملک کا مستقبل تب ہی تابناک ہو سکتا ہے جب اس کی جامعات سے کم از کم چالیس فیصد طلبا اعلیٰ سطح کی تعلیم حاصل کر کے ملک و ملت کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں