کیوں

ستاروں کے کھیل ہیں ہی عجب، جو لوگ ان کو نہیں تسلیم کرتے وہ اپنی جگہ مگر انھیں تسلیم نہ کرنے کا خیال کہاں سے آیا۔



اس کار زار ہستی میں حضرت انسان کی آمد جہاں قدرت کی ''احسن تر تخلیق'' کا درجہ رکھتی ہے وہاں مالک کائنات نے مٹی کے اس جسم کو حرارت، پانی بھی عطا کیا ہے اور سب سے بلند تر جگہ پر انسانی Power Computer رکھا ہے جسے ہم ''دماغ'' کہتے اور جانتے ہیں۔ ''دماغ'' خالصتاً ''دماغ'' کے معنی میں مذکور ہے، محض ''شاعرانہ دماغ'' نہیں! تو یہ دماغ جو Control روم بھی ہے، سارے جسم کا، اس قوت سے مزین ہے کہ حرکات پر قادر ہے، مرضی خداوند کے تابع اور Thought کا مالک ہے، یعنی غور و فکر کرنے کا عادی ہے۔

یہ صفت غور و فکر الگ الگ پیمانوں کے مطابق ہے۔ علم جفر کے حساب سے بروج اور مدار اور پھر آپ کا Star اس پر اثر انداز ہیں، مثلاً میں اپنی ہی مثال دیتا ہوں کہ میں نے بعض مواقع پر سنگین غلط فیصلے کیے، بعد میں خود بھی اندازہ ہوا اور اس Situation میں دوسروں کے فیصلے دیکھ کر بھی اندازہ ہوا کہ کیا زیادہ درست تھا یا درست تھا جو مجھ سے درست نہ ہو سکا۔

ستاروں کے کھیل ہیں ہی عجب، جو لوگ ان کو نہیں تسلیم کرتے وہ اپنی جگہ مگر انھیں تسلیم نہ کرنے کا خیال کہاں سے آیا، وہی Power Computer سے۔ تو اندازہ ہوا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ ڈبے سب کے ایک جیسے ہو سکتے ہیں یعنی کتنی ہڈیوں کے درمیان موجود ہے، یہ شاید یکساں ہو مگر کیا موجود ہے یہ ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ انسان کے ہاتھوں کے نشانات الگ الگ ہیں۔ کھربوں انسان دنیا میں ہیں۔ ہر ایک الگ تو یہ اس Super Computer جو Godmade ہے بے خطا، مکمل درست ہمیشہ درست رہنے والا۔

ہم کسی اور طرف نہ کھل جائیں تو واپس آتے ہیں اپنی بات کی طرف۔ تو ہر نفس انسانی کے پاس یہ Machine ہے، استعمال پر قادر ہے مگر نتائج الگ الگ ہیں، پھر یہاں ایک سوچ مقدر کی پیدا ہوتی ہے،یہ کیا ہے؟ مقدر یہی ہے کہ بادشاہ کا بیٹا بادشاہ اور مزدور کا بیٹا مزدور؟ تو پھر اس کا کیا ہے قصور؟ وہ تو ہے مجبور اور یہی حال بادشاہ کے بیٹے کا وہ اپنی جگہ چاہے ظلم کرے مگر مجبور؟

یہ ہے ایک عام اندازہ جو ہم حالات، واقعات، کسی جگہ خود کے ہونے، کسی گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے کچھ دخل ہے اور نہ کچھ بننے میں، جو لکھا تھا وہ ہو گیا۔ تو پھر کیسا حساب؟ کچھ اپنا دخل ہوتا تو حساب بھی ہوتا۔ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق۔ یہاں تک بھی بات ہوتی تو شاید... شاید ٹھیک ہوتا... مگر پھر یہ سلسلہ بھی ہے کہ ''میں ایسا کیوں ہوں؟'' دن میں کئی بار سوچتا ہوں، میں فلاں کیوں نہیں ہوا؟ اﷲ چاہتا تو وہ مجھے ''ویسا بھی تو بنا سکتا تھا؟'' مجھے یہ کیوں بنایا؟ یہی کیوں؟

''کیوں'' نے دنیا کے بہت کام خراب کیے ہیں اور ''کیوں'' نے دنیا کو بہت کچھ دیا ہے۔ سیب درخت سے زمین پر ''کیوں'' گرا، اوپر کیوں نہیں چلا گیا؟'' Gravity کی تھیوری اور عمل سامنے آ گیا، یہ کس کا نتیجہ ہے ''کیوں'' کا۔

''الف'' نے ''ب'' کو جان سے مار دیا۔ کیوں؟ ''الف'' نے ''ب'' کی برابری کی کوشش ''کیوں'' کی؟ معلوم ہوا کیوں ہی ہر چیز کی جڑ ہے۔ کچھ ''Ws'' مشہور ہیں، یہ کیوں کی جمع ہیں، اس میں ہر قسم کے کیوں موجود ہیں How?, Where?, Who?, When?, Why? جب انسان نے ان تجسساتی ''Ws'' کا راز معلوم کرنا شروع کیا تو وہ ارتقا کی منزل طے کرتا گیا اور آج آپ دیکھ لیں، میں دعوے سے کہتاہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ''Ws'' کا ہے، کم از کم حرف ''W'' کا تو بے حد استعمال ہے اور آپ کو تعجب ہو گا کہ آدم و ابلیس کے معاملے میں پہلی بار یہ سارے ''Ws'' استعمال ہوئے تھے۔ ابلیس نے کہا آدم کو سجدہ کروں Why? یہ کون ہے Who is He? کہ میں سجدہ کروں؟ Where From یہ کہاں سے آیا ؟ کہ جو سجدہ تجھے کرتا ہوں وہ اس کو کروں؟ When?۔ کب؟ جب کہ یہ اب تخلیق ہوا ہے، میں تو بہت Senior ہوں۔

اور ہاں How? کیسے بنا یہ مٹی سے، پانی سے، مٹی جو خاک ہے، فرش پر ہوتی ہے اور میں Fire آگ سے بنا ہوں، جو اوپر اٹھتی ہے۔

یہ پہلا ڈراما انسانی تاریخ کا آج اپنے عروج پر ہے۔ کمال یہ ہے کہ اب اس کے کردار آدم و ابلیس ہیںیا نہیں۔ جو ظاہری آنکھ دیکھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں طرف آدم ہیں، یہ Character بنا لیے ہیں،پیدا خدا کے بندے ہوئے تھے، مگر آگے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ڈراموں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ پہلے ڈرامے کے بعد کربلا میں جو کچھ ہوا وہ انتہا تھی اور اب جو ہو رہا ہے وہ اس دور کی انتہا ہے۔ اس دور کا یزید ایک تھا، اس دور کے یزید بہت ہیں، وہ صرف ایک مملکت کی ہوس تھی کہ مکمل اختیار ہو، اچھا برا کرنے کا، جو حسینؓ نے تسلیم نہیں کیا اور اب ساری دنیا مسلمانوں اور لا الٰہ الا اﷲ کی دشمن ہو گئی ہے۔ سازش یہ ہے کہ اﷲ اکبر کہہ کر مسلمان کا گلا کاٹو، تا کہ دیکھنے والے مسلمان ''لا الٰہ الا اﷲ'' سے منحرف ہو جائیں۔ اور کہاں سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟ آپ جانتے ہیں۔

کب ہو گا وہ جو ہم پڑھتے رہے سنتے رہے۔ Enough is Enough، یہ مسلمانوں کے لیے نہیں ہے شاید اور ہو بھی کیسے، اس کے لیے تو ایک ''کیوں'' ہے، Where and What is Your Charactor لیجیے میں نے ایک جملے میں ہی دو باتیں کہہ دی ہیں، کردار کیا ہے تمہارا؟ سوال ہے یہ دنیا کا ہم سے، کیوں ہم تمہیں اپنا جیسا سمجھیں؟ Why

بھکاری کو جو دیا جائے وہ لینا پڑتا ہے، محکوم کو جو کہا جائے وہ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان قیصر روم کا وہ اکھاڑہ ہے جہاں انسانی سروں سے فٹ بال کھیلی جا چکی ہے،انسانی جسموں کو ملیامیٹ کرنے کا گھناؤنا ''دھندا'' استعماری قوتوں کے اشاروں پر اس کے ایجنٹ رات دن کیوں؟ سوچیے۔

اگر سمجھ میں نہ آتا ہو تو اس کا ترجمہ کر لیجیے Beggars have no right to choose (بھکاریوں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں