امریکا نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے نائن الیون کےواقعے کے بعد دہشت گردی کے شبہ میں پکڑے جانے والے ملزمان کے خلاف تشدد میں قانونی طریقہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے سخت سزائیں دیں۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسداد تشدد کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نگران قانونی مشیر میری میک لیوڈ کاکہنا تھا کہ امریکا کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے انسانی حقوق کے احترام، اس کے فروغ اور دفاع کو نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں ہمیشہ اولیت دی ۔ ان کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینڑ پر دہشت گردی کے حملے کے بعد امریکا نے مجرموں کے خلاف تشدد میں انسانی حقوق سے تجاوز کیا جو کہ امریکی اقدار کے خلاف تھا اور اس سلسلے میں قانونی راستے سے انحراف کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
کمیٹی کے رکن جینز موڈوگ نے دہشت گردی میں ملوث ملزمان پر تشدد کی امریکی پالیسی پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدرجارج بش کےدور میں تشدد کے غیر قانونی اور ظالمانہ طریقہ کار اختیار کئے گئے جو انسانی اقدار کے خلاف تھے اوراس میں واٹر بورڈنگ جیسا غیر انسانی طریقہ تشدد بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے طریقے اب بھی اختیار کئے جارہے ہیں۔
انسانی حقوق کی رہنما لارا پیٹر نے واضح کیا امریکا اپنی پالیسی میں یہ تبدیلی صرف ایسی جگہ نہ کرے جہاں اس کی حکومت ہے بلکہ ان جگہوں پر بھی انسانی حقوق کا تحفظ کرے جہاں اس کے زیر اثر علاقوں میں جیلیں موجود ہیں جب کہ سی آئی اے کے مظالم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور انسانی حقوق کے رکن کا کہنا تھا کہ نائن الیون کےبعد سے اب تک امریکا نے ان غیر انسانی سزاؤں پر کوئی باقاعدہ اقدامات نہیں کئے بالخصوص سی آئی اے کے زیر انتظام جیلوں میں ہونے والے غیر انسانی رویوں کے خلاف کوئی کاغذی کارروائی نہیں کی گئی۔
کانفرنس میں پہلی بار امریکا کے 30 سے زائد قانونی ماہرین شریک ہوئے جب کہ اجلاس میں موجود ایک امریکی قانونی ماہر نے اس الزام سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بش دور کی تشدد کی کئی تکنیک کو ختم کردیا گیا ہے جب کہ ان کا کہنا تھاکہ گوانتاناموبے سمیت دیگر جیلوں میں دہشت گردی کے ملزموں کے ساتھ جو غیر انسانی اور ہتک آمیز رویہ اختیار کیا جارہا تھا اس میں بتدریج تبدیلی لا رہے ہیں۔