کھیل کود بڑی عمر میں بڑے کارنامے
مر کا تقاضہ اپنی جگہ مگر ہمیں عمرسے زیادہ کارکردگی پر نظر رکھنی چاہیے.
لاہور:
ٹک ٹک، سست کھلاڑی، ہمیشہ ہروانے والا ۔۔۔ میں نام نہ بھی لوں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ میں کسی اور کا نہیں بلکہ مصباح الحق کا ذکر کررہا ہوں ۔۔۔
اگرچہ میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھ رہا ہوں کہ کبھی مصباح الحق کو ان القابات سے نہ ہی نوازا اور نہ ہی نوازنے والوں کی رائے سے اتفاق کی ۔۔۔ خوش نصیب اِس لیے کہ آج وہ دن آچکا ہے کہ جو جو مصباح الحق کو اِن القابات سے نواز رہے تھے اُنہیں اپنے بیانات سے رجوع کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ آج وہ سب غلط ثابت ہوگئے ہیں اور تمام تر اختلافات، تنقید کے باوجود اِس کھلاڑی نے اپنے حوصلوں کو بلند رکھتے ہوئے قوم کا نام روشن کردیا ہے۔
آج پاکستان کی کرکٹ کے لیے بہت سے حوالوں سے ایک اہم دن ہے ۔۔۔ کس کس بات کا ذکر کیا جائے۔ پاکستان نے آسٹریلیا کو کلین سوئپ کرنے کے بعد نیوزی لینڈ کو بھی پہلے ٹیسٹ میں بھی شکست دے دی، مصباح الحق، عمران خان کو پیچھے چھوڑ کر پاکستان کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بن گئے، مصباح بطور کپتان پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بھی بن گئے، اُنہوں نے گزشتہ دنوں ٹیسٹ کی تیز ترین نصف سینچری اسکور کی، اور صرف نصف ہی نہیں بلکہ تیز ترین سینچری بھی اُسی اننگز میں بنائی۔ صرف یہی نہیں بلکہ لگاتار3 اننگز میں 3 سینچریاں بھی اسکور کی۔ اور یہ معاملہ صرف مصباح تک ہی محدود نہیں بلکہ جس جس کو موقع ملا سینچریوں کے انبار لگادیے ۔۔۔ یونس خان نے بھی آسٹریلیا کے خلاف بھی 3 اننگز میں بھی 3 سینچریاں بنائیں اور یہ سلسلہ نیوزی لینڈ کے خلاف بھی جاری رکھا۔ نوجوان اظہر علی اور احمد شہزاد نے 2، 2 سینچریاں بنائیں ، کوئی کمی رہ گئی تھی تو محمد حفیظ نے بھی طویل وقت سے کھوئی ہوئی فارم کو ڈھونڈ نکالا اور نیوزی لینڈ کے خلاف سینکڑاں جڑدیا ۔۔۔۔ اچھی کارکردگی محض بلے بازوں کی جانب سے نہیں بلکہ نئے نئے باولرز نے بھی سب کو حیران کردیا اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اُن لوگوں کو دُکھ کا سامنا کرنا پڑا جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی واقعی ہوتی جارہی ہے تو اُن سے گزارش ہے کہ عمران خان، یاسرشاہ، راحت علی اور ذوالفقار بابر کی جناب دیکھ لیں آپ کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی اور یہ سب اُس وقت سامنے آئے جب پوری سعید اجمل کی غیر موجودگی پر افسردہ تھی۔
جیت اور ہار یقینی طور پر کھیل کا حصہ ہے مگر جناب جس ملک کے ساتھ مسلسل ناانصافی برتی جائے وہاں اِس قسم کی عظیم فتوحات کا جشن تو منایا جانا چاہیے کہ جہاں گزشتہ 7 سال سے کھیل کے میدان ویران پڑے ہیں۔ اور ایسی صورت حال میں مصباح الحق کا پاکستان کی نمائندگی کرنا اور پھر فتح کے سفر پر گامزن کرنا کوئی معمولی واقعہ ہر گز نہیں ہے۔
جب 2001 میں مصباح الحق نے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ بوڑھا کھلاڑی ہے اور طویل وقت تک پاکستان کے لیے کھیلنا اِس کے لیے مشکل ہوگا اور پھر وقتاً فوقتاً اِس کھلاڑی کے لیے مشکلات کھڑی کی جاتی رہیں اور بمشکل مصباح 2007 میں اپنے لیے ٹیم میں مستقل جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جس کے بعد 2010 میں ایک مشکل حالات میں بخوشی نہیں مجبوری کے تحت مصباح کو پاکستان کا کپتان بنایا گیا جس کے بعد پیچھے کیا ہوا یہ کبھی اِس کھلاڑی نے دیکھا ہی نہیں ۔۔۔ اور آج عمران خان، جاوید میانداد سمیت بڑے بڑے ناموں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔۔۔ یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ اب تک ہر کھلاڑی کو ہوم گراونڈ میں کھیلنے کی سہولت میسر رہی ہے جس کے سبب جیت کے امکانات ہمیشہ روشن رہتے ہیں مگر مصباح نے اپنی کپتانی میں کوئی ایک میچ بھی وطن عزیز میں نہیں کھیلا مگر اِس کے باوجود محض 31 میچوں میں کپتانی کرتے ہوئے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بننا قابل ستائش بات ہے اور اِس کارنامے پر کم از کم میں تو مصباح کو ویل ڈن کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آخر میں جاتے جاتے کھیل کے شائقین سے التجا ہے کہ جناب جذبات اپنی جگہ مگر ہوش کا استعمال بھی کبھی کبھار ہو جانا چاہیے۔ جس مصباح کو آپ لوگ صرف اِس لیے ناپسند اور ٹیم سے نکلوانا چاہتے ہیں کہ یہ عمر رسیدہ ہوچکے ہیں اور اُس طرح چست اور پھرتیلی نہیں ہے جس طرح ایک جوان کھلاڑی ہوسکتا ہے تو لہذا اُن تمام شائقین کرکٹ کے لیے عرض ہے کہ عمر کا تقاضہ اپنی جگہ مگر ہمیں عمرسے زیادہ کارکردگی پر نظر رکھنی چاہیے ۔۔۔۔ لیکن اگر ہم عمر پر نظر رکھیں گے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اِس ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مختص ہے تو اِس طرح تو ہمارے لیے انتخاب بہت مشکل ہوجائے گا کہ عمر کی بنیاد پر کس کس کو موقع دیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ٹک ٹک، سست کھلاڑی، ہمیشہ ہروانے والا ۔۔۔ میں نام نہ بھی لوں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ میں کسی اور کا نہیں بلکہ مصباح الحق کا ذکر کررہا ہوں ۔۔۔
اگرچہ میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھ رہا ہوں کہ کبھی مصباح الحق کو ان القابات سے نہ ہی نوازا اور نہ ہی نوازنے والوں کی رائے سے اتفاق کی ۔۔۔ خوش نصیب اِس لیے کہ آج وہ دن آچکا ہے کہ جو جو مصباح الحق کو اِن القابات سے نواز رہے تھے اُنہیں اپنے بیانات سے رجوع کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ آج وہ سب غلط ثابت ہوگئے ہیں اور تمام تر اختلافات، تنقید کے باوجود اِس کھلاڑی نے اپنے حوصلوں کو بلند رکھتے ہوئے قوم کا نام روشن کردیا ہے۔
آج پاکستان کی کرکٹ کے لیے بہت سے حوالوں سے ایک اہم دن ہے ۔۔۔ کس کس بات کا ذکر کیا جائے۔ پاکستان نے آسٹریلیا کو کلین سوئپ کرنے کے بعد نیوزی لینڈ کو بھی پہلے ٹیسٹ میں بھی شکست دے دی، مصباح الحق، عمران خان کو پیچھے چھوڑ کر پاکستان کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بن گئے، مصباح بطور کپتان پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بھی بن گئے، اُنہوں نے گزشتہ دنوں ٹیسٹ کی تیز ترین نصف سینچری اسکور کی، اور صرف نصف ہی نہیں بلکہ تیز ترین سینچری بھی اُسی اننگز میں بنائی۔ صرف یہی نہیں بلکہ لگاتار3 اننگز میں 3 سینچریاں بھی اسکور کی۔ اور یہ معاملہ صرف مصباح تک ہی محدود نہیں بلکہ جس جس کو موقع ملا سینچریوں کے انبار لگادیے ۔۔۔ یونس خان نے بھی آسٹریلیا کے خلاف بھی 3 اننگز میں بھی 3 سینچریاں بنائیں اور یہ سلسلہ نیوزی لینڈ کے خلاف بھی جاری رکھا۔ نوجوان اظہر علی اور احمد شہزاد نے 2، 2 سینچریاں بنائیں ، کوئی کمی رہ گئی تھی تو محمد حفیظ نے بھی طویل وقت سے کھوئی ہوئی فارم کو ڈھونڈ نکالا اور نیوزی لینڈ کے خلاف سینکڑاں جڑدیا ۔۔۔۔ اچھی کارکردگی محض بلے بازوں کی جانب سے نہیں بلکہ نئے نئے باولرز نے بھی سب کو حیران کردیا اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اُن لوگوں کو دُکھ کا سامنا کرنا پڑا جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی واقعی ہوتی جارہی ہے تو اُن سے گزارش ہے کہ عمران خان، یاسرشاہ، راحت علی اور ذوالفقار بابر کی جناب دیکھ لیں آپ کی یہ غلط فہمی دور ہوجائے گی اور یہ سب اُس وقت سامنے آئے جب پوری سعید اجمل کی غیر موجودگی پر افسردہ تھی۔
جیت اور ہار یقینی طور پر کھیل کا حصہ ہے مگر جناب جس ملک کے ساتھ مسلسل ناانصافی برتی جائے وہاں اِس قسم کی عظیم فتوحات کا جشن تو منایا جانا چاہیے کہ جہاں گزشتہ 7 سال سے کھیل کے میدان ویران پڑے ہیں۔ اور ایسی صورت حال میں مصباح الحق کا پاکستان کی نمائندگی کرنا اور پھر فتح کے سفر پر گامزن کرنا کوئی معمولی واقعہ ہر گز نہیں ہے۔
جب 2001 میں مصباح الحق نے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ بوڑھا کھلاڑی ہے اور طویل وقت تک پاکستان کے لیے کھیلنا اِس کے لیے مشکل ہوگا اور پھر وقتاً فوقتاً اِس کھلاڑی کے لیے مشکلات کھڑی کی جاتی رہیں اور بمشکل مصباح 2007 میں اپنے لیے ٹیم میں مستقل جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جس کے بعد 2010 میں ایک مشکل حالات میں بخوشی نہیں مجبوری کے تحت مصباح کو پاکستان کا کپتان بنایا گیا جس کے بعد پیچھے کیا ہوا یہ کبھی اِس کھلاڑی نے دیکھا ہی نہیں ۔۔۔ اور آج عمران خان، جاوید میانداد سمیت بڑے بڑے ناموں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔۔۔ یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ اب تک ہر کھلاڑی کو ہوم گراونڈ میں کھیلنے کی سہولت میسر رہی ہے جس کے سبب جیت کے امکانات ہمیشہ روشن رہتے ہیں مگر مصباح نے اپنی کپتانی میں کوئی ایک میچ بھی وطن عزیز میں نہیں کھیلا مگر اِس کے باوجود محض 31 میچوں میں کپتانی کرتے ہوئے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بننا قابل ستائش بات ہے اور اِس کارنامے پر کم از کم میں تو مصباح کو ویل ڈن کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
آخر میں جاتے جاتے کھیل کے شائقین سے التجا ہے کہ جناب جذبات اپنی جگہ مگر ہوش کا استعمال بھی کبھی کبھار ہو جانا چاہیے۔ جس مصباح کو آپ لوگ صرف اِس لیے ناپسند اور ٹیم سے نکلوانا چاہتے ہیں کہ یہ عمر رسیدہ ہوچکے ہیں اور اُس طرح چست اور پھرتیلی نہیں ہے جس طرح ایک جوان کھلاڑی ہوسکتا ہے تو لہذا اُن تمام شائقین کرکٹ کے لیے عرض ہے کہ عمر کا تقاضہ اپنی جگہ مگر ہمیں عمرسے زیادہ کارکردگی پر نظر رکھنی چاہیے ۔۔۔۔ لیکن اگر ہم عمر پر نظر رکھیں گے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اِس ملک کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مختص ہے تو اِس طرح تو ہمارے لیے انتخاب بہت مشکل ہوجائے گا کہ عمر کی بنیاد پر کس کس کو موقع دیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔