مبارک ہو وزیراعظم اور وزیر اعلٰی پنجاب نے ملک کی سڑکوں پر پڑھے لکھے ڈرائیور لانے کا فیصلہ کیا ہے۔اب گریجوایٹ ٹائی،شائی لگائے نوجوان لیڈر شپ کرتے نہیں سڑکوں پر ٹیکسیاں چلاتے نظر آئیں گے۔
بھلا سیاست، ہائی فائی اداروں میں ان نوجوانوں کا کیا کام؟ ان کے دلوں میں لیڈری کی خواہش کس نے پیدا کردی؟ یہ شیدے، یہ نورے کا پتر کیا ہم پہ حکمرانی کرے گا، مزدوروں کی اولاد کا کیا کام کہ وہ دفتروں میں بیٹھے۔
ہمارے خادم اعلٰی یہ گاڑیاں کس کو دینگے ذرا اس پر بھی غور کر لیں،یہ گاڑیاں اس خوش نصیب کو ملیں گئی جو میٹرک پاس ہو۔اس کی جیب میں درخواست دیتے وقت 12000 روپے موجود ہوں،عمر 35 سال سے زائد نہ ہو،یعنی بوڑھا نہ ہو۔یہ بھی خیال رکھا جائے کہ وہ بینک ملازمین کے ناز نخرے اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہو،اگر کسی غریب، بیروزگار کا قرعہ نکل آتا ہے تو اسے ایک لاکھ ستر ہزار روپے ڈاؤن پیمنٹ کا بندوبست بھی کرنا ہوگا،ضمانتی بھی فراہم کرنے ہونگے۔
محترم خادم اعلٰی! معذرت کے ساتھ آپ بتائیں گے کہ ایک غریب جس کی ماہانہ آمدنی صرف دس ہزار ہو،ایک مزدور جس کی ماہانہ جمع پونجی روزانہ کھانے پینے میں اولاد کی پیٹ پالنے میں صرف ہوتی ہو،ایک کسان،جس کی فصل برداشت سے پہلے ماری جائے،جس پر آمدن سے زیادہ کھاد،بیج،پانی کا قرضہ ہو،اس کا بچہ آپ کی گاڑیوں کی درخواست کے بارہ ہزار کہاں سے لائے گا؟
ایک غریب کے پاس سائیکل تک نہیں اس کے پاس ڈرائیونگ لائیسنس کہاں سے ہوگا؟ چلیں اس نے سارے زینے عبور کرلئے ڈاؤن پیمنٹ کے ایک لاکھ ستر ہزار کہاں سے لائے گا؟
محترم خادم اعلٰی! ایسے کام کیوں کیے جا رہے ہیں جو بیروزگاری،غربت کو ختم نہیں کرسکتے،اپوزیشن کے دباؤ میں آکر اپنی ساکھ کیوں خراب کرتے ہیں؟ بیروز گاری اور غربت کو ختم کرنا ہے تو غریب کی جگہ رہ کر فیصلے کریں،ایسے آفیسر پالیسیاں بنوائیں جس نے غربت کے دن دیکھے ہوں،نوجوانوں کو بھیک یا قرض نہ دیں نوکریاں دیں،لاکھوں نوجوان ڈگریاں لے کر دھکے کھاتے پھرتے ہیں ان کا صحیح استعمال کریں،ان کو سرکاری اداروں میں بٹھائیں،ان کو ہنر دیں،ہیروں کو گندگی کے ڈھیر میں جانے سے پہلے محفوظ کرنے کا اہتمام کیا جائے،زنگ لگتی جوانیوں کو قیادت کے قابل بنایا جائے۔
یہ اقبالؒ کے شاہین،یہ قائدؒ کے فرزند آج محسنوں کو تلاش کر رہے ہیں آپ ہی ان کے محسن بن جائیں،آپ سے کی جانے والی نفرت،محبت بن جائے گی،گو گو کی آوازیں ویلکم،خوش آمدید بن جائیں گی،محترم میاں صاحبان! مانا کہ آپ نے پل بنائے،سڑکوں کے جال بچھائے،پاور پلانٹ بھی لگا رہے ہیں،ٹیکسٹائل سٹی،صنعتی شہر بھی بسا رہے ہیں،پاکستان کو ایشےئن ٹائیگر بھی بنانا چاہتے ہیں،یہ سب کس کام کے جب اس سے فائدہ اٹھانے والے ہی نہ رہیں گے،ہم نے تو سنا ہے کہ آج تک جس ملک نے بھی ترقی کی ہے اس کے حکمرانوں نے سب سے اپنی رعایا کے بارے سوچا،اس کی ضرورت کے مطابق کام کیے ،جاپان نے اپنی قوم کو ہنر مند بنایا تو اسے اپنی صلاحیتیں کھپانے کا سامان بھی فراہم کیا،بھوک سے مرتے چینی آج سب بڑی معیشت بنا تو اس نے بھی عام آدمی کو ترقی دی،ملایشیاء،ترکی کی مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں۔
میاں صاحب! معاشرتی بگاڑ،دہشتگردی کی وجہ کوئی اور نہیں بھوک ہے،پیاس ہے،مایوسی ہے،یہ پیٹ کا جہنم جب بھر جائیگا تو ملک جنت بن جائے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔