سندھ حکومت کی یہی کارکردگی رہی تو پورا صوبہ تھر میں تبدیل ہوجائے گا پیر پگارا
سندھ حکومت نے مٹھی میں جس شان و شوکت کا مظاہرہ کیا وہ تھر کے باسیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے،خالد مقبول صدیقی
مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا نے کہا ہے کہ اگر سندھ حکومت کی یہی کارکردگی رہی تو پورا صوبہ تھر میں تبدیل ہوجائے گا جب کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے اپنے ضلع خیرپور میں صورت حال یہ ہے کہ ہر شخص غروب آفتاب سے قبل اپنی منزل کو پہنچنے کی کوشش کرتا ہےاور جو پولیس افسر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرتا ہے اسے تبدیل کردیا جاتا ہے۔
کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ایم کیو ایم کے وفد نے پیر پگارا سے ملاقات کی ، جس میں صوبے کے معاملات اور بالخصوص تھر کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے مسلم لیگ فنکشنل سے کافی گہرے تعلقات رہے ہیں، دونوں جماعتیں کئی معاملات میں یکساں موقف رکھتی ہیں۔ پیر صاحب پگارا سے ملاقات کا مقصد تھر کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنا تھا، وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ تھر کی صورت حال اتنی سنگین ہے کہ انسان کچھ نہیں کرسکتا اب اللہ ہی کچھ کرے گا۔ انہوں نے کہا دراصل تھرپارکر کے معاملے پر حکومت سندھ نے مجرمانہ غفلت برتی اور اسی وجہ سے وہاں انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ صوبے میں جس طرح لوٹ کھسوٹ کی جارہی ہے اور جسیے فیصلے صادر کئے جارہے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پورے سندھ میں تھر جیسی صورتحال پیدا کرنے کا عزم کرکھا ہے، گزشتہ روز صوبائی حکومت نے مٹھی میں جس شان و شوکت کا مظاہرہ کیا وہ تھر کے باسیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل مل کر سندھ کے دیہی اور شہری عوام کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور صوبے کی ترقی کے لئے مل جل کر کام کریں گے۔
اس موقع پر پیر پگارا کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے گزشتہ 6 برسوں میں صوبے کے حالات کو ابتر کردیا ہے اگر یہی صورتحال چلتی رہی تو پھر پورا سندھ ہی تھر میں تبدیل ہوجائے گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے اپنے ضلع خیرپور میں صورت حال یہ ہے کہ ہر شخص غروب آفتاب سے قبل اپنی منزل کو پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، لوگ حتی المقدور سڑک پر سفر سے گریز کرتے ہیں اور جو پولیس افسر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرتا ہے اسے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے کہنے پر صوبے بن اور ٹوٹ نہیں سکتے، آئین میں صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے واضح طور پر طریقہ کار درج ہے اگر نئے صوبے بنانے ہیں تو پنجاب میں بننے چاہئیں کیوں کہ وہاں بہاولپور صوبے کی بحالی اور سرائیکی صوبے کے قیام کے کے لئے کئی برسوں سے بات کی جارہی ہے، اس کے بعد سندھ کی بات تو اس کے بعد آتی ہے۔
کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ایم کیو ایم کے وفد نے پیر پگارا سے ملاقات کی ، جس میں صوبے کے معاملات اور بالخصوص تھر کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے مسلم لیگ فنکشنل سے کافی گہرے تعلقات رہے ہیں، دونوں جماعتیں کئی معاملات میں یکساں موقف رکھتی ہیں۔ پیر صاحب پگارا سے ملاقات کا مقصد تھر کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنا تھا، وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ تھر کی صورت حال اتنی سنگین ہے کہ انسان کچھ نہیں کرسکتا اب اللہ ہی کچھ کرے گا۔ انہوں نے کہا دراصل تھرپارکر کے معاملے پر حکومت سندھ نے مجرمانہ غفلت برتی اور اسی وجہ سے وہاں انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ صوبے میں جس طرح لوٹ کھسوٹ کی جارہی ہے اور جسیے فیصلے صادر کئے جارہے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پورے سندھ میں تھر جیسی صورتحال پیدا کرنے کا عزم کرکھا ہے، گزشتہ روز صوبائی حکومت نے مٹھی میں جس شان و شوکت کا مظاہرہ کیا وہ تھر کے باسیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل مل کر سندھ کے دیہی اور شہری عوام کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور صوبے کی ترقی کے لئے مل جل کر کام کریں گے۔
اس موقع پر پیر پگارا کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے گزشتہ 6 برسوں میں صوبے کے حالات کو ابتر کردیا ہے اگر یہی صورتحال چلتی رہی تو پھر پورا سندھ ہی تھر میں تبدیل ہوجائے گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے اپنے ضلع خیرپور میں صورت حال یہ ہے کہ ہر شخص غروب آفتاب سے قبل اپنی منزل کو پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، لوگ حتی المقدور سڑک پر سفر سے گریز کرتے ہیں اور جو پولیس افسر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرتا ہے اسے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے کہنے پر صوبے بن اور ٹوٹ نہیں سکتے، آئین میں صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے واضح طور پر طریقہ کار درج ہے اگر نئے صوبے بنانے ہیں تو پنجاب میں بننے چاہئیں کیوں کہ وہاں بہاولپور صوبے کی بحالی اور سرائیکی صوبے کے قیام کے کے لئے کئی برسوں سے بات کی جارہی ہے، اس کے بعد سندھ کی بات تو اس کے بعد آتی ہے۔