سانحہ ماڈل ٹاؤن پنجاب حکومت کی تحقیقاتی ٹیم کوعوامی تحریک نے مسترد کردیا

شریف برادران اس قتل عام میں براہ راست ملوث ہیں اس لیے ان کو کلین چٹ دینےکیلئے یہ کمیٹی بنائی گئی، صدرعوامی تحریک

جے آئی ٹی کا سربراہ ایسا غیر جانبدرا افسر ہوجس پر شہدا کے ورثا اور ہمیں اعتماد ہو ورنہ قوم اس طرح کا ڈرامہ قبول نہیں کرے گی، ڈاکٹر رحیق عباسی، فوٹو:فائل

پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے جسے عوامی تحریک کی جانب سے مسترد کردیا گیا ہے جب کہ اس سے قبل ہونے والے مذاکرات میں دونوں جانب سے غیر متنازعہ جے آئی ٹی بنانے اوراس کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے ساتھ اس کے فیصلوں کو بھی تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

ایکسپریس نیوز کےمطابق حکومت نے سی سی پی او کوئٹہ ذوالفقار چیمہ کی سربراہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے 5 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی ہے جس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے اور کمیٹی وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت مقدمے میں نامزد وزرا کے خلاف تحقیقات کرے گی۔


دوسری جانب عوامی تحریک کے صدر ڈاکٹر رحیق عباسی تحقیقاتی ٹیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے لیے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، ہم نے مذاکرات کے دوران حکومتی ٹیم کو بتادیا تھا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ عوامی تحریک کی منظوری سے مقرر کیا جائے گا جس کے لیے حکومت نے پہلے بھی عبدالرزاق چیمہ کا نام بھیجا تھا جسے ہم نے مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار چیمہ شریف برادران کے قریبی افسر سمجھے جاتے ہیں اور ان کا تعلق پنجاب سے ہے ہم ایسے کسی سربراہ کو قبول نہیں کریں گے جو شریف برادران کو بچانے کے لیے کام کرے، حکومت نے یک طرفہ طور پر تحقیقاتی ٹیم بنائی ہے جس پر ہمیں کوئی اعتماد نہیں۔

ڈاکٹر رحیق عباسی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ ایسا غیر جانبدرا افسر ہوجس پر شہدا کے ورثا اور ہمیں اعتماد ہو ورنہ قوم اس طرح کا ڈرامہ قبول نہیں کرے گی، شریف برادران اس قتل عام میں براہ راست ملوث ہیں اس لیے ان کو کلین چٹ دینے اور سانحہ پر مٹی ڈالنے کے لیے یہ کمیٹی بنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی سربراہی کے لئے آئی جی خیبرپختونخوا اور سابق سی سی پی او کراچی شاہد حیات کا نام دیا تھا لیکن حکومت نے اسے واپس لے لیا کیونکہ یہ لوگ گھر کے افسر مقرر کرنا چاہتے ہیں جو ان کی مرضی سے تحقیات کرے،ہم نہ تو اس تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوں گے اور نہ ہی کوئی شواہد دیں گے جب ہم بطور مدعی اپنی شہادتیں نہیں دیں گے تو ٹیم کس طرح تحقیقات کرسکے گی۔

واضح رہے کہ 17 جون کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر کے سامنے سے بیریئر ہٹانے پر پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوا تھا جس میں 14 افراد جاں بحق جب کہ 80 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
Load Next Story