کشمیر میں فوج کا ناجائز استعمال
سری نگر اور نئی دہلی کی حکومت دونوں نے ہی فوج کو بہت طویل عرصے تک کشمیریوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا ہے۔
دو لڑکے کشمیر میں مارے گئے۔ یہ واقعہ اپنے طور پر الجھا ہوا ہے۔ سفید رنگ کی ایک کار کو غلطی سے اس جیسی ایک اور کار سمجھ لیا گیا جو مبینہ طور پر دہشت گردوں کو لاتی لیجاتی تھی۔ اس کار پر یک لخت 115 گولیاں چلائی گئیں۔ کار میں سوار زندہ بچ جانے والا ایک لڑکا بتاتا ہے کہ فائرنگ اس قدر شدید تھی کہ ان کی کار کے درخت سے ٹکرا کر رک جانے کے باوجود جاری رہی۔
فوج نے غلطی تسلیم کر لی ہے۔ اس قسم کے واقعات جس سرعت سے ہوتے ہیں تو اس بات کا صاف پتہ چل جاتا ہے کہ گولیاں چلانے والوں میں کونسا جنگی جنونی بھی شامل ہے۔ اس واقعے کی فوری طور پر مکمل تحقیقات کرانے کا حکم پہلے ہی دیا جا چکا ہے لیکن کیا اس سے سچ ظاہر ہو سکے گا؟ اس سے زیادہ وہ اور کچھ نہیں بتا سکیں گے کہ کس نے کس کو مارا۔ پوری صورت حال کا اب بھی پتہ نہیں چل سکے گا۔ سچ یہ ہے کہ نئی دہلی کی حکومت حقائق کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتی۔
اس واقعے سے دو چیزیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ داخلی سلامتی کے لیے بھی مسلسل فوج کو استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ جس لاپرواہی کے طریقے سے یہ مقدمہ درج ہوا اور جو پیش رفت ہوئی وہ محض ایک متحرک اشارے کی سی ہے البتہ وادی میں حالت بیگانگی کی صدا بہت گونج دار اور واضح ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی انتظامیہ کا تساہل نیا ہے، جو چیز نئی ہے وہ یہ کہ سخت کوش یا نرم خو انتظامیہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ المیہ گہرا ہے۔
ایک نئی بات یہ بھی نظر آئی کہ کشمیری عوام فوج کی حیثیت کے بارے میں الجھاؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی فوج سے اتنی ہی نفرت کرنے لگے ہیں جیسے یہ کوئی قابض فوج ہو۔ جب کہ مکھیوں کی طرح بھنبھناتی ہوئی انتظامیہ کی طرف سے فوج کی حمایت ایک توہین کے مترادف محسوس ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ فوج نے غیر معمولی تباہ کن سیلاب میں جس طرح سے متاثرین کی مدد کی تھی اس نے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ فوج نے نہ صرف ان کی جان اور مال اسباب کو بچایا اور انھیں طبی امداد بھی دی۔
کئی ہفتوں تک ان کو کھلاتے پلاتے رہے اور سیکڑوں لوگوں کو ایسے علاقوں سے نکالا جن کا رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔ ان ساری انسانی ہمدردی کی خدمات کے باعث فوج کی بربریت کے بارے میں جو تاثر تھا اس میں قدرے کمی ہوئی مگر وادی میں ان کی موجودگی ہی اصل تنقید کا موجب ہے۔ وزیر اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ یقیناً ریاستی پولیس کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ داخلی امن و امان کے مسئلہ پر وہی قابو پائے لیکن جب بھی فوج کو کسی مجمع کو کچلنے کا کہا جاتا ہے تو اس سے بدنامی نئی دہلی حکومت کی ہوتی ہے اور اسی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
سری نگر اور نئی دہلی کی حکومت دونوں نے ہی فوج کو بہت طویل عرصے تک کشمیریوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ انھیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ انھیں ریاست کے اندرونی مسائل میں نہیں الجھایا جانا چاہیے کیونکہ یہ جمہوریت کی نفی ہے جس کے لیے ہم سب کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ ملک پر اصل حکمرانی آئین کی ہے جو تمام شہریوں کو ان کی ذات پات اور شناخت سے ماورا برابر کا درجہ دیتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ بدنما صورت حال یہ ہے کہ لاتعداد نوجوان لاپتہ ہو چکے ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ممکن ہے بعض لوگوں کو دہشت پسندوں نے بھی اغوا کیا ہو گا تا کہ ان کی برین واشنگ کی جا سکے یا ان کی رہائی کے عوض تاوان وصول کیا جائے لیکن ان کی تعداد خاصی محدود ہو گی۔ عوام کی سوچ یہ ہے کہ لاپتہ افراد کے پیچھے نئی دہلی حکومت کا ہاتھ ہے۔ اس تاثر کو اور زیادہ تقویت اس وقت ملتی ہے جب انھیں لاپتہ افراد کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں ملتا حالانکہ مجموعی صورت حال کی ذمے داری مرکزی حکومت کی ہی ہے۔
ایسے معاملات میں شفاف تحقیقات ناگزیر ہیں خصوصاً جو معاملات شروع سے ہی دبائے جائیں یا اگر ان کی تفتیش کی جائے تو یا تو نیم دلی سے کی جائے اور انھیں عدالتوں میں بھی نہ بھیجا جائے۔ اگر لوک پال (محتسب) کا ادارہ قائم ہوتا، جو کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر اب تک نہیں بن سکا، تو اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ اب ہمارا انحصار سیاسی جماعتوں کی حساسیت پر ہے کہ وہ ہی کوئی قدم اٹھائیں۔ درحقیقت یہ سیاسی پارٹیاں ہی ہیں جن کی پارلیمنٹ میں نمایندگی ہوتی ہے جو ملک کا سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہے۔ افسوس! اس کا عمل دخل بھی نظر نہیں آتا۔ وہ لوگ سیاست بازی میں مصروف ہیں اور انھوں نے ملک کے فوری طور پر حل طلب مسائل سے توجہ ہٹا لی ہے۔
خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کو بڑے دھارے میں لانا ضروری ہے تا کہ انھیں احساس ہو سکے کہ یہ ملک ان کا بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ بالادست طبقوں کا ہے۔ برصغیر کی تحریک آزادی کے دوران وعدہ کیا گیا تھا کہ کسی امتیاز کے بغیر سب کی بھلائی کا خیال رکھا جائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ آزادی سے قبل بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے کہ ملک کے تمام لوگوں کو خوراک' رہائش اور ملازمت دی جائے گی۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ مالدار لوگ اپنی دولت کے مالک نہیں بلکہ کسٹوڈین یعنی محافظ ہیں اصل میں یہ دولت سارے عوام کے لیے ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو جو تحریک آزادی کے ایک نمایاں لیڈر تھے وہ تو کھلم کھلا سوشلزم کی بات کرتے تھے۔
نہرو نے 17 سال تک ملک پر حکمرانی کی اور یہ وعدہ کیا کہ بڑی صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے گا تا کہ چھوٹی سطح پر ملک بھر میں صنعت و حرفت کو فروغ دیا جا سکے لیکن یہ سب کچھ صرف کاغذ کی زینت ہی رہا جب کہ خود سر بیورو کریٹس اور لالچی سیاستدانوں نے اس نظریے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتوں نے خواہ ان کی قیادت کانگریس کا اتحاد کرتا تھا یا بی جے پی' دونوں نے بہت بلند و بانگ دعوے کیے مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ عام آدمی کی حالت ذرہ بھی بہتر نہ ہوئی اور نتیجہ ہمیشہ یہی نکلا کہ امیر اور زیادہ امیر ہو گئے اور غریب اور زیادہ غریب ہو گئے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑے وعدے کیے۔ لوک سبھا میں 282 نشستوں کے ساتھ انھیں مکمل اکثریت حاصل ہے اور وہ ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جن سے ملک کی کایا کلپ ہو جائے مگر ان کی مقبولیت کا جادو اتر رہا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ تو کریں گے۔ قانون سازی میں تبدیلیوں کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا لیکن انتظامی اقدامات تو فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں تا کہ حکمرانی میں ایک نمایاں تبدیلی نظر آ سکے۔
ظاہر ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے میں وقت لگے گا لیکن مودی کی انتظامیہ یہ تو کہہ سکتی ہے کہ اب حالات تبدیل ہو جائیں گے۔ مسلح افواج کے خصوصی اختیارات کے ایکٹ پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔ فوج کو یہ اختیار دینا کہ وہ محض شک کی بنا پر کسی کو گولی مار کر ہلاک کر سکتی ہے ایک جمہوری ملک کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔ جن دو نوجوان لڑکوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اسی ایک واقعے پر حکومت کو چاہیے کہ متذکرہ ایکٹ پر نظرثانی کرے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
فوج نے غلطی تسلیم کر لی ہے۔ اس قسم کے واقعات جس سرعت سے ہوتے ہیں تو اس بات کا صاف پتہ چل جاتا ہے کہ گولیاں چلانے والوں میں کونسا جنگی جنونی بھی شامل ہے۔ اس واقعے کی فوری طور پر مکمل تحقیقات کرانے کا حکم پہلے ہی دیا جا چکا ہے لیکن کیا اس سے سچ ظاہر ہو سکے گا؟ اس سے زیادہ وہ اور کچھ نہیں بتا سکیں گے کہ کس نے کس کو مارا۔ پوری صورت حال کا اب بھی پتہ نہیں چل سکے گا۔ سچ یہ ہے کہ نئی دہلی کی حکومت حقائق کا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتی۔
اس واقعے سے دو چیزیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ داخلی سلامتی کے لیے بھی مسلسل فوج کو استعمال کیا جا رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ جس لاپرواہی کے طریقے سے یہ مقدمہ درج ہوا اور جو پیش رفت ہوئی وہ محض ایک متحرک اشارے کی سی ہے البتہ وادی میں حالت بیگانگی کی صدا بہت گونج دار اور واضح ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی انتظامیہ کا تساہل نیا ہے، جو چیز نئی ہے وہ یہ کہ سخت کوش یا نرم خو انتظامیہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ المیہ گہرا ہے۔
ایک نئی بات یہ بھی نظر آئی کہ کشمیری عوام فوج کی حیثیت کے بارے میں الجھاؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی فوج سے اتنی ہی نفرت کرنے لگے ہیں جیسے یہ کوئی قابض فوج ہو۔ جب کہ مکھیوں کی طرح بھنبھناتی ہوئی انتظامیہ کی طرف سے فوج کی حمایت ایک توہین کے مترادف محسوس ہوتی ہے۔ اس کے باوجود کہ فوج نے غیر معمولی تباہ کن سیلاب میں جس طرح سے متاثرین کی مدد کی تھی اس نے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ فوج نے نہ صرف ان کی جان اور مال اسباب کو بچایا اور انھیں طبی امداد بھی دی۔
کئی ہفتوں تک ان کو کھلاتے پلاتے رہے اور سیکڑوں لوگوں کو ایسے علاقوں سے نکالا جن کا رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔ ان ساری انسانی ہمدردی کی خدمات کے باعث فوج کی بربریت کے بارے میں جو تاثر تھا اس میں قدرے کمی ہوئی مگر وادی میں ان کی موجودگی ہی اصل تنقید کا موجب ہے۔ وزیر اعلیٰ عمر فاروق عبداللہ یقیناً ریاستی پولیس کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ داخلی امن و امان کے مسئلہ پر وہی قابو پائے لیکن جب بھی فوج کو کسی مجمع کو کچلنے کا کہا جاتا ہے تو اس سے بدنامی نئی دہلی حکومت کی ہوتی ہے اور اسی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
سری نگر اور نئی دہلی کی حکومت دونوں نے ہی فوج کو بہت طویل عرصے تک کشمیریوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ انھیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ انھیں ریاست کے اندرونی مسائل میں نہیں الجھایا جانا چاہیے کیونکہ یہ جمہوریت کی نفی ہے جس کے لیے ہم سب کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ ملک پر اصل حکمرانی آئین کی ہے جو تمام شہریوں کو ان کی ذات پات اور شناخت سے ماورا برابر کا درجہ دیتا ہے۔
اس سے بھی زیادہ بدنما صورت حال یہ ہے کہ لاتعداد نوجوان لاپتہ ہو چکے ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ممکن ہے بعض لوگوں کو دہشت پسندوں نے بھی اغوا کیا ہو گا تا کہ ان کی برین واشنگ کی جا سکے یا ان کی رہائی کے عوض تاوان وصول کیا جائے لیکن ان کی تعداد خاصی محدود ہو گی۔ عوام کی سوچ یہ ہے کہ لاپتہ افراد کے پیچھے نئی دہلی حکومت کا ہاتھ ہے۔ اس تاثر کو اور زیادہ تقویت اس وقت ملتی ہے جب انھیں لاپتہ افراد کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں ملتا حالانکہ مجموعی صورت حال کی ذمے داری مرکزی حکومت کی ہی ہے۔
ایسے معاملات میں شفاف تحقیقات ناگزیر ہیں خصوصاً جو معاملات شروع سے ہی دبائے جائیں یا اگر ان کی تفتیش کی جائے تو یا تو نیم دلی سے کی جائے اور انھیں عدالتوں میں بھی نہ بھیجا جائے۔ اگر لوک پال (محتسب) کا ادارہ قائم ہوتا، جو کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر اب تک نہیں بن سکا، تو اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ اب ہمارا انحصار سیاسی جماعتوں کی حساسیت پر ہے کہ وہ ہی کوئی قدم اٹھائیں۔ درحقیقت یہ سیاسی پارٹیاں ہی ہیں جن کی پارلیمنٹ میں نمایندگی ہوتی ہے جو ملک کا سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہے۔ افسوس! اس کا عمل دخل بھی نظر نہیں آتا۔ وہ لوگ سیاست بازی میں مصروف ہیں اور انھوں نے ملک کے فوری طور پر حل طلب مسائل سے توجہ ہٹا لی ہے۔
خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کو بڑے دھارے میں لانا ضروری ہے تا کہ انھیں احساس ہو سکے کہ یہ ملک ان کا بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ بالادست طبقوں کا ہے۔ برصغیر کی تحریک آزادی کے دوران وعدہ کیا گیا تھا کہ کسی امتیاز کے بغیر سب کی بھلائی کا خیال رکھا جائے گا۔ مجھے یاد ہے کہ آزادی سے قبل بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے کہ ملک کے تمام لوگوں کو خوراک' رہائش اور ملازمت دی جائے گی۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ مالدار لوگ اپنی دولت کے مالک نہیں بلکہ کسٹوڈین یعنی محافظ ہیں اصل میں یہ دولت سارے عوام کے لیے ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو جو تحریک آزادی کے ایک نمایاں لیڈر تھے وہ تو کھلم کھلا سوشلزم کی بات کرتے تھے۔
نہرو نے 17 سال تک ملک پر حکمرانی کی اور یہ وعدہ کیا کہ بڑی صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے گا تا کہ چھوٹی سطح پر ملک بھر میں صنعت و حرفت کو فروغ دیا جا سکے لیکن یہ سب کچھ صرف کاغذ کی زینت ہی رہا جب کہ خود سر بیورو کریٹس اور لالچی سیاستدانوں نے اس نظریے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتوں نے خواہ ان کی قیادت کانگریس کا اتحاد کرتا تھا یا بی جے پی' دونوں نے بہت بلند و بانگ دعوے کیے مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ عام آدمی کی حالت ذرہ بھی بہتر نہ ہوئی اور نتیجہ ہمیشہ یہی نکلا کہ امیر اور زیادہ امیر ہو گئے اور غریب اور زیادہ غریب ہو گئے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑے وعدے کیے۔ لوک سبھا میں 282 نشستوں کے ساتھ انھیں مکمل اکثریت حاصل ہے اور وہ ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جن سے ملک کی کایا کلپ ہو جائے مگر ان کی مقبولیت کا جادو اتر رہا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ تو کریں گے۔ قانون سازی میں تبدیلیوں کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا لیکن انتظامی اقدامات تو فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں تا کہ حکمرانی میں ایک نمایاں تبدیلی نظر آ سکے۔
ظاہر ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے میں وقت لگے گا لیکن مودی کی انتظامیہ یہ تو کہہ سکتی ہے کہ اب حالات تبدیل ہو جائیں گے۔ مسلح افواج کے خصوصی اختیارات کے ایکٹ پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔ فوج کو یہ اختیار دینا کہ وہ محض شک کی بنا پر کسی کو گولی مار کر ہلاک کر سکتی ہے ایک جمہوری ملک کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔ جن دو نوجوان لڑکوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اسی ایک واقعے پر حکومت کو چاہیے کہ متذکرہ ایکٹ پر نظرثانی کرے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)